کیا کبیدہ خاطر ہونا فطری معاملہ ہے؟ کیا غمگین ہونا انسان کے لیے ناگزیر ہے؟ کیا رنجش اور رنجیدگی سے نجات نہیں پائی جاسکتی؟ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے نہ اثبات میں۔ عالمِ اسباب میں سب کچھ طے شدہ ہے۔ قدرت نے جس چیز کو جو کام سونپا ہے اُسے وہی کام کرتے رہنا ہے۔ مرئی مخلوقات میں انسانوں کے سوا کوئی مخلوق اپنے خالق کو جواب دہ نہیں۔ صرف انسان ہیں جن سے حساب لیا جانا ہے۔ یہی سبب ہے کہ زندگی بجائے خود امتحان ہے اور یہ دنیا امتحان گاہ یعنی دارالمحن۔ ایسے میں ہر انسان کو سنبھل سنبھل کر چلنا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کسی سے زیادتی کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ مزاج سے مطابقت نہ رکھنے والی یا مفاد کو ضرب لگانے والی کسی بھی بات یا معاملے پر رنجیدہ ہونا فطری امر ہے۔ حالات کی روش دیکھ کر رنجیدہ یا غمگین ہونا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ ہر انسان کو زندگی بھر ایسے معاملات سے نمٹنا ہوتا ہے جن کے نتیجے میں اُسے دکھ بھی پہنچتا ہے اور‘ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی‘ بدحواسی بھی طاری ہوتی ہے۔ دکھ، رنج یا غم محسوس کرنا کسی بھی درجے میں غیر فطری یا حیرت انگیز نہیں مگر ہاں‘ اس معاملے میں منطقی حد کا خیال رکھنا لازم ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم عمومی سطح پر وہ سوچتے ہی نہیں جو ہمیں لازمی طور پر سوچنا ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ہر انسان کو ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی ناموافق صورتِ حال ہمارے لیے الجھنیں پیدا کرتی ہے۔ تو کیا ہم کسی بھی پریشانی کو مقدر سمجھ کر، آنسو بہاکر چُپ ہو رہیں؟ یقینا نہیں۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ وہ کسی بھی خرابی کو سامنے پاکر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے مطمئن ہو رہے۔ ایسا کرنے سے خرابی دور تو کیا ہوگی‘ مزید بگاڑ پیدا کرے گی۔
جب تک دم میں دم ہے تب تک ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا ہے، الجھنوں کو پچھاڑنا ہے، مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ ہر انسان کا معاملہ ہے۔ کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ اُس کے حصے میں زیادہ غم آئے ہیں اور باقی سب تو مزے سے جی رہے ہیں۔ بھرپور مزے کی زندگی تو کسی کے نصیب نہیں لکھی گئی۔ سب کو اپنے حصے کے دکھ مل کر رہتے ہیں۔ الجھنیں سب کے لیے ہوتی ہیں اور اُن سے کماحقہٗ نمٹنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس معاملے میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ ہاں‘ جو لوگ ذہن و دل کو قابو میں رکھتے ہیں، حواس باختہ ہونے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آج ہم ہر طرف سے پریشانیوں میں گِھرے ہوئے ہیں تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے کبھی زندگی کے بنیادی تقاضوں کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ قدم قدم پر مشکلات کا پیدا ہونا غیر فطری ہے نہ ظلم و زیادتی پر مبنی۔ زندگی کا یہ سانچا یا ڈھانچا انوکھا نہیں کیونکہ یہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ زندگی نے اُس سے انصاف نہیں کیا اور اُس کے کھاتے میں زیادہ پریشانیاں ڈال دی ہیں تو یہ محض سادہ لوحی ہے۔
معاشرے میں جینا سو طرح کے مسائل سے نمٹنے کا معاملہ ہوتا ہے۔ ہر انسان الگ انداز سے سوچتا ہے۔ طرزِ فکر و عمل کا فرق انسانوں کے درمیان فرق سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ فرق اختلافِ رائے کو جنم دیتا ہے۔ اختلاف کو صحت مند طرزِ فکر کے ساتھ قبول کیا جائے تو بہتری کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اختلافِ رائے کسی بھی درجے میں ناپسندیدہ معاملہ نہیں۔ ہم زندگی بھر مخالفت کا سامنا کرتے ہیں اور خود بھی بہت سوں کے خلاف جاتے ہیں۔ اختلافِ رائے ہی سے سوچنے کی نئی راہیں نکلتی ہیں۔ اگر سبھی ایک دوسرے کے ہم خیال ہو جائیں تو کچھ نیا سوچنے کی راہ ہموار ہی نہ ہو پائے۔ کسی بھی شعبے میں کچھ نیا سوچنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اختلافات کو سمجھا جائے، اُن کا سامنا کیا جائے اور اپنی رائے پورے اعتماد و قوت کے ساتھ پیش کی جائے۔ مشکلات کا پیدا ہونا چونکہ فطری امر ہے اس لیے اُن سے نمٹنا بھی فطری امر ہی کے درجے میں ہے۔ کوئی بھی مسئلہ اس لیے نہیں ہوتا کہ اُس سے پریشان ہوا جائے۔ محض پریشان ہونے سے مسئلے کی پیچیدگی بڑھتی ہے۔ جسم میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اُسے دور کرنا پڑتا ہے تاکہ خرابی کا دائرہ وسعت اختیار نہ کرے، مختلف اعضا کو الجھن سے دوچار نہ کرے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ عملی سطح پر رونما ہونے والی مشکلات کا بھی ہے۔ اگر کسی کو معاشی معاملات میں الجھنوں کا سامنا ہے تو سوچنا پڑے گا۔ سوچنے ہی سے کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ محض پریشان ہونے سے کوئی بھی معاشی یا معاشرتی الجھن دور نہیں ہوتی۔
کسی بھی مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے منظم انداز سے سوچنا پڑتا ہے تاکہ منصوبہ سازی کی جاسکے۔ اگر مشکل صورتِ حال طویل المیعاد بنیاد پر منفی اثرات مرتب کرنے کی سکت رکھتی ہو تو اُس سے نمٹنے کے حوالے سے سنجیدہ ہونا لازم ہے۔ ایسے میں سرسری انداز سے سوچنا کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ آج ہماری بہت سے الجھنوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو سامنے پاکر ہم محض بدحواس ہونے کو کافی سمجھ لیتے ہیں۔ زندگی ایسا معاملہ نہیں جسے سرسری لیا جائے، سوچا ہی نہ جائے اور کسی نہ کسی طور وقت گزار لیا جائے، دھکا لگاکر کام چلا لیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ لوگ زندگی جیسی نعمت کو بھی شدید بے ذہنی اور بے دِلی کی نذر کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جتنی سنجیدگی درکار ہے اُس کا دسواں حصہ بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ حالات کا کام ہے ہمارے لیے بے ذہنی اور بے دِلی کی راہ ہموار کرنا۔ حالات فکر و عمل کے تفاعل کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔ ہم سب کچھ جو کچھ سوچتے اور کرتے ہیں اُس کا آپس میں تصادم ہوتا ہے۔ کہیں صورتِ حال ہمارے حق میں جاتی ہے اور کہیں ہم پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ زندگی بھر چلتا رہتا ہے۔ ہمیں حالات کے حوالے سے بے ذہنی اور بے دِلی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کرنا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر معاملات درست کرنے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ ہمارا قصہ یہ ہے کہ کسی جواز کے بغیر محض بے دِلی کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ غم محسوس ہو تو انسان اُس سے نجات کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ اگر غم محسوس ہی نہ ہو تو؟ پھر انسان کچھ کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
وہ دن گئے کہ زندگیٔ دل پہ ناز تھا
مدت ہوئی کہ غم تو ہے‘ احساسِ غم نہیں
بدلتے ہوئے حالات کے ہاتھوں ہمارے لیے الجھنیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی معاملات انتہائی غم انگیز بھی ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے۔ کہیں سے ہمیں خوشی ملتی ہے اور کہیں سے غم۔ اِن دونوں معاملات میں ہمیں بیدار مغز رہتے ہوئے جینا ہوتا ہے۔ وقت اور حالات کو الزام دینے کے بجائے ہمیں اپنے معاملات کی درستی پر متوجہ رہنا چاہیے۔ کسی بھی معاشرے کے لیے اِس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے شدید نقصان کو بھی محسوس نہ کرے۔ جب کسی بھی معاملے میں نقصان کا احساس ہی نہ تو اُس کے تدارک کے بارے میں سوچنے کی راہ بھی نہ نکل سکے گی۔ ہمیں ہر حال میں بیدار مغز رہتے ہوئے جینا ہوتا ہے۔ زندہ رہنے کی یہی معقول ترین صورت ہے۔ جب ہم اپنے ماحول کو سمجھتے ہیں اور اُس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے پر مائل ہوتے ہیں تب کوئی بھی مشکل غیر ضروری پیچیدگی پیدا نہیں کرتی۔ آج کا ہمارا معاشرہ بہت حد تک بے ذہنی کا شکار ہے۔ بے ذہنی ہی بے دِلی کو راہ دے رہی ہے۔ اِس کے نتیجے میں زندگی سے پیار کرنے کی صفت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ جو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اُسے محسوس کریں گے تاکہ تدارک کی صورت نکل سکے۔ دل اور دماغ‘ دونوں کو زندہ رکھنا ہے۔ اِن دونوں کا معیاری تال میل یقینی بنائے جانے تک کچھ بھی بہتر نہ ہوسکے گا۔ غم کا احساس لازم ہے تاکہ اُس سے نجات کے بارے میں سوچنے کی گنجائش پیدا ہو۔