"MIK" (space) message & send to 7575

یہ روش کب بدلے گی؟

کسی بھی بُرائی کو پروان چڑھانے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک انتہائی نامعقول طریقہ یہ ہے کہ جو بُرائیوں کے مرتکب ہوں اُنہیں محض نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اُن کے احترام کا گراف بھی نیچے نہ لایا جائے۔ ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ ہمیں اب ہر اُس شخص کو احترام کی نظر سے دیکھنے کی عادت ہوگئی ہے جو قانون شکن ہو، اخلاقی اقدار کا بالکل پاس نہ رکھتا ہو، کسی کی دل آزاری کا سوچ کر بالکل نہ ڈرتا ہو اور کسی بھی طور زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنے پر یقین رکھتا ہو۔ دنیا بھر میں ہوتا یہ ہے کہ جب کسی کی بُرائیاں سامنے آتی ہیں تو لوگ ناگواری محسوس کرتے ہیں، اُس سے ملنے میں بھی قباحت محسوس کی جاتی ہے۔ لوگ بچتے پھرتے ہیں کہ کہیں اُس کی صحبت اختیار کرنے سے اُن کے بارے میں بھی کوئی غلط رائے قائم نہ کی جائے۔ ہمارے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اِس کلیے کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا بھر کے کلیے ہمارے ہاں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہم نے طے کرلیا ہے کہ جو جتنا کرپٹ ہوگا ہم اُسے اُتنی ہی زیادہ عزت دیں گے۔ جرم پسندی کی ذہنیت کو دنیا بھر میں نفرت یا ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں جرم پسندی اب وصفِ حسنہ میں بدل گئی ہے۔ لوگ جب کسی کا کرمنل ریکارڈ دیکھتے ہیں تو اُس کے سامنے خود کو شرمندہ سا محسوس کرتے ہیں۔ خیال آتا ہے کہ یہ تو ''آگے‘‘ نکل گیا اور ہم حالات کا رونا رونے کو پیچھے رہ گئے!
یہ ایک سادہ سی اور سب پر عیاں حقیقت ہے کہ معاشرے پستی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر ہم انتہائی مایوس ہوں۔ ہمارے ہاں خامیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ایسا تو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ افریقی معاشروں کی مثال ہمارے سامنے ہے جو ایک زمانے سے زوال کا شکار ہیں۔ کیا ہم ایسا زوال چاہتے ہیں؟ بیشتر افریقی معاشروں میں بُرائی کو بُرائی سمجھنے کی روایت ترک کردی گئی ہے۔ وہاں جرائم پیشہ افراد یا مافیاز کو اس قدر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ عام آدمی سوچتا ہے زندگی بھر محنت کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ تھوڑی سی دِلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کرپشن کی جائے پا پھر جرائم کی دنیا سے رشتہ جوڑ کر مال سمیٹنے کے بعد سُکون سے جیا جائے۔ یہ طریق ہمارے ہاں بھی اپنایا گیا ہے۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں عمومی ذہنیت یہ ہوگئی ہے کہ زیادہ محنت کرنے اور اپنے وجود کو کھپانے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور کرپشن کے ذریعے مال سمیٹا جائے اور گوشہ نشینی اختیار کی جائے۔ یہ گوشہ نشینی بیرونِ ملک سکونت کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے۔
جب کوئی معاشرہ طے کرلیتا ہے کہ اب اُسے پستی ہی کو مقدر بنائے رکھنا ہے تب قدرت کی طرف سے چند امور کا تعین سا کردیا جاتا ہے۔ ایسے کسی بھی معاشرے کی نمایاں ترین علامت یہ ہوتی ہے کہ خرابی، گناہ اور جرم کا احساس تک ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشرے دنیا بھر میں ہیں جو خرابیوں سے اَٹے ہوئے ہیں مگر پھر بھی وہ کسی نہ کسی حد تک بہتری کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ افریقی معاشروں کے سوا دنیا بھر میں اصلاحِ احوال کے حوالے سے پُرعزم ہوکر کچھ کرنے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا ہو یا پھر جنوب مشرقی ایشیا یا وسطی ایشیا‘ تمام خطوں میں لوگ چاہتے ہیں کہ زندگی کا معیار کچھ بلند ہو۔
