محبت اگر واقعی محبت ہے تو اپنے بل پر ہوتی ہے‘ کسی سے نفرت کی بنیاد پر نہیں۔ کسی سے محض اس لیے محبت نہیں کی جا سکتی کہ اِس محبت کو دیکھ کر کوئی جلن اور کڑھن محسوس کرے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اسے ہتھکنڈا کہا جائے گا‘ محبت نہیں۔ محبت ہو یا نفرت‘ کارگر اُسی وقت ہو سکتی ہے جب یہ کسی بھی چیز سے مشروط نہ ہو بلکہ خالص ہو۔ محبت ہی کی طرح ہر معاملے میں بات اُسی وقت بنتی ہے جب اگر مگر کو ایک طرف ہٹاکر اخلاص کی بنیاد پر بات کی جائے۔ کامیاب زندگی اگر مگر کی محتاج ہوتی ہے نہ متحمل۔ اگر مگر کی منزل میں اٹکنے کی صورت میں بہت کچھ داؤ پر لگتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں حقیقی کامیابی یقینی بنانے کے لیے سب سے پہلے ذہن صاف کرنا ناگزیر ہے۔ جب تک ذہن واضح نہ ہو تب تک منصوبہ سازی کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔ منصوبہ سازی ہوگی تو کچھ کرنے کی تیاری بھی کی جا سکے گی۔ جو لوگ وقت کو اہم ترین وسائل میں سرِفہرست رکھتے ہیں وہی کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ ذہن میں پیدا ہونے والا اٹکاؤ تمام ارادوں اور منصوبوں کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرتا جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ بہت سے معاملات میں شدید اٹکاؤ کا شکار ہے۔ لوگ ذہن آسانی سے صاف اور واضح نہیں کر پاتے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب تو موجودہ ماحول ہے جو قدم قدم پر لوگوں کو ڈگر سے ہٹانے پر تُلا رہتا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ رچ بس گیا ہے جو قدم قدم پر الجھنیں پیدا کرتا ہے‘ ارادوں کو متزلزل کرتا ہے۔ ارادے بالعموم اُس وقت متزلزل ہوتے ہیں جب انسان پورے انہماک کے ساتھ کام کرنے کے قابل نہ ہو پائے یا نہ رہ پائے۔ ہمارے ہاں اِس وقت یہی کیفیت پنپ رہی ہے۔ لوگ انہماک یقینی نہیں بنا پاتے اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ اٹکے ہوئے ذہن کے ساتھ کام کرنے والوں کو آپ ہمیشہ نیم دلانہ زندگی بسر کرتے ہوئے پائیں گے۔ ایسے لوگ کسی بھی معاملے میں واضح ذہن کے ساتھ کچھ نہیں کرتے۔ یہ لوگ اپنی صلاحیتوں کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ قوتِ فیصلہ کے نہ ہونے سے یہ بہت سے اہم مواقع ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ تقدیر ہر انسان کو پنپنے اور آگے بڑھنے کے متعدد مواقع دیتی ہے۔ جو مواقع کو شناخت کرکے اُن سے مستفید ہونے کا ذہن بناتا ہے وہی کامیابی کی طرف بڑھتا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو کسی کے لیے الجھن اور کسی کے لیے موقع ہوتا ہے۔ پہچاننا آنا چاہیے کہ کب کوئی الجھن اچھے یا سنہرے موقع میں تبدیل ہوتی ہے اور کب اچھا دکھائی دینے والا موقع محض مشکلات پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے بیشتر معاملات اگر مگر کی چوکھٹ کے سجدہ ریز رہتے ہیں۔ انجانا خوف انسان کو کسی بھی نئی راہ پر گامزن ہونے سے روکتا ہے۔ کسی نئی ملازمت کی تلاش کا حوصلہ پیدا نہ کر پانا بھی اِسی خوف کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ آپ کو کسی ایک کاروبار میں پھنسے ہوئے ملیں گے۔ کوئی بھی کاروبار اگر بہت کچھ دے رہا ہو تب تو ٹھیک ہے مگر مشکل یہ ہے کہ بعض اوقات منافع کی شرح تیزی سے گھٹ رہی ہو تب بھی لوگ کاروبار تبدیل نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوتا ہے جب ذہن واضح نہ ہو۔ یہی حال بہتر زندگی کے لیے تیار ہونے کے مرحلے کا بھی ہے۔ بہت سے طلبہ سوچے سمجھے بغیر کوئی شعبہ منتخب کرتے ہیں اور ڈیڑھ دو سال بعد انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ غلط شعبے میں آگئے۔ پھر شعبہ بدلا جاتا ہے۔ یوں کئی سال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر بچوں کے ذہن بچپن ہی سے واضح کردیے جائیں تو کالج کی سطح پر انہیں کریئر کے انتخاب میں قدرے آسانی رہتی ہے۔
