ہم زندگی بھر مختلف سطحوں پر اور مختلف درجوں کی الجھنوں سے دوچار رہتے ہیں۔ جب تک زندگی ہے تب تک الجھنیں ہیں۔ یہ بدیہی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے سے گریز ہمارے مفاد میں نہیں۔ زندگی سر تا سر کشمکش کا نام ہے۔ یہ کوئی منفی حقیقت نہیں۔ جو کچھ ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرسکتے ہیں وہ بھی ہمیں معلوم ہے اور جو کچھ ہم‘ کسی بھی حوالے سے‘ کر پائے ہیں وہ بھی ہم سے یا کسی اور سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ہر انسان کو قدم قدم پر مختلف النوع الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ کیا یہی ہمارا مقدر ہے؟ جی ہاں! یہی ہمارا مقدر ہے۔ کشمکش مثبت چیز ہے؟ اس سوال کا جواب ملا جلا ہے۔ کبھی کوئی کشمکش ہمارے حق میں ہوتی ہے اور کبھی کوئی کشمکش ہمارے خلاف چلی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی کشمکش کو کس طور لیتے ہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہمارے سامنے آ کھڑا ہو اور ہم اُسے محض جھنجھٹ سمجھتے ہوئے جان چھڑانے کی کوشش کریں تو وہ ہمارے لیے صرف پریشانی کا سامان کرتا ہے۔ پہلے مرحلے میں تو ہمیں کسی بھی الجھن کا وجود تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ جب تک ہم کسی بھی الجھن کو الجھن کی حیثیت سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تب تک اُس سے کماحقہٗ نمٹنے کی لگن ہم میں پیدا نہیں ہوتی۔ ہماری زندگی میں کشمکش ہوتی ہی کیوں ہے؟ اِس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کشمکش آخر کیوں نہ ہو؟ جتنے انسان ہیں اُتنے ہی خیالات ہیں۔ جب اِن کا تصادم ہوگا تو لازمی طور پر خرابیاں بھی پیدا ہوں گی۔ ہم خرابی کو صرف خرابی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے خرابی ہے وہ کسی کے لیے خوبی بھی تو ہے۔ کوئی پریشان کن صورتِ حال دوسروں کو الجھن میں ڈالتی ہے مگر وہی صورتِ حال ہمارے لیے موافق کیفیت بھی تو پیدا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ زندگی بھر چلتے رہنا ہے۔ ہمیں یہ سب کچھ قبول کرتے ہوئے چلتے رہنا ہے۔ زندگی اِسی کا نام ہے۔ جینے کے لیے ایسا مائنڈ سیٹ چاہیے جس میں ہر معاملے کو اُس کی اصلیت کے ساتھ قبول کرنے کی صفت پائی جاتی ہو۔
زندگی کا ہر معاملہ ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے۔ کسی کی کامیابی سے بھی ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں اور کسی کی ناکامی بھی ہمیں بہت کچھ سکھا سکتی ہے۔ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے کیا ہے اِس کا مدار اِس بات پر ہے کہ ہم زندگی کو کس طور لیتے ہیں‘ سنجیدہ ہوتے ہیں یا نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کہیں قنوطیت پر مبنی طرزِ فکر و عمل ہمارے لیے راہِ عمل کو مسدود تو نہیں کر رہی۔ زندگی کو ہم کس طور لیتے ہیں اِس کا مدار بہت حد تک اس بات پر ہے کہ ہمارے ذہن میں کیا پایا جاتا ہے اور یہ کہ ہمیں کیا سکھایا گیا ہے۔ اگر تربیت منفی خطوط پر ہوئی ہو تو ذہن مثبت معاملات کی طرف جاتا ہی نہیں۔ جن بچوں کو زندگی کے بارے میں منفی انداز سے بتایا جاتا ہے وہ بڑے ہوکر صرف منفی طرزِ فکر و عمل کے حامل ہوتے ہیں اور یوں اُن کی زندگی میں مثبت اقدار کے پنپنے کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے۔ ذہنی ساخت یا فکری ڈھانچا طے کرتا ہے کہ ہم کسی بھی معاملے کو کس طور قبول کریں۔ فکری میلان ہی طے کرتا ہے کہ کوئی معاملہ ہمارے لیے مسئلہ ہے یا چیلنج۔ جو زندگی کو صرف مسئلہ سمجھتے ہیں وہ تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ رہتے ہیں۔ اُن کی حیثیت مجموعی طور پر صرف تماشائی کی سی رہ جاتی ہے۔ وہ کبھی تماشے کا حصہ نہیں بنتے بلکہ دور بیٹھے تماشا دیکھتے رہنے کو ہی زندگی سمجھ کر خوش رہتے ہیں۔
