"MIK" (space) message & send to 7575

ذہن کا پہلا نمبر

یہ دنیا ہمیں جس شکل میں دکھائی دے رہی ہے ویسی یہ پہلے کبھی نہ تھی۔ دنیا کا کام ہے بدلتے رہنا۔ کوئی سے بھی دو ادوار کی دنیا کا موازنہ کیجیے تو یکسانیت نہیں ملے گی۔ تواتر سے رونما ہونے والی تبدیلیاں ہر دور میں ایک نئی دنیا کے درشن کراتی ہیں۔ کوئی بھی تبدیلی خود بخود رونما نہیں ہوتی۔ تبدیلی قدرت کے ہاتھوں رونما ہوتی ہے یا پھر انسان کی محنت سے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو یہ صفت عطا کی ہے کہ اپنی محنت سے دنیا کو بدلے، اِس کا حسن بڑھائے، ایسا بہت کچھ یقینی بنائے جو معیاری اور مفید ہو۔ انسان اگر چاہے تو اپنے غلط افکار و اعمال کے ذریعے دنیا کو خرابی کی طرف بھی لے جاسکتا ہے اور ایسا ہوتا ہوا ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ دنیا اُن کے دم سے چلتی ہے جو زندگی بھر اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچتے ہیں۔ صرف مثبت تبدیلی دنیا کو آگے بڑھاتی ہے۔ مثبت تبدیلی ہی سے سب کے لیے پیش رفت ممکن ہو پاتی ہے۔
تخلیقی صلاحیت صرف انسان کے ذہن کو عطا کی گئی ہے۔ انسان کے سوا تمام جاندار کسی بھی سطح کا کوئی بھی تخلیقی کام کرنے کی ذمہ داری کے حامل نہیں۔ اُنہیں قدرت کی طرف سے روئے ارض پر ایک خاص نظام کے تحت سانسیں عطا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنے حصے کا کام کرتے ہیں جو طے شدہ ہوتا ہے اور دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اُن سے کسی بات کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ اُن سے نہیں پوچھا جائے گا کہ دنیا کو بہتر بنانے میں کیا کردار ادا کیا۔ یہ سوال اُن سے اس لیے نہیں کیا جائے گا کہ اُنہیں پیچیدہ اور بلیغ معاملات سمجھنے، سوچنے اور غور و فکر کے ذریعے منصوبہ سازی کی صفت عطا ہی نہیں کی گئی۔ حیوانات میں انتہائی معمولی سطح کی ایسی عقل پائی جاتی ہے جو گزارے کی سطح پر جینے کے لیے ناگزیر ہو۔ اِس سے زیادہ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے۔ آج ہمیں اپنی زندگی اور اپنے ماحول یا پھر دنیا بھر میں جو کچھ بھی تخلیقی سطح کا دکھائی دے رہا ہے‘ وہ دو بار تخلیقی عمل سے گزرا ہے۔ کوئی بھی چیز سب سے پہلے ذہن کے پردے پر رونما ہوتی ہے۔ ذہن کے پردے پر جو کچھ بھی نمودار ہوتا ہے وہ ہمیں کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ جب ہم اپنے ذہن کے پردے پر ابھرنے والے تصورات و تخیلات کو تخلیق کے درجے میں رکھتے ہیں تب کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ آج ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ سب کچھ سب سے پہلے ذہن میں پیدا ہوا تھا۔ ذہن سے منتقل ہوکر وہ ہمارے عمل تک اور پھر دنیا کے سامنے آیا۔
ذہن میں تصور یا تخیل کی شکل میں پیدا ہونے والی کوئی بھی بات ہم سے جامع تفکر اور منصوبہ سازی کا تقاضا کرتی ہے۔ جب تک منصوبہ سازی نہ ہو تب تک ذہن میں پیدا ہونے والی کوئی بھی چیز اپنی تمام جزئیات کے ساتھ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتی۔ ہم جب کوئی عمارت کھڑی کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اُسے ذہن میں کھڑا کرتے ہیں۔ ذہن ہی میں وہ بنیادی خاکہ ابھرتا ہے جس کی بنیاد پر کسی عمارت کو معرضِ وجود میں آنا ہوتا ہے۔ عمارت کا نقشہ جامع ہو تو تعمیر آسان ہو جاتی ہے اور اُس میں خوبصورتی بھی نمایاں رہتی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کسی پلاٹ پر کوئی عمارت کھڑی کرنے کا عمل شروع کردیا جائے تو ایک نہ ایک دن عمارت مکمل ضرور ہو جاتی ہے؛ تاہم اُس میں بھونڈا پن صاف دکھائی دیتا ہے۔ جامع نقشے یعنی منصوبہ سازی کے ساتھ بنایا جانے والا مکان فی الواقع آرام دہ ہوتا ہے کیونکہ اُس میں ہوا کے گزر اور دھوپ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ نقشے کے بغیر بنائے جانے والے بیشتر مکان ہوادار نہیں ہوتے اور تاریک بھی رہتے ہیں۔
