حالات سے پریشان ہو اُٹھنا، مایوس ہو جانا ہر گھر کی کہانی ہے۔ انسان کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ بات ذرا سی بھی ناموافق ہو تو گھبرا جاتا ہے، پریشان ہوکر ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے جو اُس کے بارے میں غلط اندازے قائم کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔ کسی بھی صورتِ حال میں کس کا ردِعمل کیسا اور کتنا ہوتا ہے اِس کا مدار بہت حد تک مزاج اور تربیت پر ہے۔ جن کی تربیت اچھی ہوئی ہو، والدین اور خاندان کے بزرگوں نے بہت کچھ سکھایا ہو‘ ایسے افراد ڈھنگ سے جیتے ہیں اور کسی بھی مشکل کیفیت میں اپنے حواس قابو میں رکھتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بدحواس یا بے حواس ہونے سے کام نہیں چلتا۔ انسان کو صورتِ حال کے مطابق اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔
پریشان کن حالات تو ہر فرد کے لیے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی ایسی آئیڈیل زندگی بسر نہیں کرتا جس میں الجھنیں نہ ہوں۔ معاشرہ انسانوں سے مل کر بنتا ہے اور انسان طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ جیسے انسان ہوتے ہیں ویسا ہی معاشرہ بھی ہوتا ہے۔ الجھنیں بھی انسانوں کی پیدا کردہ ہیں اور اُنہیں سلجھانے والے بھی انسان ہی ہیں۔ جب معاملہ اِتنا سادہ ہے تو سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟ سمجھ میں تو آتا ہے مگر انسان جان بوجھ کر ''بے سمجھا‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ کیوں؟ سکون کی خاطر! بہت سوں کا گمان یہ ہے کہ اگر حقیقت کو نہ دیکھا جائے یا سمجھ کر بھی انجان رہا جائے تو دل کو سکون ملتا ہے۔ یہ محض گمان ہے، خوش فہمی ہے۔ کسی بھی حقیقت سے نمٹنے یا اُسے برتنے کا بہترین طریق یہ نہیں کہ اُس سے چشم پوشی کی جائے یا دانستہ غفلت برتی جائے۔ ایسی حالت میں تو معاملہ مزید بگڑتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ اگر ایک طرف کسی کے سر پر مشکلات کا ٹوکرا دھرتا ہے تو دوسری طرف اُسے کئی طرح کی آسانیوں سے بھی نوازتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کسی انسان کو زندگی سے صرف الجھنیں ملیں۔ یہ قدرت کے نظام اور اُصولوں کے خلاف ہے۔ پنپنے اور کچھ کرنے کے مواقع سب کو ملتے ہیں۔ ان مواقع سے کماحقہٗ مستفید ہونا سب کے بس میں نہیں ہوتا کیونکہ اِس کے لیے ذہن سازی ناگزیر ہے۔ کسی بھی موقع سے بھرپور استفادہ کرنے کے لیے دل و دماغ کو قابو میں رکھنا اور تیار رہنا لازم ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ سنہری مواقع ملتے ہیں مگر وہ اُنہیں بروئے کار لانے کا ذہن بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
بسا اوقات معاشرے کی عمومی روش بھی دل دہلا دینے والی ہوتی ہے۔ اگر کسی کی تربیت نہ کی گئی ہو تو وہ معمولی سی تبدیلی کو بھی اپنے لیے ایک خطرے یا چیلنج کے روپ میں دیکھتا ہے۔ جنہیں والدین اور بزرگوں نے مشکل حالات کے لیے تیار نہ کیا ہو وہ قدم قدم پر خوفزدہ رہتے ہیں اور بات بات پر بِدکنے لگتے ہیں۔ زندگی آسان ہے نہ مشکل! یہ اپنے آپ میں کچھ نہیں۔ ہم اِسے جو سمجھتے ہیں یہ بس ویسی ہی ہوتی ہے۔ آپ انتہائی مالدار گھروں کی نئی نسل کو بھی شدید ذہنی انتشار کا شکار پائیں گے اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والوں کی اولاد میں بھی اعتماد کے درشن کریں گے۔ یہ سب کچھ اول تو تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے اور دوسرے درجے میں کچھ مزاج کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔ بہت کچھ انسان کے اپنے مزاج اور فکر و نظر پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ ایک ہی چیز کو ہر آدمی اپنے اپنے حساب سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ اور اس سمجھ ہی کی بنیاد پر برتتا بھی ہے۔
جن بچوں کو سکول کی سطح پر اساتذہ اور والدین زندگی اور معاشرے کے بارے میں بتاتے ہیں وہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ بچوں کو پہلے قدم پر یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آسانیاں ہوتی ہیں نہ مشکلات۔ دوسروں کی پیدا کی ہوئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر اِس کے مقابل ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہماری بیشتر مشکلات ہمارے اپنے غلط فیصلوں یا غلط اندازوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ہم کبھی کبھی کسی معاملے میں کچھ زیادہ ردِعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے میں بگاڑ پیدا ہوکر رہتا ہے۔ ردِعمل اگر ضرورت سے کم ہو‘ تب بھی الجھنیں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی صورتِ حال کو پورے توازن کے ساتھ برتنا کبھی کبھار ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ ہاں‘ بھرپور توازن کے آس پاس رہنے سے بھی کام چل جاتا ہے مگر یہ بھی خود بخود نہیں نہیں ہوتا۔ شعور کو بروئے کار لانا پڑتا ہے، خوب سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے وہی ہمارے لیے معقول ہوتا ہے۔
