یہ بھی عجیب سلسلہ ہے کہ بات چاہے کہیں سے شروع ہو، گھوم پھر کر اپنے اصل مقام یعنی نقطۂ آغاز کی طرف آ جاتی ہے۔ جب کسی معاشرے پر جمود کی کیفیت طاری ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ان معاشروں میں خاص طور پر ایسا ہوتا ہے جہاں معاملات رُکے رہتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں کسی بھی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہے۔ عملی زندگی پر جمود کی تہہ جمی ہے۔ جمود بھی ایسا کہ دیکھ کر دل دہل جائے۔ لوگ رُکے ہوئے ہیں، ساکت ہیں۔ معاملات کو واضح طور پر مثبت اور تعمیری رُخ دینے کے لیے کوئی بھی آسانی سے آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ پی ٹی آئی کی سربراہی میں قائم حکومت کے ختم ہونے پر جب پی ڈی ایم کی حکومت نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے تب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہوش رُبا اضافے نے عوام کو گھماکر رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔ عوام چیخ اُٹھے۔ کورونا کی وبا نے معاملات کو پہلے ہی خاصا بگاڑ دیا تھا۔ معیشت جامد تھی۔ کاروباری دنیا پریشان تھی۔ عوام کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ ڈیڑھ‘ دو برس کے دوران معیشت کا ہر شعبہ بُری طرح متاثر ہوا۔ سرمایہ کاروں کے لیے منافع کے ساتھ سرمائے کی واپسی انتہائی دشوار ہوگئی۔ صنعتکار پریشان تھے کہ اُن کے یونٹ کورونا کی روک تھام کے نام پر بند کرا دیے گئے۔ یہ حال تاجروں کا بھی تھا۔ تجارتی مراکز کی بندش نے بھی اچھی خاصی پریشانی کو راہ دی۔ ایک طرف بے روزگاری بڑھی اور دوسری طرف افلاس۔ رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کردی۔ مہنگائی کا معاملہ اندھے کی لاٹھی جیسا ہے۔ اندھے کی لاٹھی دیکھتی نہیں کہ کس کے سر پر پڑی، کس کی پسلی توڑی، کس کے منہ پر لگی۔ ملک اس وقت گونا گوں معاشی و معاشرتی مسائل سے دوچار ہے۔ مہنگائی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ کل تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ مہنگائی حد سے بڑھے گی تو لوگ چیخ اٹھیں گے اور حکومت کو کچھ نہ کچھ ریلیف کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو عوام کی کچھ پروا نہیں اور عوام کو حکومت کے حوالے سے کچھ سوچنے سے زیادہ ایڈجسٹمنٹ کی فکر لاحق ہے۔ مہنگائی کا گراف چاہے جتنا بلند ہو جائے، آخرِکار سب کچھ ایڈجسٹمنٹ کی دہلیز پر ڈھیر ہو جاتا ہے۔ حکومت کسی بھی چیز کے نرخ چاہے جتنے بھی بڑھائے‘ لوگ رو دھو کر سب کچھ قبول کرتے ہیں اور تھوڑی سی رسمی نوعیت کی آہ و بکا کے بعد معاملات پھر وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ یہ تماشا ایک طویل مدت سے اور خاصے تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ جب بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھتے ہیں، بہت سی اشیا و خدمات کے نرخ بھی بلند ہو جاتے ہیں۔ جواز یہ بنایا جاتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے یعنی پچھلی قیمت پر نہیں ملتی۔ مگر جب معاملات نارمل ہو جاتے ہیں تب قیمتیں نیچے بھی لائی جانی چاہئیں مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی پوچھے تو جواب ملتا ہے کہ سب کم کریں گے تو ہم بھی کریں گے۔ یہ جواب بنتا تو نہیں مگر ملتا یہی جواب ہے۔
حکومتی مشینری کا معاملہ یہ ہے کہ اول تو اُس کے ہاتھ میں زیادہ کچھ ہے نہیں۔ اگر چند ایک معاملات میں اُس کی بات چلتی ہے تو بھی بات وصولی سے شروع ہوکر وصولی پر ختم ہو جاتی ہے۔ انتظامی مشینری کے مزاج میں کرپشن گندھی ہوئی ہے۔ جو جتنا مال سمیٹ سکتا ہے سمیٹ رہا ہے۔ انتظامی مشینری کے بیشتر پُرزوں کو اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ اِس کے نتیجے میں عام آدمی کو کیا جھیلنا پڑتا ہے۔ کسی بھی نوع اور کسی بھی سطح کی کرپشن کا حتمی بوجھ تو عام آدمی ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمارا معاملہ دریا کا سا ہوگیا ہے۔ کچھ بھی ہوتا رہے، دریا کی روانی برقرار رہتی ہے۔ دریا کسی بھی بات کا کچھ اثر نہیں لیتا۔ کوئی اُس میں ڈوب کر مرے یا تیر کر اسے پار کرے۔ دریا اپنی موج میں‘ اپنی دُھن میں رہتا ہے ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
ہمارے معاشرے کی چند خصوصیات بہت نمایاں ہیں۔ ایک بڑی اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ لوگ غیر معمولی رفتار سے خرچ کرنے کے عادی ہیں۔ صرف کا رجحان ہمارے ہاں ہمیشہ کمانے کے رجحان پر غالب رہا ہے۔ لوگ اپنی ہر طرح کی آمدن بہت تیزی سے خرچ کرنے کے عادی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ لوگ پیسے کو اپنے پاس زیادہ دیر نہیں رکھتے۔ مختلف مدات میں جی بھرکے خرچ کرنے کا رجحان معاملات کو خراب کرتا جا رہا ہے۔ اب یہ کیفیت انتہائی نوعیت کی شدت اختیار کرچکی ہے۔ ایسے میں اصلاحِ احوال کے لیے بیدار مغز رہتے ہوئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ اب تک اس حوالے سے کچھ خاص کیا نہیں گیا۔ یہ کوئی آسان کام ہے بھی نہیں! لوگوں کے مزاج کو تبدیل کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ کام دو‘ چار مہینوں یا سال‘ دو سال میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے عشروں کی منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے۔ تعلیم و تربیت کا معیار بلند کرنے اور سمت بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔
معاشرے کو معاشی الجھنوں سے نجات دلانے سے بہت پہلے معاشرتی پیچیدگیوں سے پاک کرنیکی ضرورت ہے۔ لوگوں کی نفسی ساخت میں انتہائی نوعیت کی خرابیاں در آئی ہیں۔ مزاج ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔ فکری ساخت میں جان لیوا نوعیت کی خامیاں ہیں۔ لوگ بیشتر معاملات میں متوازن طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ کرنے کی صفت سے محروم ہوچکے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ عمومی مزاج کی خرابی میں کچھ تو حکومتی مشینری کا ہاتھ ہے اور پھر یوں بھی ہے کہ لوگوں نے بھی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے میں کبھی بخل سے کام لیا ہے نہ تساہل سے۔ آج ہمارے معاشرے میں جتنی بھی معاشرتی اور نفسی پیچیدگیاں دکھائی دے رہی ہیں اُن کے لیے کسی ایک فریق کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اِس 'نیک کام‘ میں سب نے حسبِ توفیق حصہ ڈالا ہے۔ کم و بیش ڈھائی عشروں کے دوران ہمارے ہاں بہت کچھ بگڑا ہے۔ یہ بگاڑ کم و بیش ہر شعبے میں ہے۔ کرپشن ایک زمانے سے ہمارے خطے میں رہی ہے۔ نیت اور ارادوں کی کمزوری پاکستانی معاشرے کا بھی حصہ رہی ہے مگر گزرے ہوئے ادوار میں معاملات بہت حد تک قابو میں رہا کرتے تھے۔ آج کی سی بے حواسی نمایاں تھی نہ محسوس ہوتی تھی۔ اقدار زندہ تھیں۔ لوگ تمام معاملات میں یکسر غیر مہذب نہیں تھے۔ کرپشن تھی مگر ایسی نہ تھی کہ انسان بے حواس ہوکر کچھ بھی کر گزرے۔ دنیا کو پانے کی ہوس بے لگام نہ ہوئی تھی۔ آج معاملہ بہت مختلف ہے۔ آج ہمارے معاشرے کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کچھ بھی ہوتا رہے‘ دریا بہتا رہتا ہے۔ معاشرے کو اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں رہی کہ کس پر کیا گزرتی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں حالات کے مطابق تبدیل ہونے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں معاملہ کچھ کا کچھ ہے۔ یہاں لوگ حالات کے مطابق نہیں بدلتے اور مہنگائی کے پیدا کردہ رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی پاکستان میں ہمیشہ رہی ہے مگر اب یہ معاملہ جان لیوا نوعیت کی شدت پکڑ چکا ہے۔ اب کچھ بھی قابو میں دکھائی نہیں دے رہا۔ ہر شعبہ مافیا کے تصرف بلکہ چنگل میں ہے۔ اب کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ کسی چیز کی قیمت کب کیا ہو جائے۔ روپے کی قدر یعنی قوتِ خرید اتنی تیزی سے گرتی جارہی ہے کہ لوگ دولت کو زیادہ دیر اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے۔ صرف کا رجحان مزید زور پکڑ رہا ہے۔ ایک سال کے دوران معاملہ ایسا بگڑا ہے کہ ایک طرف امریکی ڈالر کی قدر خطرناک حد تک بڑھی ہے اور دوسری طرف سونے کی قیمت میں بھی ہوش رُبا رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مہنگائی واقعی ہوش اڑا دینے والی ہے۔ لوگ مہنگائی کے حوالے سے خود کو بدل کر اس پر قابو پانے کی کوشش کرنے کے بجائے مہنگائی کے ہاتھوں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق خود کو بدل کر اُسے اپنے معاملات میں ایڈجسٹ کرتے جاتے ہیں۔ مہنگائی کو دریا سمجھ لیا گیا ہے جسے رواں رہنا ہے۔ مہنگائی کے دریا کی روانی کم کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