زندگی بسر کرنے کا معاملہ بھی ہماری بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ اس کے لیے جامع منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ ڈھنگ سے جینے کا کوئی بھی منصوبہ اُسی وقت جامع ترین انداز سے رُو بہ عمل لایا جاسکتا ہے جب اُسے پوری توجہ اور محنت سے تیار کیا گیا ہو۔ جامع منصوبہ ہی عمل کی حقیقی تحریک دیتا ہے۔ جو کچھ بھی آپ نے سوچا ہے وہ سب کچھ ذہن میں بالکل واضح ہونا چاہیے۔ ذہن کے پردے پر ابھرنے والے تصورات اور تخیلات کو نوٹ کرنے کی صورت میں ڈھنگ سے جینا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ جو کچھ بھی آپ کرنا چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے بالکل واضح طور پر آپ کے ذہن میں پیدا ہونا چاہیے۔ کم و بیش ہر انسان کے ذہن میں کسی بھی معاملے میں آئیڈیاز تو بہت سے پیدا ہوتے ہیں مگر توجہ نہ دینے کی صورت میں وہ تیزی سے دم توڑ دیتے ہیں۔ ذہن میں کسی خیال کا پیدا ہونا کوئی بڑی یا حیرت انگیز بات نہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں بھی خیالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ذہن کے پردے پر ابھرنے والے کسی بھی تصور یا تخیل کو پروان چڑھایا جاتا ہے یا نہیں۔ تصور یا تخیل کو پروان چڑھانے کا مطلب ہے اُس پر غور کرنا، اُس سے متعلق خیالات کو مدعو کرنا، تمام خیالات کو مربوط شکل دے کر ایک باضابطہ نظامِ تخیل تشکیل دینا۔ مثلاً بہت سے لوگ کسی بھی واقعے سے متاثر ہوکر دو یا تین پیرا گراف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ عمومی سطح ہے۔ پروفیشنل کہانی نویس کسی بھی واقعے یا سانحے کو پوری تفصیل سے جاننے کے بعد اُس کے بارے میں سوچتے ہیں اور جو کچھ سوچتے ہیں اُسے کہانی کی شکل دیتے ہیں۔
ہماری زندگی بھی ایک کہانی کی طرح ہے۔ یہ بھی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ عمومی کہانی اور ہماری زندگی میں فرق صرف اتنا ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی کے واقعات ہم خود تخلیق کرتے ہیں۔ ہماری زندگی کی کہانی وہی ہوتی ہے جو ہم خود لکھتے ہیں یا بیان کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی کا ہم پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم اِس کے حوالے سے سنجیدہ ہوں، اِس میں بھرپور دلچسپی لیں۔ جب کوئی زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہوتا ہے اور اُس میں دلچسپی لیتا ہے تب لوگ بہت آسانی سے فرق کو محض دیکھتے نہیں‘ سمجھ بھی لیتے ہیں۔ آپ بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں گے۔ جو کچھ بھی آپ کرنا چاہتے ہیں اُسے ذہن میں پیدا کیجیے اور پروان چڑھائیے۔ جب کوئی بات ذہن میں اچھی طرح پروان چڑھتی ہے تب اُسے رُو بہ عمل لانا آسان بھی ہو جاتا ہے اور مطلوب نتائج کا حصول بھی مشکل نہیں رہتا۔ کہانی نویس، ناول نگار، تجزیہ نگار، مصور، نقّاش، موسیقار، اداکار، گلوکار ‘سبھی اس اِصول کے تحت کام کرتے ہیں۔ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کی زندگی میں ذہن بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ وسیع تر تناظر میں دیکھیے تو کوئی کاروباری ادارہ بھی سب سے پہلے ذہن کے پردے ہی پر ابھرتا ہے۔ کوئی کاروباری شخصیت جب کچھ کرنا چاہتی ہے تو پہلے سوچتی ہے، پھر اپنے بنیادی آئیڈیا کو ذہن ہی میں پروان چڑھاتی ہے۔ جب خیال اچھی طرح پنپ جاتا ہے تب وہ اُسے کاغذ پر منتقل کرکے باضابطہ منصوبے کی شکل دیتی ہے۔ یوں ایک اچھا کاروباری ادارہ ذہن سے نکل کر عملی شکل اختیار کرتا ہے۔
قدرت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جب ہم کسی بھی معاملے پر پوری توجہ مرکوز کرتے ہیں، انہماک کے مرحلے سے گزرتے ہیں تب ہمارا پورا وجود ہماری سوچ کے تابع ہوتا جاتا ہے اور ہم خود کو عمل کے لیے بہت تیزی سے تیار کرتے ہیں۔ ذہن کی یکسوئی عمل کا حسن بڑھاکر زندگی کو زیادہ بامقصد بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جب کوئی اپنے ذہن کو غیر متعلقہ معاملات سے دور کرکے صرف مطلوب و مقصود پر مرکوز رکھتا ہے تب حقیقی تحریکِ عمل کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ نئی نسل کو یہ نکتہ خاص طور پر ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ زندگی صرف اُس وقت بامقصد ہو پاتی ہے جب اِس کے لیے سنجیدہ ہوا جاتا ہے۔ سنجیدگی یعنی ذہن کی یکسُوئی۔ جو کچھ بھی ہوگا وہ سب سے پہلے ذہن میں ہوگا۔ یہاں سے نکل کر وہ حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ اگر ہم ذہن کو اہمیت دیتے ہیں اور اُسے پہلے نمبر پر رکھتے ہیں تو لازم ہے کہ اُسے فضول معاملات میں توانائی صرف کرنے کی راہ سے ہٹائیں۔ ذہن کی یکسوئی اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب ہم اُسے صرف کام کے یا متعلقہ امور سے ہم آہنگ رکھتے ہیں۔ ذہن الجھا ہوا ہو تو عمل بھی الجھ جاتا ہے۔ پھر ذہن کا پہلا نمبر رہتا ہے نہ عمل کا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں