وقت ہو یا مال و زر، دونوں ہی کے معاملے میں کفایت شعاری ناگزیر ہے۔ معقول انداز سے جینا تبھی ممکن ہوتا ہے جب انسان طے کرلے کہ اُسے کسی بھی معاملے میں فضول خرچی نہیں کرنی۔ فضول خرچی کیا ہے؟ اپنی ضرورت سے زیادہ اور بے سوچے سمجھے خرچ کرنا۔ عمومی سطح پر تو فضول خرچی کا یہی مفہوم بنتا ہے۔ عام آدمی کے نزدیک فضول خرچی یہ ہے کہ انسان بلا ضرورت دولت خرچ کرے۔ ایسا سوچنا غلط نہیں مگر توجہ طلب امر یہ ہے کہ صرف دولت کو بلا ضرورت خرچ کرنا ہی فضول خرچی نہیں۔ آج ہمارے ماحول میں کم و بیش ہر حوالے سے فضول خرچی ''دیرینہ روایت‘‘ کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ فضول خرچی کا تعلق دستیاب وسائل میں سے کسی کو بھی بے سوچے سمجھے خرچ کرنے اور مطلوب استفادہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے سے ہے۔
کامیابی کے لیے ذہن بنانے والوں کو آپ بہت مختلف پائیں گے۔ ہر وہ انسان آپ کو مختلف ہی دکھائی دے گا جو عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتا ہے، کچھ بننے کا خواہش مند ہے۔ عمومی ڈگر پر چلتے ہوئے کسی نئی، انوکھی منزل تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بظاہر وقت اور مادّی وسائل‘ دونوں ہی کو ضائع کرنے والا ہے۔ عام آدمی زندگی بھر اپنے وسائل کے حوالے سے اُدھیڑ بُن کا شکار رہتا ہے۔ یہ کیفیت اس لیے طاری رہتی ہے کہ وسائل کم ہیں اور مسائل بہت زیادہ۔ یہ مسئلہ کم و بیش ہر انسان کو درپیش ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ وسائل اور مسائل کے مابین توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ ایسے میں مسائل تو زیادہ ہونے ہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کو کس طور بروئے کار لاتے ہیں، ایسی کون سی منصوبہ سازی کرتے ہیں جس کی مدد سے آمدنی اور اخراجات میں قدرے توازن پیدا ہو اور ہم نسبتاً آسودہ زندگی بسر کریں۔ ہر اعتبار سے آسودگی تو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ ہو ہی نہیں سکتی! طلب ہمیشہ زیادہ رہتی ہے اور رسد کے نصیب میں کمی ہی لکھی ہوئی ہے۔ یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔
ہم میں سے بیشتر کا ذہن وسائل سے صرف مال و زر اور اِسی قبیل کی دیگر اشیا مراد لیتا ہے۔ کم ہی لوگ اس نکتے پر غور کرتے ہیں کہ ہماری اصل دولت اور وسائل میں سب سے بڑھ کر وقت ہے۔ وقت کو ڈھنگ سے بروئے لانا ہماری سب سے بڑی آزمائش ہے۔ اِس آزمائش میں پورا اترنا ناگزیر ہے کیونکہ ناکامی کی صورت پیدا ہونے والا پچھتاوا اور تاسّف ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ اس حقیقت کو ہم میں سے بیشتر یکسر نظر انداز کردیتے ہیں کہ وقت کا ضیاع انسان کو اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے۔ یوں تو خیر کسی بھی چیز کا ضیاع انسان کو پریشان کرتا ہے مگر سب سے زیادہ پچھتاوا وقت کے ضیاع کا ہوتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اِس کا احساس بھی مشکل سے اور کم ہی لوگوں کو ہو پاتا ہے۔ وقت کے ضیاع کی صورت میں بہت کچھ الجھتا ہے۔ عمر کے مختلف مراحل وقت کے بے جا استعمال کی زد میں آتے ہیں اور پھر دیگر مراحل بھی متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس نے وقت ضائع کیا ہو وہ اس بات کو تو سمجھتا ہے کہ وقت ضائع ہوا ہے مگر وہ وقت کے ضیاع کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو شناخت کرنے میں بالعموم ناکام رہتا ہے۔ بہت سوں کو وقت کے ضیاع سے ہونے والی پیچیدگیوں کا جب احساس ہوتا ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ کفایت شعاری زندگی کے ہر معاملے میں لازم ہے۔ کفایت شعاری یعنی دستیاب وسائل کو اس طور خرچ کرنا کہ زیادہ سے زیادہ استفادہ ممکن ہو۔ کفایت شعاری کا تعلق کم خرچ کرنے سے نہیں بلکہ معقول انداز سے خرچ کرنے سے ہے تاکہ خرچ کیے ہوئے وسائل کا بہترین نعم البدل ممکن بنایا جاسکے۔ کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ عمومی سطح پر ایسا نہیں ہوتا! اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارے ذہن پر بہت سے عوامل اثر انداز ہوکر معقول ترین انداز سے خرچ کرنے کی راہ میں دیوار بنتے ہیں۔ یہ مسئلہ یوں تو ہر دور کے انسان کو درپیش رہا ہے؛ تاہم فی زمانہ پیچیدگی بہت زیادہ ہے۔ آج طلب بہت زیادہ ہے اور رسد نہایت کم۔ انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے اُس کا چند فیصد بھی نہیں کر پاتا۔ وسائل کی شدید کمی زندگی بھر ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ ہم نے بہت سے معاملات کو خواہ مخواہ اپنی ضرورت کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہم اپنی ضرورتیں‘ اکثر بلا جواز طور پر‘ بڑھاتے جاتے ہیں اور یوں بیشتر معاملات بگڑتے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ بچت کے بارے میں سوچا کرتے تھے۔ گھریلو اخراجات کم کرکے کچھ نہ کچھ بچانے کی عادت پروان چڑھائی جاتی تھی تاکہ کسی بھی مشکل گھڑی میں کسی سے کچھ مانگنا نہ پڑے۔ کفایت شعاری اپنانے کی صورت میں اِتنی بچت ضرور ممکن ہوتی تھی کہ انسان کسی ہنگامی صورتِ حال میں اپنے وسائل کی بنیاد پر معاملات کو نمٹائے، کسی کا دست نگر نہ رہے۔
آج بھی ایسے لوگ ہیں جو بچت کے عادی ہیں۔ بچت کی عادت انسان کو ذہنی طور پر مستحکم رکھتی ہے کیونکہ اِس سے آمدنی اور اخراجات میں توازن برقرار رہتا ہے۔ یہ توازن زندگی کو متوازن رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی بڑا مقصد طے کیا گیا ہو تو کفایت شعاری ناگزیر ہے یعنی اُس مقصد کے حصول میں معاونت دینے والے وسائل کا اہتمام کیے ہی بنتی ہے۔ پوری دیانت اور غیر جانبداری سے اخراجات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کہاں کہاں کم خرچ کیا جاسکتا ہے اور کہاں بالکل خرچ نہ کرنے سے بھی کوئی فرق واقع نہ ہوگا۔ کفایت شعار ہونا سلیقہ ظاہر کرتا ہے۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے لوگوں کو تلاش کرسکتے ہیں جو اخراجات کے معاملے میں خاصے محتاط اور دانش مند ہوتے ہیں۔ وہ فضول معاملات پر کچھ بھی خرچ کرنے کے قائل نہیں ہوتے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کی زندگی متوازن رہتی ہے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو بچاتے تو ہیں مگر صرف ضائع کرنے کے لیے۔ بہت سے لوگ گھریلو اخراجات میں کسی نہ کسی حد تک معقول کٹوتی کرنے میں کامیاب رہتے ہیں مگر معاملات کو منزل تک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسے لوگ چند معاملات میں اخراجات کنٹرول کرتے ہیں؛ تاہم کسی ایک مد میں ساری بچت کھپا دیتے ہیں۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ خاصی محنت سے ممکن بنائی گئی بچت دیکھتے ہی دیکھتے کسی فضول مد میں ضائع ہو جاتی ہے۔
کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بچت کو اِس طور ضائع کرنے والے اور بچت نہ کرنے والے برابر ہیں۔ بچت کا بنیادی مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا معیار تھوڑا بلند کیا جائے۔ کفایت شعاری کبھی کبھار اپنائی جانے والی عادت نہیں۔ یہ تو زندگی کا معاملہ ہے۔ وقت کا ضیاع روکنے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ انسان فضول سرگرمیوں سے دور رہے اور فضول لوگوں سے بھی تعلق نہ رکھے۔ جب کوئی یہ طے کرتا ہے کہ فضول کاموں سے دور رہنا ہے اور فضول لوگوں سے میل جول بھی برائے نام رکھنا ہے تب وقت کو ڈھنگ سے کھپانے اور زندگی کی معنویت بڑھانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اگر ایسے میں کوئی اپنے بچائے ہوئے وقت کو کسی ایک بے ڈھنگے کام پر ضائع کردے تو...؟ وقت کو بچانے کا مقصد زندگی کا معیار بلند کرنا ہوتا ہے۔ اگر بہت سی سرگرمیوں سے بچایا ہوا وقت کسی ایک فضول سرگرمی کے قدموں پر نچھاور کردیا جائے تو پھر اِس سے بہتر یہ ہے کہ انسان کسی بھی سرگرمی سے وقت بچانے کی کوشش ہی نہ کرے۔
وقت سمیت وسائل کی کمی ہر معاشرے اور ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ ڈھنگ سے حل کرنے کی ایک ہی صورت ہے‘ وہ یہ کہ انسان بچت کرے اور بچت کو معقول انداز سے بروئے کار لائے۔ مال و زر اور وقت‘ دونوں ہی کے معاملے میں معروضی سوچ اپنانا لازم ہے۔ معروضی سوچ یہ ہے کہ انسان وہی کرے جو کرنا ہے، اُس سے کم نہ زیادہ۔ مثلاً اگر آپ کے چار بھائی ہیں اور کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کے کتنے بھائی ہیں تو آپ کو جواب میں صرف ''چار‘‘ کہنا چاہیے۔ ''جی، میرے چار بھائی ہیں‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔ آمدنی اور اخراجات کے حوالے سے بھی یہی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور وقت...؟ وقت کے بارے میں تو جس قدر سخت ہوا جائے‘ کم ہے۔