یہ نکتہ ہمہ وقت ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ہم معاشرے میں جئیں گے، کسی نہ کسی حوالے سے کشمکش ہماری زندگی کا حصہ رہے گی۔ کشمکش کسی بھی کیفیت یا معاملے کے بطن سے ہویدا ہوسکتی ہے۔ کشمکش کا مطلب لازمی طور پر خرابی یا تباہی و بربادی نہیں۔ کبھی کبھی تھوڑی بہت کشمکش ہمیں کچھ کرنے کا شعور عطا کرتی، باعمل رہنے کی تحریک بھی دیتی ہے۔ بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ مشکل صورتِ حال میں مثبت طرزِ فکر و عمل کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال یا کشمکش کو منفی سمجھ لینے سے مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ کشمکش صرف منفی ہو یا منفی نتائج ہی کی طرف لے جائے یہ ناگزیر نہیں۔ کبھی کبھی انسان کو دو چار قدم آگے بڑھ کر اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا پڑتی ہے۔ تب زندگی کا جوہر نمایاں ہوتا ہے اور انسان مثبت طرزِ فکر و عمل کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ زندگی کی حقیقت کو ہمارے شعرا نے اپنے اپنے انداز سے بیان کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ زندگی امتحان ہے۔ کوئی اِسے کشمکش کہتا ہے۔ کسی کی نظر میں یہ تماشا ہے۔ کسی کی رائے یہ ہے کہ زندگی کھینچ تان سے ہٹ کر کچھ نہیں۔ ہاں‘ مثبت رویہ رکھا جائے تو زندگی کا ہر رنگ اچھا لگتا ہے۔ چکبستؔ کہتے ہیں ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
یہ سودا زندگی کا ہے کہ غم انسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مر جانا
کوئی بھی پیچیدگی اُس وقت تک پیچیدگی رہتی ہے جب تک ہم اُسے ختم کرنے کا ذہن نہیں بناتے۔ جیسے ہی ہم طے کرتے ہیں کہ کچھ کرنا ہے، الجھنوں کے خاتمے کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
ہمارے شعرا نے زندگی کا سامنا کرنے کی تحریک دینے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حاصلِ کلام یہ رہا ہے کہ زندگی کو اُس کی تمام مشکلات اور آسانیوں کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ یہی دانش مندی ہے۔ کبھی کبھی بعض شعرا کا لہجہ تھوڑا سا مایوس کن معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا صرف ظاہری تاثر ہوتا ہے۔ چاہتے وہ بھی یہی ہیں کہ انسان زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ غور کرے، اپنے وجود کی گہرائی و گیرائی کو سمجھے اور روئے ارض پر اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ بامعنی بنانے پر متوجہ ہو۔ کوثرؔ مہر چند کہتے ہیں ؎
نہ صبح صبحِ مسرت نہ شام شامِ طرب
حیات کشمکشِ جبر و اختیار میں ہے
بات یوں ہے کہ جب کسی بھی حوالے سے کشمکش پائی جاتی ہو تو انسان کو بالعموم بہت کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اگر ذہن ناپختہ ہو، بات بات پر بدک جاتا ہو، بھٹک جاتا ہو تو انسان اُن معاملات سے بھی محظوظ نہیں ہو پاتا جن سے محظوظ ہونے کی تھوڑی بہت گنجائش پائی جاتی ہے۔ ایسے میں چھوٹی سی مشکل بھی بہت بڑی معلوم ہوتی ہے اور انسان کسی جواز کے بغیر اپنے آپ کو پریشانی کی نذر کرتا رہتا ہے۔ یہ پورا معاملہ تربیت کا ہے۔ اگر بچپن ہی سے نہ سکھایا گیا ہو کہ زندگی میں قدم قدم پر انتخاب اور کشمکش کا مرحلہ درپیش ہوگا تو انسان پختہ عمر میں ڈھنگ سے فیصلے نہیں کر پاتا۔ زندگی قدم قدم پر ہمارے سامنے آپشنز رکھتی ہے۔ ہمیں فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ یہ عمل یومیہ بنیاد پر بھی ہوتا ہے اور اِلتوائی بنیاد پر بھی۔ بعض فیصلے فوری کرنا ہوتے ہیں اور بعض فیصلوں کے لیے سوچنا لازم ہوتا ہے۔ بعض معاملات ہم سے پختہ سوچ کا تقاضا کرتے ہیں۔ کیریئر کے معاملے میں سرسری تفکر نہیں چلتا۔ اس حوالے سے تمام فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوتے ہیں۔
بہرکیف‘ جب تک دم میں دم ہے تب تک مختلف حوالوں سے کشمکش پر مبنی کیفیت کا سامنا تو کرنا ہی پڑے گا۔ کچھ معاملات ہمارے بس میں ہوتے ہیں اور کچھ ہمارے اختیار سے باہر۔ جبر و اختیار کی اِس کشمکش ہی کا نام زندگی ہے۔ یہ کھینچا تانی، یہ رسہ کشی ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ کشمکش سے دور رہتے ہوئے بھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے تاہم ایسی زندگی میں زیادہ کامیابی کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی۔ جینے کا مزہ تبھی ہے کہ جب انسان مشکلات کا سامنا کرے، جو کچھ کرسکتا ہے وہ کر گزرے۔ اس کے لیے جبر بھی سہنا پڑتا ہے۔ خیر‘ اِس کشمکش سے گزرنے کے بعد ہی انسان اپنا معیار بلند کر پاتا ہے۔ ہر کامیاب انسان کی زندگی کشمکش سے نبرد آزما ہی ملے گی۔