"MIK" (space) message & send to 7575

اِتنا سنّاٹا کیوں ہے بھائی؟

بولنا انسان کا بنیادی وصف اور جوہر ہے۔ ابلاغ کی صفت ہی انسان کو دیگر تمام جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔ بولنا محض ایک عادت نہیں بلکہ درحقیقت ذہن کی علامت ہے۔ ذہن میں جو کچھ بھی پنپتا ہے وہی زبان تک آتا ہے۔ سیانوں نے درست ہی تو کہا ہے پہلے تولو‘ پھر بولو۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ کچھ بھی کہنے سے پہلے ممکنہ عواقب و نتائج کو ذہن نشین رکھے۔ جو کچھ بھی ہماری زبان پر آتا ہے وہ کچھ نہ کچھ اثرات مرتب کرتا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر بولنے کی صورت میں صرف خرابیاں پنپتی ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذہن سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ کچھ بھی کہنے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں۔ اچھی طرح سوچ بچار کرکے بولنے کی صورت میں بات مؤثر ثابت ہوتی ہے، مطلوب نتائج کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ بلا تکان بول رہے ہیں۔ بولنے کے لیے ذہن میں کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے۔ کوئی بھی بات محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی۔ ہر بات کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل کا ذریعہ ہونی چاہیے۔ بلا جواز طور پر بولنے یا بولتے رہنے کی صورت میں کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ یہ نکتہ کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ معاملہ یہ نہیں کہ کم اور معیاری گفتگو کے ہنر کو سمجھا اور سیکھا نہیں جاسکتا۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ اس طرف آتے نہیں۔ سب لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی جواز کے بغیر بولنا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے سے بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ قدرے بے ذہنی کے ساتھ بولتے رہتے ہیں۔ شاید ان کا نظریہ ہے کہ جب کچھ کہنا ہی ٹھہرا تو ذہن کو بروئے کار کیوں نہ لایا جائے؟ ذہن کس لیے ہوتا ہے؟ کیا یہ محض سجاکر رکھنے کی چیز ہے؟ ذہن صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اس کو بروئے کار لایا جائے ۔ اِس سے کام لیتے ہوئے اپنے معاملات کو درست کیا جائے۔ ذہن کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی صورت ہی میں انسان اپنے معاملات کو درست کرنے میں خاطر خواہ حد تک کامیاب ہو پاتا ہے۔ اسی کی مدد سے ہم اچھا بول پاتے ہیں۔ اچھا بولنا معاملات کو درست رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ گفتگو اگر توازن اور حسن کے ساتھ ہو تو کسی بھی معاملے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
زندگی کا معیار بلند کرنے میں طرزِ گفتگو بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اچھا بولنا محض اوصافِ حسنہ میں سے نہیں بلکہ ہماری ایک بنیادی اور روزمرہ ضرورت ہے۔ اچھا بولنے کی صورت میں ہم اپنی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ آپ کے بہت سے معاملات محض اس لیے خرابی کی طرف چلے جاتے ہیں کہ آپ نے بولنے سے پہلے تولا نہیں ہوتا؟ سوچ سمجھ کر، نتائج کے بارے میں درست اندازہ لگاکر بولنے کی صورت میں خرابی کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ سوچ سمجھ کر بولنا ہماری راہ میں حائل دیواریں گراتا چلا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ محض حسنِ گفتگو کی بنیاد پر اپنے لیے نیک نامی کا اہتمام کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
بہت سوں کو آپ اس حال میں دیکھیں گے کہ محض بے سمجھے بولنے کے نتیجے میں اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ بہت سی دکانیں محض اس لیے نہیں چلتیں کہ دکان دار کو ڈھنگ سے بات کرنا نہیں آتی۔ گاہکوں سے تلخ لہجے میں بات کرنے کا نتیجہ فوری طور پر سامنے آ جاتا ہے۔ لین دین اور کاروبار میں گفتگو بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ تجارتی معاملات محض زبان کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ زبان سے مراد عہد بھی اور زبان سے مراد معاملات کو اچھی طرح بیان کرنا بھی۔ بہت سے تاجر اپنی طرزِ گفتگو کی بنیاد پر زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ وہ کسی بھی معاملے میں غیر نپی تُلی بات نہیں کرتے۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ بات اِس طور کی جائے جیسے گائیکی میں سیدھا سُر لگایا جاتا ہے۔ جس طور سیدھا اور سچا سُر لگانے سے گائیکی کا حسن نکھرتا ہے بالکل اُسی طور سیدھی اور غیر مبہم بات کرنے سے گفتگو مؤثر ثابت ہوتی ہے، بات بنتی ہے، معاملہ بحسن و خوبی نمٹتا ہے۔
آج ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف صرف گفتگو رہ گئی ہے۔ عام آدمی کو بولنے کا جیسے ہَوکا سا لگا ہے۔ سب کے ذہن میں یہ بات سماگئی ہے کہ تھوڑی چپ سے بھی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے۔ ذہنوں میں یہ گِرہ لگ گئی ہے کہ بولنے کی صورت ہی میں کوئی شناخت قائم ہوگی‘ کچھ پہچان بنے گی۔ زیادہ بول کر اپنی پہچان بنانے کے چکر میں لوگ سبھی کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ زیادہ بولنا کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا۔ اہمیت کم مگر اچھا بولنے کی ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیاب وہی رہتے ہیں جو ٹھہر ٹھہر کر، ڈھنگ سے اپنی بات کہہ پاتے ہیں۔ بولنا انسان کے لیے اظہار کا معاملہ ہے۔ آپ جو کچھ بھی ہیں‘ صرف اپنی گفتگو سے وہ ظاہرکر پاتے ہیں۔ آپ کی گفتگو آپ کی شخصیت کا عکس ہوتی ہے۔ ذہن میں جو کچھ پنپتا ہے وہ زبان تک آکر آپ کے بارے میں لوگوں کو بتاتا ہے۔
ذہن میں جو کچھ بھی پکتا رہتا ہے وہ سب کچھ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ذہن میں زہر ہو اور انسان میٹھا میٹھا بول کر فریقِ ثانی کا دل بہلائے، اُسے دھوکا دے تو یہ منافقت کہلائے گا۔ دوسری طرف ذہن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے کوئی رائے قائم کرے مگر آپ کسی کی دل آزاری سے بچنے کے لیے اُس رائے کے اظہار سے گریز کریں تو اِسے دانش مندی اور معاملہ فہمی کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ہر بات کو چھپانا منافقت نہیں۔ جہاں کچھ کہنے سے خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو وہاں خاموش رہنا مقتضائے دانش ہے۔ دین بھی یہی سکھاتا ہے۔ انسان کو ذہن کے پردے پر ابھرنے والا ہر خیال زبان تک نہیں لانا چاہیے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے لیے تو مشکلات پیدا کرتے ہی ہیں‘ دوسروں کی راہ میں بھی کانٹے بچھاتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں بہت سی خرابیاں محض اس لیے پائی جاتی اور پنپ رہی ہیں کہ ہم کم بولنا نہیں جانتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ کب بولنا چاہیے اور کب خاموش رہنا چاہیے۔ بولنے کے ہنر میں اہم ترین جز خاموشی ہے۔ انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ لب کُشائی کب کرنی ہے اور کب ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگانی ہے۔ یہ ہنر سیکھنا پڑتا ہے۔ سکھائے کون؟ زندگی، اور کون؟ زندگی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ بولنا بھی، نہ بولنا بھی۔ زندگی ہی کبھی کبھی ہمیں اُس مقام تک بھی پہنچاتی ہے جہاں ہماری خاموشی زیادہ بول رہی ہوتی ہے! کسی بھی انسان کا ایک بڑا کمال یہ ہوسکتا ہے کہ وہ خاموش ہو اور بول رہا ہو۔ انسان کا چہرہ کبھی کبھی پوری داستان بیان کردیتا ہے۔ کبھی کبھی حرکات و سکنات سے پوری کہانی بیان ہو جاتی ہے۔ یہ ایسا ہنر ہے کہ سیکھنے میں ایک عمر لگتی ہے۔
تھوڑی سی توجہ کے ساتھ جائزہ لیجیے تو آج اپنے معاشرے میں ہمیں ہر طرف ایسی خرابیاں دکھائی دیں گی جو محض ہماری بولنے کی عادت کے ہاتھوں پیدا ہوئی ہیں۔ جب سے ٹیلی مواصلات کا نظام آسان ہوا ہے، اپنی رائے کا اظہار کرنا بچوں کا کھیل ہوکر رہ گیا ہے۔ جس طور بچے کچھ بھی بول جاتے ہیں بالکل اُسی طور بڑے بھی اب کسی بھی معاملے میں کچھ بھی بولنے سے گریز کرنے کی راہ پر گامزن نہیں رہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں رائے کے اظہار کے معاملے میں خاصا لاپروا اور بے لگام کردیا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کوئی بھی بات کرنا یا کسی کی بات آگے بڑھانا عام ہے اور پھر اِس کے نتائج بھی بھگتے جاتے ہیں۔ کچھ نہ بولنے اور بہت زیادہ بولنے کا ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ یہ کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ کچھ بھی کہنے کا فائدہ کیا جب کوئی سمجھ ہی نہ پائے۔ آج ہمیں ایسی خاموشی اپنانے کی ضرورت ہے جو بول رہی ہو۔ الفاظ کی حُرمت اُسی وقت باقی رہ سکتی ہے جب اُنہیں پورے تعقل اور توازن کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ ہر مہذب معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر طرف اِتنا کچھ بولا جارہا ہے کہ کبھی کبھی تو صرف سناٹا سُنائی دیتا ہے! ایسا وہیں ہوتا ہے جہاں بولنے کے لیے کچھ بھی نہ بچا ہو یا لوگ بولنے کے نام پر محض ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں