زندگی مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے اور اِن مراحل سے سب کو گزرنا ہی پڑتا ہے۔ ہر مرحلے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ کسی مرحلے میں انسان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ کسی میں چند ایک ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور بعض مراحل صرف اور صرف ذمہ داریوں سے عبارت ہوتے ہیں۔ ہم زندگی بھر مختلف مراحل سے محض گزرتے ہی نہیں بلکہ ہر نئے مرحلے میں گزرے ہوئے مراحل کے بخشی ہوئی کھٹی میٹھی یادوں کا پوٹلا بھی اٹھائے پھرتے ہیں۔
بچپن اور لڑکپن کا زمانہ خاصی بے فکری سے عبارت ہوتا ہے۔ تب کسی پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ جب شعور پیدا ہی نہ ہوا ہو تب کسی پر کون سی ذمہ داری عائد ہو سکتی ہے؟ جب انسان عنفوانِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تب دنیا اُس کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگتی ہے۔ انسان جس ماحول میں رہتا ہے اُسے سمجھنا بھی لازم ہے کہ ایسا کیے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں ہو پاتا۔ جو کچھ ماحول میں بدل رہا ہو اُس کے مطابق خود کو بدلنا ناگزیر ہے اور اگر ماحول غیرمعمولی رفتار سے بگڑ رہا ہو تو کسی اور ماحول میں جاکر رہنے کی کوشش کرنا بھی لازم ٹھہرتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہیں۔ ہر انسان کو بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق بدلنا ہی ہوتا ہے۔ خود کو بدلنے کی انتہائی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے ماحول سے مکمل بیزار اور مایوس ہوکر کسی اور ماحول کو اپنائے۔ علاقہ ہی نہیں شہر یا ملک بھی بدلنا پڑے تو انسان بدلتا ہے۔ ایسا کرنے کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ بہر کیف‘ یہ سب کچھ ہم سب کی زندگی میں کسی نہ کسی طور ہوتا ہی ہے۔
زمانے تو سارے ہی گزر جاتے ہیں مگر بعض زمانے اپنی چھاپ ایسی چھوڑتے ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتی۔ جوانی کا زمانہ بھی کچھ ایسے ہی اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ عنفوانِ شباب کے دور میں انسان اِس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی کسی اور ہی دنیا میں جی رہا ہوتا ہے۔ رگوں میں دوڑتا ہوا لہو گرم ہو تو انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک ملتی رہتی ہے۔ اٹھتی جوانی انسان میں بہت کچھ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے اور لگن بھی۔ یہی وہ دور ہے جب انسان کچھ بننے کا سوچتا ہے اور سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری کرتا ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں میں زندگی کے حوالے سے عمومی سطح پر خاصی مثبت سوچ پائی جاتی ہے کیونکہ وہ بہت کچھ سیکھنا اور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ رگوں میں گرم لہو زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنانے کی تحریک دیے بغیر نہیں رہتا۔ یہ گویا ایک طرح کی 'کال‘ ہوتی ہے۔ کوئی اس کال پر دھیان دے تو ٹھیک ورنہ وقت اور وسائل کا ضیاع روکا نہیں جا سکتا۔
جب زندگی سمجھ میں آنے لگتی ہے تب اِس کی دلکشی واضح ہونے لگتی ہے اور اِس میں دلچسپی بھی بڑھتی ہے۔ نئی نسل تازہ دم ہونے کی بدولت جو کچھ سوچتی ہے وہ کر گزرتی ہے۔ یہی وقت زندگی کو کچھ بنانے کا ہوتا ہے۔ بامقصد اور بارآور زندگی یقینی بنانے کی خواہش ہر انسان کے دل میں ہوتی ہے مگر اِس کٹھن راہ پر زیادہ دور چلنے کی ہمت کم ہی لوگوں میں ہوتی ہے۔ امیر خسرو نے کہا ہے ''بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی‘‘ اور واقعی ایسا ہے۔ آسان تو کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔ کسی بھی کام کے لیے ایک خاص حد تک محنت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔
ہر عہد میں نئی نسل نے بہت کچھ کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اُس کے دم ہی سے معاشرے توانا رہتے‘ زندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں نئی نسل بے راہ رَوی کا شکار ہو اور کسی منزل تک پہنچنے کی حقیقی طلب اپنے دل میں محسوس نہ کرے تو صرف وہی برباد نہیں ہوتی بلکہ پورا معاشرہ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ نیا نیا ہوش اور نیا نیا جوش بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ زندگی کا وہ مرحلہ ہے جب اندھیرا بھی چمکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بالکل فطری ہے۔ کسی بھی معاشرے میں نوجوان ہی تمام اُمیدوں کا مرکز ہوتے ہیں۔ کچھ نیا کرنے کی ہر توقع اُنہی سے وابستہ کی جاتی ہے۔ جہاں دیدہ نسل بہت سے معاملات میں پختہ ہو چکی ہوتی ہے۔ اُس کا تجربہ اور مشاہدہ اُسے وقیع بناتا ہے۔ یہ نسل بہت کچھ جانتی ہے مگر بہت کچھ کر نہیں سکتی۔ ڈھلتی ہوئی عمر انسان سے کام کرنے کی بھرپور لگن چھین لیتی ہے۔ ڈھلتی عمر میں بھی کام کرنے کی غیرمعمولی لگن رکھنے والے خال خال ہوتے ہیں۔ ہاں‘ اُن کے تجربے سے، مشاہدے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ کامیاب معاشرے وہ ہیں جن میں پرانی نسل اپنا تجربہ نئی نسل کو منتقل کرتی ہے اور اُسے وہ سب کچھ کرنے دیتی ہے جو کیا جانا چاہیے۔
آج بیشتر پس ماندہ معاشروں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی نئی نسل راہ سے ہٹی ہوئی ہے۔ اِس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اُسے راہ سے ہٹایا گیا ہے اور راہ پر آنے بھی نہیں دیا جا رہا۔ ترقی یافتہ معاشروں نے ایسا جال بُنا ہوا ہے جس میں کمزور معاشرے بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور اب اُن کے نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ اِس کے نتیجے میں مایوسی کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔ کمزور معاشروں میں کام کرنے کی لگن دم توڑتی جارہی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ بڑی طاقتوں نے مل کر اُن کے گرد جال بُن دیا ہے۔ یہ جال کس طور توڑا جائے یہ البتہ مشکل سے سُوجھتا ہے۔ کمزور معاشروں کو خاصے منظم انداز سے دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ اُن میں افتراق و انتشار کا بازار گرم رکھنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ ہر طریقہ اپنا کام ڈھنگ سے کرتا ہے اور یوں پسماندگی دور نہیں ہو پاتی۔ پاکستان بھی ایک ایسا ہی معاشرہ ہے۔ یہاں بھی بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ معاشی مشکلات کو بنیاد بناکر بڑی طاقتیں ہماری راہ میں روڑے اٹکاتی آئی ہیں۔ کئی شعبوں کو خاصے منظم انداز سے برباد کیا گیا ہے۔ نئی نسل کو یوں نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ اُبھرنے اور کچھ کر دکھانے کے قابل نہیں ہو پاتی۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہم آج جہاں بھی کھڑے ہیں اُس کی حتمی ذمہ داری تو ہمِیں پر عائد ہوتی ہے؛ تاہم یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کئی بیرونی ایجنڈوں نے ہمارے ہاں بگاڑ محض پیدا ہی نہیں کیا بلکہ بھرپور تواتر سے اُس کا دائرہ وسیع کرنے پر بھی توجہ دی ہے۔ یہ سب کچھ اِس طور ہوا ہے کہ ہم محض تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔
نئی نسل کا جوش بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ جوش معاشرے کو بلند کرنے کے کام آتا رہا ہے۔ ہر معاشرے میں نئی نسل کام کرنے کے بھرپور جذبے سے سرشار ہوتی ہے۔ اٹھتی جوانی کچھ بننے کی راہ سجھاتی ہے تو انسان تھوڑا متوجہ ہوکر اپنے لیے کوئی لائحہ عمل طے کرتا ہے۔ پرانی نسل کا بنیادی کام رہنمائی کرنا ہے، اپنے تجربے کی بنیاد پر بہترین مشوروں سے نوازنا ہے۔ یہ کام بھی تیاری کا طالب ہے۔ نئی نسل میں ہوش بھی نیا نیا وارد ہوا ہوتا ہے اِس لیے وہ بہت سے معاملات میں معقول فیصلے نہیں کر پاتی۔ ہوش پر جوش کو غالب آتے دیر نہیں لگتی۔ ایسے میں پرانی نسل کو آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں کیونکہ ''جنریشن گیپ‘‘ بیشتر معاملات کو بگاڑنے پر تُلا رہتا ہے۔ نئی اور پرانی نسل ایک دوسرے کو قبول کرے تو ٹھیک ورنہ گاڑی زیادہ دور تک نہیں چل پاتی۔ ہمارے ہاں بھی‘ دیگر ترقی پذیر معاشروں کی طرح‘ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پرانی نسل کچھ کہنے کو تیار نہیں اور نئی نسل کچھ سننے پر آمادہ نہیں۔ یہ کشمکش محض خرابیاں پیدا کر رہی ہے۔
جب نئی نسل میں محض جوش پایا جاتا ہو تب پرانی نسل کو آگے بڑھ کر تربیتی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ پرانی نسل اپنا تجربہ پورے تحمل کے ساتھ اور منظم طریقے سے نئی نسل کو منتقل کرے۔ نئی نسل کو تحمل سکھانا اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب پرانی نسل بھی تحمل پر یقین رکھتی ہو۔ اِس حوالے سے دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