انسان اپنی قیمتی اشیا کو سنبھالتا پھرتا ہے۔ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ قیمتی اشیا کسی کے ہاتھ نہ لگیں۔ چوروں اور ڈاکوؤں سے قیمتی اشیا کو محفوظ رکھنے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ کوئی اپنی قیمتی اشیا سیف میں رکھتا ہے تو کوئی بینک کے لاکرز میں۔ بہت سوں نے یہ سوچا ہے کہ قیمتی اشیا کو سنبھالنے کی ایک معقول صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سرمایہ کاری کی جائے۔ سرکاری بانڈز میں کی جانے والی سرمایہ کاری خاصی محفوظ ہوتی ہے۔ بعض بڑے اداروں میں کی جانے والی سرمایہ کاری بھی نسبتاً محفوظ ہی رہتی ہے۔
طرح طرح کی قیمتی اشیا یا اثاثوں کو چرائے جانے یا لٹنے سے بچانے کے لیے انسان جتنے جتن کرتا ہے اُتنے جتن سب سے قیمتی شے کو محفوظ رکھنے کی خاطر نہیں کرتا۔ سب سے قیمتی شے؟ کیا ہوسکتی ہے وہ شے؟ زندگی؟ زندگی بھی قیمتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ زندگی ہے تو اس بات کی کچھ اہمیت ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ قیمتی ہے یا نہیں۔ مگر صاحب! پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیجیے، خوب غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہماری سب سے قیمتی شے وقت ہے۔ وقت وہ نعمت ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا۔ دیگر کوئی بھی چیز ہم سے چھین لی جائے، ضائع ہو جائے، جدا کردی جائے تو کسی نہ کسی طور اُس کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔ کھوئی ہوئی یا ضائع ہو جانے والی دولت کو ہم دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ کھوئی ہوئی شہرت بھی کسی نہ کسی طور بحال کی جاسکتی ہے۔ ساکھ خراب ہوجائے تو سر توڑ محنت کے ذریعے بہر طور بحال کی جاسکتی ہے اور ایسا ہم بہت سوں کے معاملات میں دیکھتے بھی آئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پر بھی یہ وقت گزرا ہو۔ کبھی کبھی کوئی اپنی ساری دولت سے محروم ہو جاتا ہے مگر پھر کچھ ہی مدت میں وہ اپنی کھوئی ہوئی دولت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مادّی سطح کی کوئی بھی چیز دوبارہ حاصل کرنا حیرت انگیز تو ہوسکتا ہے، ناممکن نہیں۔
وقت واحد اثاثہ ہے جس میں کسی بھی طور اضافہ ممکن نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شدید بیماری کی حالت میں بھرپور علاج پر توجہ دے کر صحت بحال کرکے عمر بڑھاسکتا ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ قدرت نے جتنا وقت دیا ہے وہی ہمارا ہے۔ مرتے مرتے بچنا زندگی کی میعاد میں توسیع نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ قدرت نے روئے ارض پر جتنا قیام طے کیا ہے‘ وہ ہر حال میں ہمارے حصے میں آکر رہے گا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہم سے کچھ چھین کر لے جائے تو صرف اُسی کو ڈکیتی کہا جائے گا۔ ایسا نہیں ہے! ڈاکا صرف مال و زر پر نہیں ڈالا جاتا۔ قیمتی اشیا کو لوٹنا ڈکیتی ہے مگر اس حقیقت سے انکار عدمِ تعقل کی دلیل سمجھا جائے گا کہ ہمارے سب سے قیمتی اثاثے یعنی وقت کو لوٹنا بھی ڈکیتی ہے!