کیا ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ اب زندگی کا معیار بلند نہیں کرنا؟ کیا ہم مایوس ہوچکے ہیں؟ اگر ہاں‘ تو کیا اب کبھی ہم اصلاحِ احوال کی طرف مائل نہیں ہوں گے؟ ایسا کیوں ہے کہ ہر معاملہ صرف اور صرف خرابی کی طرف بڑھ رہا ہے؟ کیا ہمارے بڑوں نے طے کرلیا ہے کہ اب معاشرے کو صرف غرق کرنا ہے؟ خرابیاں تو دنیا بھر میں ہیں۔ لوگ اُن کے خلاف کھڑے بھی ہوتے ہیں۔ معاملات کو درست کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ محنت سے قبل عزم کا ہونا لازم ہے۔ جب تک عزم نہ ہو تب تک منصوبہ سازی نہیں ہو پاتی اور یوں کام کرنے کی لگن بھی پیدا نہیں ہوتی۔ تو کیا ہم نے ہر طرح کی پستی کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرلیا ہے؟ بحران پر بحران آرہے ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ مواقع بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں مگر ہم کسی بھی اچھے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ذہن ہی نہیں بنا پاتے۔ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ ہم میں موقع پرستی تو پنپ رہی ہے مگر موقع شناسی اور موقع فہمی پیدا ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
معاشرے میں خرابیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ بُرائی کو بُرائی کی حیثیت سے دیکھنے کی ذہنیت کا دم توڑنا معاملات کو مزید الجھا رہا ہے۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ معاشرے میں جسے مالی اعتبار سے پنپتا ہوا دیکھتا ہے اُسے آئیڈیل سمجھ لیتا ہے یا پھر اُسے بُرا جاننے کے باوجود اُسی کی طرح کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کی طرف مائل رہتا ہے۔ حصولِ زر کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھ لیا گیا ہے۔ سرکاری مشینری میں کرپشن خطرناک بلکہ جان لیوا حد تک بڑھ چکی ہے۔ ریاستی وسائل کو مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق بھنبھوڑا جارہا ہے۔ سرکاری مشینری سے وابستہ افراد کی خاصی بڑی تعداد کرپشن کی دلدل میں گلے تک دھنسی ہوئی ہے۔ جسے موقع ملتا ہے وہ مال بٹورنے سے چُوکتا نہیں۔ یہ کیفیت عام آدمی کی نفسی ساخت پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ معمولی سرکاری کلرک کرپشن کے ذریعے کروڑ پتی ہوسکتا ہے تو کام میں اُس کا جی نہیں لگتا اور وہ بھی کسی نہ کسی طور راتوں رات بہت کچھ پانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ اِس سے معاشرے میں کرپشن بڑھتی ہے اور لوگ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے سے بُرائیوں کے ختم ہونے کا عمل اُس وقت شروع ہوتا ہے جب لوگ بُرائیوں سے نفرت کرتے ہیں اور اُن سے نجات یقینی بنانے کا ذہن بناتے ہیں۔ ہمارے ہاں فی الحال ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بُرائی کو بُرائی سمجھ کر اُس سے جان چھڑانے کی ذہنیت پروان چڑھانے کے لیے سب سے پہلے تو حمیت کا ہونا لازم ہے۔ قومی سطح پر حمیت بیدار ہونی چاہیے تاکہ کسی بھی خرابی کو قبول کرنے اور پھیلانے والوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے کا رجحان شروع ہو۔
ہمارا معاشرہ سرِدست اِدھر ہے نہ اُدھر۔ کوئی بھی چیز ٹھکانے پر دکھائی نہیں دے رہی۔ کیا عوام اور کیا خواص سبھی پریشان حال ہیں۔ جب بُرائی کو بُرائی سمجھنے سے گریز کی روش پر گامزن رہا جائے گا تو ایسا ہی ہوگا۔ ہم ایک قوم کی حیثیت سے یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے ہیں کہ خرابیاں محض اپنانے سے بڑھتی ہیں۔ ہم نے بُرائیوں اور خرابیوں کے آگے بند باندھنے کی روش ترک کردی ہے۔ کسی بھی معاشرے کو پستی سے نکالنے میں کلیدی کردار غیر ت و حمیت کا ہوتا ہے۔ غیرت و حمیت یعنی کسی بھی بُرائی اور خرابی کو برداشت نہ کرنے کا رویہ۔ جب تک ہم ایک قوم کی حیثیت سے غیرت مند ہونا نہیں سیکھیں گے تب تک معاملات کو بہتر بنانے کی راہ ہموار نہ ہوگی۔
قومی سطح پر حمیت کا رجحان پیدا کرنے میں کلیدی کردار اساتذہ اور میڈیا ادا کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ہی معاشرے کی خرابیوں کو نمایاں حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں مگر زیادہ تر صرف بگاڑ پر توجہ دی جارہی ہے۔ معاشرے کے سبھی ادارے اپنے فرائض بھلا بیٹھے ہیں۔ پچاس سال پہلے کچھ ادارہ جاتی پالیسیاں ہوا کرتی تھیں اور ملازمین اُن پالیسیوں کو محض جانتے نہ تھے بلکہ اُن کا خیال بھی رکھتے تھے مگر پھر بھی وہ اصلاحِ احوال کی ذہنیت کو پروان چڑھانے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال ہی لیا کرتے تھے۔ اب ڈھائی تین عشروں کے دوران یہ معاملہ بالکل ہی تلپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ قومی حمیت کے حوالے سے اساتذہ بھی اپنا کردار بھلا بیٹھے ہیں۔ جب معاملات بے دِلی اور بے حسی پر مبنی ہوں تو قومی حمیت کا چاند کیسے چڑھے؟ قومی روش کیسے بدلی جائے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں