اگر آپ ہر وقت کسی نہ کسی بات کا شکوہ کرتے رہتے ہیں اور حالات سے ناخوش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ اپنے پورے ماحول کی نقل کر رہے ہیں! اب ماحول میں ہر طرف ایسے لوگ دکھائی دے رہے ہیں جو ہر وقت کسی نہ کسی بات کو روتے ہی رہتے ہیں۔
خوش کس طور رہا جاسکتا ہے؟ کسی دوا سے؟ کسی چیز کے حصول سے؟ شاندار گھر میں رہنے سے؟ ذاتی ملکیت والی بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے پھرنے سے؟ دنیا دیکھنے سے؟ زیادہ سے زیادہ فراغت میسر ہونے سے؟ اگر سوچنے بیٹھیے تو سوچتے ہی چلے جائیے اور بہت کوشش پر بھی کچھ سمجھ میں نہ آئے گا کہ آخر وہ کیا بات ہے، کیا چیز ہے جو انسان کو خوش رکھ سکتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بھرپور کامیابی سے انسان خوش رہتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھرپور کامیابی سے کیا مراد ہے؟ کیا بہت دولت کمانے کو ہم بھرپور کامیابی کہیں گے؟ یا غیر معمولی شہرت کو بھرپور کامیابی کا نام دیا جائے گا؟ کیا دنیا دیکھنا بھرپور کامیابی کے زُمرے میں آتا ہے؟ کیا ایسی کیفیت کو بھرپور کامیابی کہا جائے گا جس میں انسان کو کچھ کرنا ہی نہ پڑے؟ بہر کیف یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ بھرپور کامیابی آخر ہے کیا کیونکہ اس حوالے سے شدید اور بھرپور اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ جو دینی رجحان کا حامل ہو وہ دُنیوی کی کامیابی کو کچھ گردانتا ہی نہیں۔ بالکل اِسی طور جو دنیا میں گم ہے وہ دینی رجحان کے حامل افراد کو کسی گنتی میں نہیں رکھتا، کامیابی سے متعلق اُن کا تصور بھی قبول نہیں کرتا۔
ناخوش رہنے کے کتنے فوائد ہیں؟ سوچیے اور سوچتے ہی رہیے۔ تھک ہار کر اس نتیجے پر پہنچئے گا کہ ناخوش رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو اپنے آپ سے، اپنے ماحول سے خوش نہیں رہتے وہ اپنا دل جلاتے ہیں، وقت ضائع کرتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ ہر معاشرے میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو کسی بھی حال میں‘ کسی معاملے سے خوش نہیں رہتے اور کسی نہ کسی بات کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں حالات کا رونا رونے والوں کی تعداد نمایاں طور پر کم ہوتی ہے کیونکہ اُن کے پاس رونے کا کوئی خاص جواز نہیں ہوتا۔ ترقی پذیر دنیا میں بھی معاملات کچھ بہتر ہیں۔ ہاں‘ پس ماندہ معاشروں میں قدم قدم پر ایسے لوگ ملتے ہیں جو کسی نہ کسی بات کا شکوہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ ''شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے‘‘ کے مصداق ایسے لوگ کسی بھی بات کو بنیاد بناکر اپنا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں ہوتی کہ جنہیں یہ راگ سنایا جارہا ہے اُن پر کیا بیتے گی۔
زندگی اس لیے عطا نہیں کی گئی کہ ہم رو دھوکر ضائع کردیں۔ یہ اِتنی بڑی نعمت ہے کہ اِس کی حقیقی قدر و قیمت کا ہم اندازہ کر ہی نہیں سکتے۔ زندگی ایسی نعمت سے نوازے جانے پر ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں‘ کم ہے۔ ہمارے خالق نے ہم پر واضح بھی کردیا ہے کہ یہ زندگی کیوں عطا کی گئی ہے۔ ہمارے خالق و رب کی منشا ہے کہ ہم اپنی مرضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مالکِ حقیقی کی مرضی کے تابع ہو رہیں، اُسی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ ہمیں اُن ہدایات کے تحت جینا ہے جو ہمارے خالق و رب نے ہمیں عطا کی ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ ہمیں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے یعنی ہم سے کیا مطلوب ہے۔ دینی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دنیا دارالمحن ہے‘ ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں ہر بات میں ، قدم قدم پر امتحان ہے۔ ہمیں اس امتحان کا ہر پرچہ بہت سوچ سمجھ کر دینا ہے کیونکہ حتمی نتیجہ روزِ محشر سنایا جائے گا۔ اور اُس دن سے کسی کو مفر نہیں۔
کسی بھی انسان کے لیے بہترین طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ اپنا وقت ہنسی خوشی گزارے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ہر وقت خوش رہنا ممکن نہیں کیونکہ کبھی کبھی معاملات واقعتاً ایسی شکل اختیار کر لیتے ہیں کہ دل رنج و غم میں ڈوب جاتا ہے تاہم یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کسی جواز کے بغیر‘ محض عادتاً رنجیدہ رہنا کسی بھی درجے میں کوئی معقول رویہ نہیں۔ ایسا کرنے سے انسان اپنے ہی وجود کو گھن لگاتا ہے۔