ہم زندگی بھر صرف ایک معاملے میں واقعی الجھے رہتے ہیں اور وہ ہے وقت کی تقسیم و تطبیق۔ وقت کو درست ترین طریقے سے بروئے کار لانا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ جب زندگی میں اِتنی ہماہمی نہیں تھی اور وقت ضائع کرنے والے معاملات برائے نام تھے تب بھی عام آدمی کے لیے وقت کا ضیاع روکنا کسی حد تک دردِ سر ہوا کرتا تھا۔ اہلِ دانش تب بھی وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ وقت کے نظم و نسق کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ باشعور رہنے کی تب بھی بہت اہمیت تھی۔ اب آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ فی زمانہ وقت کا معاملہ کیا ہوگا۔
آج کا انسان وقت کے حوالے سے کم و بیش ہر وقت شدید بدحواسی میں مبتلا رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے چکر میں لوگ اپنے وقت کا تیا پانچا کر ڈالتے ہیں۔ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانا کسی بھی انسان کے لیے آسان نہیں۔ جو لوگ وقت کے نظم و نسق کے حوالے سے تربیت پاتے ہیں اُن کے لیے وقت دردِ سر ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے لوگ تھوڑی توجہ اور ضبطِ نفس سے وقت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے میں بہت حد تک کامیاب ہوتے ہیں تاہم عام آدمی‘ جو وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے حوالے سے برائے نام تربیت کا بھی حامل نہیں ہوتا‘ قدم قدم پر ذہنی الجھن محسوس کرتا ہے۔ وقت کو درست ترین خانوں میں بانٹنا صرف اُن کے لیے ممکن ہو پاتا ہے جنہوں نے اس حوالے سے بہت غور و خوض کیا ہو اور متعلقہ تربیت بھی حاصل کی ہو۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد مشق کا مرحلہ آتا ہے۔ وقت کو کس طور ڈھنگ سے بروئے کار لانا ہے یہ بات ہم مشق کے ذریعے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ محدود وقت سے زیادہ سے زیادہ فوائد کا حصول ممکن بنانا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ کامیاب ترین افراد کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُنہوں نے بھی یہ معرکہ سر توڑ محنت اور کوشش کے ذریعے جیتا ہے۔
وقت کے معاملے میں ہر دور کے انسان نے شدید الجھنوں کا سامنا کیا ہے۔ فی زمانہ یہ معاملہ کچھ زیادہ الجھ کر رہ گیا ہے۔ آج ہم سے ہمارا قیمتی ترین اثاثہ چھیننے کی کوشش کرنے والے عوامل اتنے زیادہ ہیں کہ اُن پر بھرپور توجہ دینا کم و بیش ناممکن ہوچکا ہے۔ وقت کی بہترین تقسیم و تطبیق اب ایک ایسا ہنر ہے جو انتہائی وقیع ہے اور اِسے سیکھنے میں خاصا وقت بھی لگتا ہے اور محنت بھی۔ جس نے یہ ہنر نظر انداز کیا وہ مارا گیا‘ اور وہ بھی تاریک راہوں میں۔ آج کے انسان کو اگر بامقصد انداز سے جینا ہے تو بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا اور بہت کچھ اپنائے بغیر بھی بات نہیں بنے گی۔ وقت ضائع کرنے والا ہر عمل اپنی اصل میں ڈکیتی ہی ہے۔ جب بھی ہم کسی فضول سرگرمی میں دلچسپی لیتے ہیں اور غیر متعلق معاملے میں اپنے آپ کو ملوث کرتے ہیں تو درحقیقت ہم اپنے آپ کو لٹنے دے رہے ہوتے ہیں۔ وقت کے معاملے میں ڈھیلا رویہ ہمیں پریشان کن حالات سے دوچار رکھتا ہے۔
وقت سے متعلق منصوبہ سازی زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان عمر کے کسی خاص حصے میں منصوبہ سازی کرے اور اُس کے مطابق تھوڑی بہت زندگی بسر کرے۔ وقت کے بہترین استعمال کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی ہمہ وقت جاری رکھنا پڑتی ہے۔ حالات بدلتے ہیں تو منصوبے بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے والی منصوبہ سازی ہی ہمیں مطلوب نتائج سے قریب تر کرسکتی ہے۔ کسی خاص صورتِ حال کے حوالے سے کی جانے والی منصوبہ سازی کسی دوسری حالت میں ہمارے کام کی نہیں ہوتی یا زیادہ سُودمند ثابت نہیں ہوتی۔ وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔ اُس کا ایک تقاضا البتہ نہیں بدلتا‘ وہ یہ کہ اُسے بطریقِ احسن بروئے کار لانے کے معاملے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا ہے۔ اس لیے جامع منصوبہ بندی کا تسلسل ناگزیر ہے۔
زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے کی جانے والی منصوبہ سازی گھوم پھر کر وقت کی قدر و قیمت ہی کا احساس دلاتی ہے۔ ہم اپنے معاملات کو درست رکھنے کے حوالے سے جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ اصلاً وقت کے محدود ہونے کی بنیاد پر ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی وقت کے حوالے سے لاپروا ہو اور اپنے خوابوں کو آسانی سے شرمندۂ تعبیر کرلے۔ کسی کو محض اتفاق سے تھوڑی بہت کامیابی مل بھی جائے تو اُسے اصول یا کلیے کے طور پر اپنایا نہیں جاسکتا۔ ہم کسی بھی ماحول میں ایسے چند افراد کو دیکھتے ہیں جو لاپروائی اور بے دِلی کے باوجود‘ محض حالات کی مہربانی سے‘ بہت کچھ پالیتے ہیں اور اِسے کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ کامیابی نہیں! کامیاب صرف وہ انسان ہے جو اپنے وقت کو بہترین تقسیم اور موزوں ترین ترجیحات کے تحت بروئے کار لاتا ہے۔ چوری اور ڈکیتی سے بچنا آپ پر لازم ہے تاہم اس کوشش میں یہ نکتہ نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ آپ کے وقت کا ضیاع بھی ایک طرح کی ڈکیتی ہی ہے اور آپ کو اس ڈکیتی میں سہولت کار ہرگز نہیں بننا چاہیے۔ اپنے تمام معاملات اور حلقۂ احباب کا جائزہ لیجیے۔ جو آپ کا وقت ضائع کرتا ہو ایسے ہر معاملے اور ہر انسان سے معقول فاصلہ رکھیے، اُسے اپنے معاملات میں دخیل ہونے کا موقع مت دیجیے۔