بعض تعلقات بہت عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ کبھی بالکل سمجھ میں نہیں آتے اور کبھی صاف سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ یہ معاملہ سفارتی یا بین الریاستی تعلقات میں زیادہ ہوتا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی بھی یہی تاریخ ہے۔ یہ کھٹے میٹھے تعلقات کبھی اچانک انتہائی کھٹے ہو جاتے ہیں اور کبھی بہت میٹھے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ قوم آج تک حیران ہے کہ امریکہ سے تعلقات کی حقیقی نوعیت آخر ہے کیا۔ ہمارا جھکاؤ ابتدا ہی سے امریکہ کی طرف رہا ہے۔ امریکہ نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے ہمارے ساتھ روابط قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ ہم بھی اپنے بہت سے اہم اُمور اُسے سونپ کر مطمئن ہولیے تھے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو دورے کا دعوت نامہ (سابق) سوویت یونین سے بھی موصول ہوا تھا۔ اُنہوں نے نظریاتی بنیاد پر امریکہ کا انتخاب کیا۔ تب یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ کمیونسٹ بلاک کی طرف جھکنا دانش کے خلاف ہوگا۔ امریکہ تب سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ ''خدا کے وجود پر یقین رکھنے والے‘‘ معاشروں کا بھی سربراہ تھا! سوویت یونین دہریت کا علم بردار تھا۔ ایسے میں شہیدِ ملت لیاقت علی خان کو محسوس ہوا کہ دہریوں سے روابط بڑھانا زیادہ سودمند نہ ہوگا، یوں ''خدا والوں‘‘ کے ساتھ چلنے کے نام پر امریکہ کو منتخب کیا گیا۔
یہ انتخاب کیسا رہا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ ہم نے امریکہ سے دوستی اور اشتراکِ عمل کے نام پر صرف دُکھ اٹھائے ہیں۔ امریکہ نے کئی مواقع پر ضرورت کے مطابق ہمیں استعمال کیا اور پھر تنہا چھوڑ دیا۔ یہ عمل اِتنی بار ہوچکا ہے کہ اب تو احساسِ زیاں بھی ختم ہوچلا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں پاکستان کو ضرورت کے مطابق کبھی سوویت یونین کے خلاف بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی اور کبھی کسی اور کے خلاف۔ چین کے معاملے میں ہم غیر معمولی محتاط رہے ہیں۔ سوویت دور میں پاکستان کو کمیونسٹ بلاک کی طرف سے بہت کچھ ملا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی کاوشوں کی بدولت سابق سوویت یونین نے کراچی میں سٹیل مل قائم کی۔ روس چونکہ اس بلاک کا سرخیل اور ایک انتہائی مضبوط ملک تھا اس لیے آج بھی اُس بلاک کو رشین بلاک کہا جاتا ہے۔ ہم نے کمیونسٹ بلاک کی طرف زیادہ جھکنا گوارا نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یا تو ہمیں متوازن رویہ رکھنا چاہیے تھا یا پھر کمیونسٹ بلاک کی طرف جھک جانا چاہیے تھا۔ ہماری جڑیں مغرب میں تھیں ضرور مگر بہت زیادہ گہری نہ تھیں۔ امریکہ کی طرف جھکاؤ نے ہمیں مغرب پرست بنا ڈالا۔
ایک زمانے سے ہم امریکہ سے دوستی کے عجیب و غریب اور انتہائی پریشان کن نتائج بھگت رہے ہیں۔ امریکہ سپر پاور تھا اور ہے۔ سرد جنگ کے دور میں بھی امریکہ اور برطانیہ مل کر سپر پاور تھے۔ اِن دونوں کے تال میل نے درجنوں ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کا تیاپانچا کیا۔ پاکستان جیسے ممالک کو تیزی سے ابھرتا ہوا دیکھ کر مغربی طاقتوں نے جامع منصوبہ سازی کے تحت پیچھے کیا۔ پاکستان کی راہ میں مختلف حوالوں سے روڑے اٹکائے جاتے رہے۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں پاکستان کی غیر معمولی صلاحیت و سکت دیکھ کر مغربی طاقتوں نے متوجہ ہوکر راستے بند کرنا شروع کیے۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت تھا۔ قیام کے وقت ملک کی حالت خاصی ناگفتہ بہ تھی۔ بھارتی قیادت کو بھی یہ گمان تھا کہ یہ نوزائیدہ ملک زیادہ دن چل نہیں پائے گا اور گھٹنے ٹیکتے ہی بنے گی۔ اللہ تعالیٰ کا کروڑ ہا شکر کہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ پر یقین کے ساتھ محنت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کا شمار انتہائی کامیاب معیشتوں میں ہونے لگا۔ ہمارا نصیب کہ امریکہ اور برطانیہ ہمارے دوستوں میں رہے ہیں۔ تب سے اب تک پاکستان کے معاملے میں امریکہ اور برطانیہ کا رویہ دیکھ کر غالبؔ یاد آتے رہے ہیں جنہوں نے کہا تھا ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو!
