وزیر اعظم نے کسان پیکیج کا اعلان کرکے اہم ضرورت پوری کی ہے۔ حالیہ سیلاب نے کسانوں کے لیے واقعتاً اتنے مسائل پیدا کیے ہیں کہ اُن کی مدد ناگزیر ہے۔ 3 کروڑ 30 لاکھ افراد سیلاب سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب کے ہاتھوں اپنے علاقوں سے بے دخل ہونے والوں کے شب و روز کس طور گزر رہے ہیں اِس کا اندازہ اُنہی کو ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جس کسان پیکیج کا اعلان کیا ہے اُس کے تحت کسانوں کو 1800 ارب روپے کے قرضے دیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے پیر کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد میں 80 ارب روپے نقد اور امدادی اشیا تقسیم کی جاچکی ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب سے متاثرہ افراد میں 70 ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ چھوٹے کاشت کاروں کی ریلیف کے لیے 10 ارب 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ دیہی علاقوں کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے 50 ارب روپے کے قرضوں کی منظوری دی گئی ہے۔ اس میں 6 ارب 40 کروڑ روپے کی سبسڈی بھی شامل ہے۔ یہ پیکیج اگر پوری دیانت اور شفافیت کے ساتھ بروئے کار لایا جائے تو دیہی معاشرے کے چند بنیادی مسائل کے حل میں غیر معمولی حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
ہمارے ہاں کسانوں کے حالات ابتدا ہی سے خراب رہے ہیں۔ دیہی کلچر میں کسان کے لیے بہتر زندگی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماحول چاہے کوئی ہو، غریب آدمی کے لیے زندگی سوہانِ روح ہے۔ اُس کے لیے زندگی کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کسانوں کو دی جانے والی بیشتر مراعات سے چھوٹے اور بڑے‘ ہر طرح کے زمیندار فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کھیتوں میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کو برائے نام معاوضہ ملتا ہے۔ اُن کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ہمارے ہاں زرعی شعبے کو انکم ٹیکس وغیرہ سے دور رکھا گیا ہے۔ جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ زرعی پیداوار سے ہونے والی یافت اِتنی نہیں ہوتی کہ اُس پر ٹیکس لیا جائے۔ یہ رعایت کاشتکاروں اور عام دیہی افراد کے لیے نہیں۔ زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھ کر در اصل بڑے زمینداروں، وڈیروں اور جاگیر داروں کو نوازا گیا ہے۔ منتخب اداروں میں دیہات سے با اثر شخصیات منتخب ہوکر آتی ہیں۔ یہ شخصیات اپنے مفادات کے لیے ایک ہو جاتی ہیں اور مرضی کے قوانین اور پیکیج منظور کراتی ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ دیہات کا عام آدمی اگر مشکلات کا شکار ہے تو کیا شہروں کا عام آدمی بہت مزے سے جی رہا ہے۔ جو حال دیہات کے غریب عوام کا ہے وہی حال شہروں کے غریبوں کا بھی ہے۔ قومی معیشت کا پورا بوجھ شہروں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ شہری آبادی کا بڑا حصہ ٹیکس نیٹ میں ہے۔ کسانوں کو معاوضہ بینکنگ سسٹم کے ذریعے دیا ہی نہیں جاتا کہ اُس سے ٹیکس منہا کیا جائے۔ شہروں میں کام کرنے والے افراد چونکہ بینکنگ سسٹم کے ذریعے تنخواہیں وصول کرتے ہیں اس لیے اُن سے ٹیکس وصولی کوئی مسئلہ نہیں۔ بینکنگ ریکارڈ کی بنیاد پر اُن سے ٹیکس وصول کر ہی لیا جاتا ہے۔
کسی بھی حکومت نے اب تک شہری علاقوں کے عام آدمی کے بارے میں سنجیدگی سے کچھ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ صرف دیہی علاقوں کے عوام پریشانی سے دوچار ہیں۔ دیہی معاشرے کی مجبوریاں بھی کم نہیں۔ وہاں لوگ بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ لوگوں کو ہسپتال تک پہنچنے کے لیے اچھی خاصی زحمت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ تعلیم کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ بچوں کو سکول تک پہنچنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا حصول اور بھی مشکل ہے۔ دیہات اور قصبوں میں روزگار کے معقول ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بہتر معاشی امکانات کے لیے لوگوں کو درمیانے اور بڑے حجم کے شہروں کی طرف جانا پڑتا ہے۔ اِن تمام مسائل کا تدارک لازم ہے مگر اس حقیقت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شہروں میں بسے ہوئے لوگوں کی جیب خالی کرکے پورے ملک کو چلانا کسی بھی درجے میں انصاف نہیں۔ غریب آدمی تو ہر ماحول میں غریب و مجبور ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف دیہات کا عام، غریب آدمی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ شہروں میں بھی کم و بیش ایسی ہی کیفیت ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ یہاں عام آدمی کا اُتنا ہی بُرا حال ہے جتنا کسی گاؤں میں رہنے والے کا۔ کراچی کی نصف سے زیادہ آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ لوگ پینے کا صاف پانی بھی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔ بجلی اور گیس کا بحران اپنی جگہ ہے۔ چھوٹے اور درمیانے حجم کے شہروں کا بھی بُرا حال ہے۔ شہروں میں زمین بہت مہنگی ہے۔ عام آدمی کے لیے گزارہ بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اس پر یہ مصیبت کہ ملک کو چلانے کے لیے سارے ٹیکس بھی وہی ادا کرے۔ یہ صریح نا انصافی ہے۔
کسی بھی حکومت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ عام آدمی کے مسائل کو نظر انداز کرکے یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ بہتر طرزِ حکمرانی کے تحت کام کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک کسی بھی حکومت نے عام آدمی کی بھلائی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکاری معاملات میں عام آدمی کی بہبود کے بارے میں سوچنا بھی ممنوع کے درجے میں ہے۔ بہبودِ عامہ کے بغیر ملک کسی طور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ کامیاب ترین معاشروں پر طائرانہ نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ عام آدمی کو پُرسکون انداز سے جینے کے قابل بنانے ہی پر معاشرہ کچھ کرسکا‘ بہتر طرزِ زندگی ممکن بنائی جاسکی۔ ہمارے ہاں دیہی ماحول میں اب تک یہ تصور پایا جاتا ہے کہ شہروں میں بسنے والے تمام کے تمام افراد غیر معمولی سطح کی کامیاب زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ کہ اُن کے نصیب میں تو مزے ہی مزے لکھے ہیں۔ دیہات میں رہنے والوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اُنہیں تو کھیتوں تک جانے کے لیے چند منٹ چلنا پڑتا ہے جبکہ بڑے شہروں میں لوگ کام پر جانے کے لیے روز پچیس‘ تیس کلو میٹر تک کا سفر کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ کراچی میں ایسے لاکھوں افراد ہیں جو کام پر جانے اور آنے کی مد میں یومیہ چالیس‘ پچاس کلو میٹر کا یکطرفہ سفر کرتے ہیں۔ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں بھی لوگ ایسی ہی پریشانی سے دوچار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تنخواہ کا اچھا خاصا حصہ یومیہ سفر میں کھپ جاتا ہے۔ شہر میں رہنے کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ انسان کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی اب چیلنج سے کم نہیں اور یہ چیلنج بھی کبھی کبھار والا نہیں بلکہ مستقل ہے۔
حکومت کے منصوبہ سازوں کو کسی بھی معاملے میں منصوبہ سازی کرتے وقت شہروں کے عام آدمی کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ دیہی علاقوں کے عوام کے لیے زندگی اگر بوجھ ہے تو ایسا ہی معاملہ شہروں میں بھی ہے۔ یہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ صرف دیہی عوام کو رعایتیں دینا لازم ہے؟ رعایتوں کے مستحق شہری عوام بھی ہیں۔ گھر کا چولھا جلتا رکھنا اگر دیہات میں مشکل ہے تو شہروں میں مشکل تر۔ دیہات کے عوام کو چند ایک معاملات میں تھوڑا بہت ایڈوانٹیج ضرور ملا ہوا ہے، شہری عوام کی جان کسی نہ کسی بڑے جھنجھٹ میں پھنسی ہی رہتی ہے۔ دیہات کی زندگی آج بھی بہت حد تک سادہ ہے اس لیے وہاں خاصے کم وسائل میں جیسے تیسے گزر بسر ہو ہی جاتی ہے۔ شہروں میں بسنے والوں کو کئی مدوں میں بہت زیادہ خرچ اور غیر ضروری طور پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس تصور کو اب ذہنوں سے کھرچ کر پھینکنے کی ضرورت ہے کہ شہر میں بسنے والے تو جیسے تیسے جی ہی لیتے ہیں۔ سبسڈی کے حوالے سے متوازن فکر کو پروان چڑھانا لازم ہے۔
ماہانہ بنیاد پر حکومت کی طرف سے امداد کی فراہمی کے معاملے میں بھی دیہات کے غریبوں کو اولیت دی جاتی ہے جبکہ شہروں کے غریبوں کو زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ معیشت کا بوجھ سب کو مل کر اٹھانا ہے۔ شہروں کی غالب آبادی ٹیکس نیٹ میں ہے اور معیشت کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ اُسے بعض معاملات میں کچھ ایڈوانٹیج اور رعایت بہرطور ملنی ہی چاہیے۔