معاملہ کوئی بھی ہو‘ ادھورا رہ جائے تو صرف پریشان کرتا ہے۔ ہم زندگی بھر ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے ادھورا رہ جاتا ہے۔ ادھورا پن ذہن کی الجھنیں بڑھاتا ہے۔ کسی بھی کام کو ادھورا چھوڑا جائے تو وہ ذہن میں جگہ گھیر کر بیٹھا رہتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اِس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ کسی بھی معاملے کو درست کرنے پر متوجہ اُسی وقت ہوا جاسکتا ہے جب اُس کا احساس پایا جائے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ کام ادھورے چھوڑتے جاتے ہیں اور اِس عادت کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات کو محسوس بھی نہیں کرتے۔عملی زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ ادھورے من اور ادھوری تیاری کے ساتھ عملی زندگی کا آغاز کرنے والوں کو آپ ہمیشہ الجھا ہوا اور پریشان حال ہی پائیں گے۔ اس معاملے پر متوجہ ہونا ناگزیر ہے مگر لوگ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔
ابراہیم جلیس کا شمار بڑے لکھنے والوں میں ہوتا تھا۔ اُنہوں نے کالم نگاری میں خاصا نام پیدا کیا۔ ایک دور تھا کہ لوگ اُن سے مشورے لے کر لکھنے کی طرف آتے تھے۔ حمید کاشمیری نے بھی جب لکھنے کا سوچا تو ابراہیم جلیس سے مشورہ کیا۔ ابراہیم جلیس کو اُنہوں نے اپنی ایک کہانی دِکھائی۔ ابراہیم جلیس نے کہانی پڑھی اور داد دی۔ حمید کاشمیری نے‘ جو اُس وقت نوجوان تھے‘ بتایا کہ وہ لکھاری کی حیثیت سے عملی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم جلیس نے اُن سے کہا کہ کم از کم پانچ سال تک کچھ بھی نہ لکھنا! حمید کاشمیری کے لیے یہ مشورہ چونکا دینے والا تھا۔ اُنہیں یقین ہی نہ آیا کہ ابراہیم جلیس پانچ سال تک کچھ نہ لکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت چاہی تو ابراہیم جلیس نے کہا کہ پانچ سال تک صرف پڑھنا۔ اِس دوران جو کچھ بھی زیرِ مطالعہ رہے گا وہ بہت کچھ سکھائے گا۔ یہ مشورہ اس لیے دیا گیا کہ جسے لکھنے کا شوق ہو اُسے مطالعے ہی سے معلوم ہو پاتا ہے کہ اب تک کیا لکھا جاچکا ہے اور اب کیا لکھا جانا چاہیے۔ ابراہیم جلیس چاہتے تھے کہ حمید کاشمیری جب لکھنے بیٹھیں تو ذہن میں کوئی الجھن نہ ہو اور وہ کسی پرانی بات کو بیان نہ کر بیٹھیں۔ بڑوں کو پڑھنے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ وسیع مطالعہ لکھاری کو بتاتا ہے کہ کسی بھی موضوع کو بڑوں نے کس طور برتا اور اب اُسے کس طور برتنا ہے۔ حمید کاشمیری نے ابراہیم جلیس کے مشورے پر عمل کیا۔ وہ پانچ سال تک مطالعہ کرتے رہے۔ اِس دوران انہوں نے کتب خانے کھنگال ڈالے۔ وہ دن رات پڑھتے رہتے تھے۔ وسیع البنیاد مطالعے سے اُنہیں بہت کچھ ملا۔ اُنہوں نے اچھی طرح دیکھ لیا کہ کسی بھی موضوع کو زیادہ تفصیل و توضیح کے ساتھ کیونکر بیان کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہیں نئے موضوعات بھی سُوجھے۔ اُنہوں نے نوٹس لینا شروع کیا۔ وہ کہانی اور ناول لکھنے کی طرف جانا چاہتے تھے۔ کسی بھی ناول نگار کے لیے مطالعہ اور مشاہدہ بنیادی اوصاف ہوا کرتے ہیں۔ مطالعہ سکھاتا ہے کہ کس طور لکھنا ہے اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ کیا لکھنا ہے۔ فکشن رائٹر کے لیے مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ بھی ناگزیر ہے۔ مشاہدہ انسان کو زبان و بیان کی وسعت کا حامل بناتا ہے۔ ناول نگاری میں چونکہ تفصیل ناگزیر ہوا کرتی ہے اس لیے غیر معمولی مشاہدے کا حامل شخص زیادہ اچھی طرح لکھ سکتا ہے۔
بہت سے نوجوان سوچے سمجھے بغیر کسی بھی شعبے میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ تیاری کچھ خاص کی ہوئی نہیں ہوتی۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ تھوڑی مدت ٹھوکریں کھانے کے بعد وہ شعبہ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسرے شعبے میں بھی یہی ہوتا ہے۔ پھر وہ تیسرے اور چوتھے شعبے کی طرف جاتے ہیں۔ آپ کو ایسے بہت سے کامیاب لوگ ملیں گے جو تین چار شعبوں میں ٹھوکریں کھانے کے بعد کچھ کرنے کے قابل ہو پائے۔ اِس دوران اُن کا اچھا خاصا وقت ضائع ہوا۔ اگر پوری تیاری کے ساتھ کسی بھی شعبے میں قدم رکھا جائے تو وقت ضائع نہیں ہوتا۔ وقت ہی سب کچھ ہے۔ وقت کا ضیاع ذہن میں گِرہیں بڑھادیتا ہے۔ انسان ضائع ہو جانے والے وقت کے حوالے سے اظہارِ تاسّف کرتا رہتا ہے۔ اس مصیبت سے بچنے کی ایک اچھی صورت یہ ہے کہ انسان بھرپور تیاری کے بغیر عملی زندگی شروع نہ کرے۔اگر کسی کو ٹیکنیکل لائن لینی ہے تو متعلقہ معاملات کے بارے میں سوچے، لوگوں سے ملے اور مشاورت کرے۔ کسی بھی تکنیک کو سیکھے بغیر اُس کی طرف بڑھنا اور اُسے زندگی بھر کا معاملہ بنالینا کسی بھی طور درست نہیں۔ بالکل اِسی طور علم و فن کے میدان میں بھی وہی لوگ آگے بڑھ پاتے ہیں جو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ اگر کسی کو اداکاری کا شوق ہے تو کچھ کر دکھانے کے لیے اُسے غیر معمولی محنت کرنا ہوگی۔ چانس تو مل جاتا ہے مگر کچھ اچھا کرنے کے لیے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ اچھی اداکاری کے لیے مشق ناگزیر ہے اور مشق بھی ایسی کہ انسان باقی سب کچھ بھول جائے۔ جب تک کوئی اپنے کام میں پوری طرح ڈوبتا نہیں تب تک اُسے گوہرِ مطلوب نہیں ملتا۔ ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔
تدریس ہی کو لیجیے۔ آپ کو ایسے بہت سے مدرس ملیں گے جو سطحی سے ہوتے ہیں یعنی چند کتابیں رٹ کر آتے ہیں اور وہی سب کچھ طلبہ کے سامنے اُگل دیتے ہیں! سرکاری اور غیر سرکاری‘ ہر دو طرح کے تعلیمی اداروں میں اکثر اساتذہ کا یہی معاملہ ہے۔ وہ جو کچھ پڑھاتے ہیں اُس کی اصلیت سے خود بھی واقف نہیں ہوتے۔ جس طور طلبہ رَٹا لگاکر امتحان دیتے ہیں بالکل اُسی طور بہت سے اساتذہ محض رٹے کی بنیاد پر پڑھاتے ہیں۔ اب کوئی بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ محض رٹے کی بنیاد پر پڑھانے والے اساتذہ اپنے طلبہ کو کیا دیتے ہوں گے۔ کسی بھی معلم یا مدرس کا بنیادی کام طلبہ کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کر پائیں تو پھر اُنہیں کچھ اور کرنا چاہیے۔ امتحان میں کامیابی کے لیے جو کچھ پڑھنا اور سمجھنا ہے وہ تو طلبہ اپنے طور پر بھی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ معلم اُن میں پوری زندگی کے لیے اعتماد پیدا کرتا ہے۔ یہ اعتماد اُسی وقت پروان چڑھتا ہے جب معلم پوری دیانت سے اپنا کردار ادا کرے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ بیشتر اساتذہ وہ ہیں جو کسی بھی دوسرے شعبے میں گنجائش نہ پاکر محض خانہ پُری کے لیے اس طرف چلے آتے ہیں۔ کیا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کچھ نہ کر پائے تو اداکاری یا گلوکاری کرنے لگے؟ ایسا نہیں ہوتا۔ تو پھر تدریس جیسے شعبے کا بیڑا غرق کرنے پر لوگ کیوں بضد رہتے ہیں؟ کسی بھی شخص کو تدریس کے شعبے میں کھپاتے وقت دیکھا جانا چاہیے کہ اُس میں اِس شعبے کا حق ادا کرنے کی ذہنیت بھی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ کسی کو فلم یا ڈرامے میں چانس دینے سے قبل ڈائریکٹر جامع سکرین ٹیسٹ لیتا ہے۔ وہ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ جسے چانس دیا جارہا ہے وہ اِس شعبے کا حق ادا کرسکے گا یا نہیں۔ آپ نے ایسے بہت سے اداکار دیکھے ہوں گے جو کم و بیش چار دہائیوں میں بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ تیاری کے بغیر کچھ بھی کرنے کا یہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔
نئی نسل کو تیاری کے بارے میں بہت کچھ بتانے کی ضرورت ہے۔ اب ہر شعبہ پنپ چکا ہے۔ مسابقت بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ آج کی نئی نسل انتہائی بدحواس ہے۔ دیکھنے اور کرنے کو بہت کچھ ہے اور زندگی بہت محدود۔ زندگی کے محدود ہونے کا احساس روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ نئی نسل بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا چاہتی ہے۔ جو مشورہ ابراہیم جلیس نے حمید کاشمیری کو دیا تھا وہی مشورہ آج کی نئی نسل کے لیے بھی صائب ہے۔ آج کی نئی نسل کو بھی بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کی خاطر مشاورت ناگزیر ہے۔ اُسے بتایا جانا چاہیے کہ بھرپور کامیابی کے لیے بھرپور تیاری لازم ہے۔ واضح ذہن اور مطلوب مہارت کے بغیر کام کرنا اپنے وجود پر ظلم ڈھانا ہے۔ لازم ہے کہ تیاری جامع ہو کیونکہ اب تو پلٹنے کی گنجائش بھی برائے نام رہ گئی ہے۔