مشکل یہ ہے کہ بہت کچھ سہہ کر بھی ہم امریکہ کو خوش رکھنے میں کامیاب ہوسکے ہیں نہ برطانیہ کو۔ دونوں کو یہ شکوہ رہا ہے کہ ہم نے جو کچھ بھی اُن کے لیے کیا وہ ناکافی تھا۔ خاص طور پر امریکہ تو ہماری قربانیوں سے کبھی خوش نہیں ہوا۔ جب بھی گردن کٹوائی گئی‘ امریکہ نے یہی اعتراض کیا کہ صحیح سے نہیں کٹوائی! گویا مرغی جان سے گئی اور کھانے والے کومزہ نہ آیا۔ امریکہ کے معاملے میں ہمارے اربابِ بست و کشاد کا معاملہ بہت عجیب رہا ہے۔ کئی بار اعتماد ٹوٹنے کے بعد بھی امریکہ کی چوکھٹ گیری کو اپنی معراج سمجھا جارہا ہے۔ انفرادی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کی روش عام ہو جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہماری اشرافیہ امریکہ سمیت پورے مغرب سے اِس قدر مرعوب ہے کہ اُس نے اِس خطے سے ہٹ کر کہیں بھی دل لگانے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ قومی مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں صرف اور صرف قومی مفاد کو ذہن نشین رکھا جاتا ہے، تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھے جاتے۔ ہمارا معاملہ یہ رہا ہے کہ تمام انڈے نہ صرف ایک ہی ٹوکری میں رکھتے ہیں بلکہ ٹوکری کا تحفظ یقینی بنانے کے معاملے میں خاطر خواہ حد تک سنجیدہ بھی نہیں ہوتے۔
افغانستان پر لشکر کشی کے بعد سوویت یونین کو وہیں پھنسائے رکھنے کے لیے امریکہ کی نظر ہم پر پڑی۔ اِس دوران بہت کچھ ملا مگر عوام کو نہیں‘ صرف اشرافیہ کو۔ عام پاکستانی کے نصیب میں صرف پریشانی لکھی تھی۔ 35 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کو بلاکر پاکستانی معاشرے کا تیا پانچا کردیا گیا۔ حکمران طبقے کو اِس سے کیا فرق پڑنا تھا۔ اِتنی بڑی تعداد میں افغان باشندوں کی آمد سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں معیشت اور معاشرت‘ دونوں حوالے سے مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر بحرانی کیفیت سے دوچار ہوا۔ معیشت کے لیے بھی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ جب سوویت افواج افغانستان سے رخصت ہوئیں اور سوویت یونین تحلیل ہوگئی‘ تب امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان سے بوریا بستر لپیٹا اور پاکستان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چل دیے۔ پھر جب ضرورت پڑی تو نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا اور اِس کی آڑ میں افغانستان پر چڑھائی کردی گئی۔ مقصد صرف یہ تھا کہ خطے پر نظر رکھنے کے لیے اس تباہ حال ملک کو اڈے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس کھیل میں پاکستان کے لیے مشکلات کا نیا دور شروع ہوا۔ افغان معاشرے میں پیدا ہونے والی ہلچل نے پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا۔ خود کش دھماکے عام ہوئے۔ امریکہ نے طالبان اور حقانی گروپ کو کچلنے کے نام پر پاکستانی علاقوں کو بھی خوب نشانہ بنایا۔ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پائی جانے والی شدید بے چینی نے پاکستان کے سرحدی علاقوں کو بھی غیر مستحکم رکھا۔ پاکستانی معاشرہ ایک بار پھر داؤ پر لگا۔ تب سے اب تک امریکہ نے وقفے وقفے سے یعنی ضرورت کے مطابق پاکستان کو نشانہ بنانے اور الزام تراشی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
پاکستان کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب اور کچھ کرنے کو نہیں بچا تو پھر پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سلامتی کے حوالے سے خدشات پر مبنی متنازع بیانات داغنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ پچھلی حکومتوں کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ نے بھی پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سلامتی کے معاملے کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔ معاشی خرابیوں اور سیاسی و معاشرتی الجھنوں کے باعث حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ امریکہ کے شدید متنازع بیانات پر ڈھنگ سے احتجاج بھی کرسکے۔ دفترِ خارجہ نے کماحقہٗ ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ حکومت کو اس معاملے میں قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ میڈیا کے ذریعے قوم تک حقائق پہنچائے جانے چاہئیں اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی طرف غیر محتاط انداز سے جھکنے سے گریز کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ امریکہ اور یورپ کے حوالے سے اب خوش فہمیوں میں مبتلا رہنے کی مزید گنجائش نہیں۔