خوش رہنے کے لیے انسان کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ خوش رہنے کے جواز کی تلاش ہے۔ کوئی نہ کوئی ٹھوس جواز ہو تو انسان خوش رہ پاتا ہے۔ ناخوش رہنے کے لیے کسی ٹھوس جواز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انسان کسی بھی بات سے ناخوش ہوسکتا ہے۔ کوئی معمولی سی بات بھی بھوسے میں چنگاری والا کام کرسکتی ہے۔ انسان کسی بھی بات کو جواز کا روپ دے کر اپنے آپ کو رنج و رنجش کے حوالے کرسکتا ہے۔ اِس کام میں محنت لگتی ہے نہ پیسہ۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت رنجیدہ رہنے والوں کی تلاش میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ آپ کو قدم قدم پر دکھائی دیں گے۔ اِن سے ملیے، بات کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ناخوش رہنے اور حالات کا رونا رونے کے لیے اِنہیں کسی ٹھوس جواز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کسی بھی بات کو دانتوں سے پکڑ کر اپنا دُکھڑا سنانے لگتے ہیں۔ یہ عادت رفتہ رفتہ اِتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ اگر اِنہیں اندازہ ہو بھی جائے کہ فریقِ ثانی اِن بات کو جھوٹ سمجھ رہا ہے‘ تب بھی یہ اپنی بات کہنے سے باز نہیں آتے۔ اِن کے دل کا بوجھ کسی نہ کسی بات کا رونا رونے ہی سے کم ہوتا ہے۔
انسان دُکھڑے کیوں روتا ہے؟ بات بات پر شکوے اور گِلے کیوں کرتا ہے؟ سیدھی سی بات ہے، ایسا کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ دُکھڑے رونے سے سُکون کیوں ملتا ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ انسان کے لیے‘ عمومی سطح پر‘ ہر وہ کام اچھا ہے جس میں مہارت کی ضرورت پڑے نہ سکت کی۔ اور محنت بھی نہ کرنی پڑے۔ حالات کا رونا روتے رہنے سے آسان کام کوئی بھی نہیں۔ کچھ مثبت کہنے کے لیے مثبت سوچنا پڑتا ہے۔ اِس کے لیے فکری ساخت کو درست کرنا پڑتا ہے۔ انسان اصلاحِ نفس سے بھاگتا ہے۔ منفی معاملات کے بارے میں سوچنا آسان ہے کیونکہ یہ معاملات تو خود ہی ذہن کی طرف لپکتے ہیں۔ ہاں‘ مثبت معاملات کے بارے میں سوچنے کے لیے ذہن کو خاصی مشقت کرنا پڑتی ہے۔ کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہو تو اُس کا حل سوچنے کے لیے ذہن کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر اُس مسئلے کو حل کرنے سے جان چھڑانا ہو تو دُکھڑا روئیے اور سُکون سے سو جائیے۔ اس کام میں محنت لگتی ہے نہ مہارت ہی درکار ہوتی ہے۔ مثبت سوچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ مثبت سوچنے کے لیے ذہن کی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ ذہن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ آسانیوں کی طرف جھکتا ہے‘ لپکتا ہے۔ منفی معاملات میں بہت آسانی ہوتی ہے اس لیے ذہن اُن کی طرف تیزی سے متوجہ ہوتا ہے۔ رونے اور دُکھی ہونے کے معاملے میں ذہن کو کچھ خاص نہیں کرنا پڑتا ہے۔ ہاں‘ مشکلات اور مسائل کے باوجود مثبت طرزِ فکر و عمل کا حامل ہونے کے لیے خاصی مشقت کرنا پڑتی ہے۔ ذہن ایسے معاملات سے بھاگتا ہے۔ اِس معاملے میں اُس کی تربیت کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ مثبت طرزِ فکر و عمل کو گلے لگانے کا عادی ہو۔
معاشرے کی مجموعی روش منفی معاملات کو پروان چڑھانے والی ہے۔ آج ہمارے ہاں اکثریت اُن کی ہے جو کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اِس خوش گمانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ سب کچھ ایک نہ ایک دن خود بخود درست ہو جائے گا۔ حالات کو درست کرنے کے لیے فکر و عمل کی سطح پر متحرک ہونا پڑتا ہے۔ ناخوش رہنا کوئی آپشن نہیں۔ آپشن تو خوش رہنا ہے۔ ناخوش رہنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا اس لیے اِس عمل کے مثبت یا مفید نتائج بھی برآمد نہیں ہوتے۔ خوش رہنا پسند کا معاملہ ہے۔ اس حوالے سے ذہن سازی کرنا پڑتی ہے۔ دل و دماغ خوش رہنے کی طرف آسانی سے مائل نہیں ہوتے۔ اِنہیں سدھانا پڑتا ہے۔ اس محنت کا صلہ بھی خوب ہے۔ ماحول میں اکثریت ناخوش رہنے والوں کی ہے۔ اُن کے مقابل اپنے آپ کو مثبت تصورات کے ساتھ زندہ رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ چیلنج قبول کرنے ہی میں جینے کا حقیقی لطف پوشیدہ ہے۔