یہ سمجھنا انتہائی ناسمجھی کا مظہر ہے کہ زندگی کے دامن میں ہمارے لیے صرف الجھنیں ہوتی ہیں۔ بالکل اِسی طور کسی کا یہ سمجھنا بھی ناقابلِ فہم ہے کہ سب کچھ ہمیشہ اچھا ہی چلتا رہے گا، کبھی کوئی الجھن پیدا ہی نہیں ہوگی۔ زندگی لیموں نہیں جو صرف کھٹا ہوتا ہے۔ یہ کیلا بھی نہیں جو صرف میٹھا؍ کم میٹھا ہو۔ یہ تو انگور کا دانہ ہے جو تھوڑا کھٹا اور تھوڑا میٹھا ہوتا ہے۔ جس نے یہ بات سمجھ لی‘ وہی کامیاب رہا۔ زندگی کا سارا حسن اسی بات میں ہے کہ گاہ بہ گاہ کسی الجھن کو سلجھانا پڑے۔ اگر سب کچھ اچھا چل رہا ہو تو انسان کاہل ہو جاتا ہے، تن آسانی کی طرف چلا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی چھوٹی موٹی الجھن پیدا ہو جائے تو گھبرا اُٹھتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے کیونکہ ذہن تیار نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہاں! تن آسان ہو جانا فطری امر نہیں کیونکہ یہ سب کچھ انسان کا اپنا کیا دَھرا ہوتا ہے۔ زندگی کسی پر بے جا مہربان ہوتی ہے نہ بے جا طور پر کوئی زیادتی کرتی ہے۔ یہ اپنے حصے کا کام کرتی ہے۔ ہمیں زندگی کے کسی موڑ پر جو کچھ مل رہا ہوتا ہے اُس سے کس طور کام لینا ہے اِس کا مدار اول و آخر ہماری ذہنی تیاری اور صلاحیت و سکت کے بروئے کار لانے پر ہوتا ہے۔ یہ تیاری کم لوگ کر پاتے ہیں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال میں لوگ سب سے پہلے گھبرا اُٹھتے ہیں۔ یہ مرحلہ بھی فطری ہے مگر اِس سے آگے بھی بڑھنا ہوتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ گھبرانے کے مرحلے ہی میں بے حوصلہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی اچھا موقع ہاتھ آ جانے پر بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی اچھا امکان دکھائی دے رہا ہو تو انسان اس قدر خوش ہوتا ہے کہ اُسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اُس امکان کو بروئے کار لانے کے لیے تیار بھی ہونا پڑتا ہے۔ اچھا موقع ہاتھ آئے تو بسا اوقات انسان ایسا خوش ہوتا ہے کہ اُس سے مستفید ہونے کا وقت ہی گزر جاتا ہے!
عام آدمی اس حقیقت پر کم ہی غور کرتا ہے کہ معاشرہ کبھی بہت اچھا ہوتا ہے نہ بہت بُرا۔ یہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہم اِسے دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور، ظاہر ہے، اِسی بنیاد پر یہ طے ہوتا ہے کہ ہم کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے۔ مشکلات اور آسانیوں کو سمجھنا لازم ہے مگر یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ نہ ہوسکے۔ تھوڑی سی حاضر دماغی اور تھوڑا سا احساس، بس۔ زندگی کسی کے لیے محض جبر کا معاملہ نہیں‘ نہ ہی یہ عنایات کا مرقّع ہے۔ ہم جس نوعیت کی تیاری کرتے ہیں ویسی ہی زندگی ہمارا مقدر بنتی ہے۔ قدرت کا ایک بنیادی اُصول یہ بھی ہے کہ عدل کی بنیاد پر سب کو موزوں ترین مواقع سے نوازا جائے۔ سب کے لیے آسانیاں بھی ہیں اور مشکلات بھی۔ آسانیاں اس لیے ہیں کہ زندگی کے حُسن میں اضافہ ہو اور مشکلات اِس لیے کہ اُن سے نمٹنے میں کامیاب ہوکر انسان اپنے وجود کا درجہ بلند کرے۔
ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ حقیقتوں کو یکسر نظر انداز کرکے معاملات کو اپنی خواہشات کی عینک سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہر معاملہ کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں کبھی کبھی آسان معاملہ مشکل اور مشکل معاملہ آسان نظر آتا ہے اور ہم موزوں ترین تحریکِ عمل پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ زندگی ہم سے فکر و نظر اور ذوقِ عمل دونوں ہی معاملات میں توازن کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ توازن ہی زندگی کے حُسن میں اضافہ کرتا ہے۔ فکر و عمل کا عدمِ توازن زندگی کے دلکش رنگوں کو پھیکا کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ گھبرانا نہیں ہے!