آج ہماری قومی زندگی بھی تھمی تھمی سی ہے۔ یہ ٹھہراؤ ہمارے بیشتر معاملات کو مزید خرابی کی طرف لے جارہا ہے۔ پورا ماحول تھما تھما سا کیوں ہے؟ ہم بیشتر اوقات اس حوالے سے غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ماحول میں پریشان کن حد تک ٹھہراؤ اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ذہنوں میں پائی جانے والی الجھنیں دور کرنے پر توجہ نہ دی جائے۔ آج ہمارے ماحول میں کم و بیش تمام ہی معاملات کسی نہ کسی حد تک اٹکاؤ کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔ زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی تذبذب اور اٹکاؤ کی کیفیت سے آزاد یا دور نہیں۔ ایک انجانا خوف ہے جو لوگوں پر طاری ہے۔ لوگ تبدیلی سے بھاگتے ہیں۔ نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں کہ یہ تبدیل ہونا چاہیے‘ وہ تبدیل ہونا چاہیے مگر جب تبدیلی کو ممکن بنانے کی گھڑی آتی ہے تو سب پیچھے ہٹ جاتے ہیں کیونکہ کوئی بھی اپنے کسی مفاد کو ذرا سا بھی داؤ پر لگانے کو تیار نہیں۔ دنیا میں آج تک کوئی بھی بڑی تبدیلی ایسی حالت میں نہیں آئی کہ کسی کے مفادات پر ضرب نہ پڑتی ہو۔ کسی بھی قوم یا معاشرے میں حقیقی تبدیلی اُسی وقت آسکتی ہے جب لوگ کچھ کھونے کے لیے تیار ہوں۔ اگر کوئی بھی اپنے ذرا سے مفاد سے بھی دست بردار ہونے کو تیار نہ ہو تو پھر معاملات جوں کے توں رہتے ہیں اور کوئی بھی ایسی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی جس کی بنیاد پر معاشرے میں کچھ بہتری آسکے۔ معاشروں پر ایسے زمانے آتے رہتے ہیں جب اُن میں کام کرنے اور ڈھنگ سے جینے کی لگن دم توڑتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب مزید تنزل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تب کچھ لوگ بھرپور قوت کے ساتھ ابھرتے ہیں اور ملک و قوم یا پورے معاشرے کا بیڑا پار لگانے کی ٹھانتے ہیں۔ بہت سے معاشروں نے دو ڈھائی ہزار سال کے عمل میں کئی بار عروج اور کئی بار زوال دیکھا ہے۔ عرب معاشرہ جاہل اور پس ماندہ تھا۔ اسلام کی شکل میں بے مثال قوت یقینی بنانے والے عامل کو پانے کے بعد اس پس ماندہ معاشرے نے ایسا عروج پایا کہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ محض پچیس تیس سال کی مدت میں عرب معاشرہ اپنی ساری ناطاقتی کو ایک طرف ہٹاکر اِتنا طاقتور ہو جائے گا کہ فارس اور روم جیسی سلطنت کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔ عہدِ اول کے مسلمانوں نے بے مثال جوش و جذبے کے ساتھ اپنی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے دو سپر پاورز کو دُھول چٹائی۔ یہ محض بڑھک نہیں بلکہ حقیقت ہے اور تاریخ کا ریکارڈ اس کا گواہ ہے۔
کوئی بھی قوم اُسی وقت اپنے ارادوں کو کامیابی سے ہم کنار کر سکتی ہے جب وہ کسی بھی معاملے میں بے جا طور پر تذبذب کا شکار نہ ہو‘ غیر ضروری طور پر اٹکی نہ رہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ چونکہ بیشتر معاملات میں اگر مگر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے اس لیے ڈھنگ سے کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ قومی مفادات پر ذاتی اور گروہی مفادات غالب آچکے ہیں۔ پورے ملک یا قوم کے بارے میں سوچنے کی روایت خطرناک حد تک کمزور پڑ چکی ہے۔ سرکاری یا ریاستی مشینری میں بھی صوبائیت نمایاں ہے۔ وفاق کمزور پڑتا جارہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ اٹکاؤ والی ہر کیفیت کو خیرباد کہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی عادت اپنائی جائے۔ منصوبہ سازی کے لیے ذہنوں کا واضح ہونا ناگزیر ہے۔ قومی سوچ اپنائے بغیر اٹکاؤ دور نہیں ہو سکتا۔ جب تک ہر پاکستانی پوری قوم کا بھلا نہیں سوچے گا تب تک کچھ بھی بھلا نہ ہوگا۔ ملک و قوم کے لیے سوچنے کی عادت ہی ٹال مٹول اور اگر مگر کی کیفیت سے نجات دلا سکتی ہے۔ اس مرحلے سے گزرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے غیرمعمولی نوعیت کی اخلاقی تربیت درکار ہوتی ہے جو سرکاری مشینری میڈیا کے ذریعے ممکن بنا سکتی ہے۔ نجی سطح پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشرے میں ذہن واضح کرنے والا ماحول یقینی بنانے کے لیے سب کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔ چند افراد یا گروہوں کے ذریعے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ہر پاکستانی کو اپنے اپنے مقام پر ملک و قوم کے لیے کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کردار کسی کی مدد کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور کسی کو راہ دکھانے کی صورت میں بھی۔ معاشرے میں ایسا بہت کچھ ہے جو ذہنوں کو الجھاکر فیصلے کرنے سے روکتا ہے۔ ایسی ہر بات سے بچنے کے لیے ذہن سازی لازم ہے۔ یہ کام بنیادی طور پر والدین اور اساتذہ کا ہے۔