"MIK" (space) message & send to 7575

سوال عزم کا ہے

تمام معاملات بالآخر عزم کی چوکھٹ تک پہنچ کر منتظر رہتے ہیں کہ اِدھر جائیں یا اُدھر۔ انسان اگر طے کرلے تو کچھ ہو پاتا ہے وگرنہ معاملات اٹکے ہی رہتے ہیں، بات بن کر نہیں دیتی اور کام ہو نہیں پاتا۔ عزم بھی وہ چاہیے جو کسی بھی حال میں اِدھر سے اُدھر نہ ہو۔ ثابت قدمی ثابت کرتی ہے کہ جو بھی عزم کیا گیا تھا وہ کس سطح کا‘ کس پائے کا تھا۔
ہمارے ہاں ہر سطح پر عزم ہی کی کمی ہے۔ لوگ عزم کی اہمیت سمجھتے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ ایسا نہیں جو بھرپور عزم کے بغیر معقول یا مطلوب نتائج دے سکے۔ شنید ہے کہ یوکرین میں جنگ کی تباہ کاریوں کے بیچ ایک ایسا کام ہوا ہے جس نے دنیا کو بتادیا ہے کہ کسی بھی قوم کے لیے در حقیقت زندگی اور موت کا معاملہ کیا ہے۔ یوکرین کے طول و عرض میں بربادی کا بازار گرم ہے۔ روس کی لشکر کشی کے باعث ملک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اپنی غیر معمولی قوت کے باوجود روسی قیادت اب تک یوکرین کو اپنے قدموں پر جھکانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ یوکرین کے عوام نے اپنے بھرپور عزم و استقامت سے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی صورتِ حال کا ڈٹ کر سامنا کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں اور کسی بھی بحران میں اِتنا دم نہیں کہ اُن کے پائے استقامت میں سرِمُو لغزش پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اب آئیے اُس کام کی طرف جو ہوا ہے اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔ یوکرین کی حکومت نے ملک کے طول و عرض میں کم و بیش 41 فیصد سکول بحال کر لیے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرنے کا عمل زیادہ دیر متاثر نہ رہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ جنگ زدہ ماحول میں بھی بچوں کی سکولنگ میں کوئی رخنہ نہ پڑے اور وہ معمول کے مطابق تعلیم و تربیت پاتے ہوئے شاندار و تابناک مستقبل کی طرف اپنا سفر جاری رکھیں۔
کسی بھی قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ کیا ہوسکتا ہے؟ تعلیم سے ہٹ کر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے جسے ہم کسی قوم کے لیے سب سے بڑا معاملہ قرار دے سکیں؟ ہوسکتا ہے کوئی کہے کہ دین یا مذہب سب سے بنیادی معاملہ ہے۔ غور کیجیے تو وہ بھی معیاری تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔ انسان دین و مذہب کے حوالے سے اچھی طرزِ فکر و عمل اُسی وقت اپناسکتا‘ پروان چڑھا سکتا ہے جب وہ طے کرلے کہ تعلیم و تربیت کو سب سے بڑھ کر اہمیت دے گا۔ معیاری تعلیم ہی سے مزاج میں شائستگی، نظر میں بلندی اور ذہن میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ تعلیم ہی تو انسان کو کچھ کرنے کا ذہن بنانے پر مائل کرتی ہے۔ نئی نسل کو آگے بڑھنے کے لیے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ تعلیم و تربیت کا اعلیٰ معیار اُنہیں بہتر زندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ فنی یا پیشہ ورانہ مہارت کا حصول بہتر معاشی امکانات کی راہ ہموار کرتا ہے۔ نئی نسل کو جدید علوم و فنون میں دست گاہ پیدا کیے ہی بنتی ہے مگر سب کچھ یہی نہیں ہے۔ معیاری نظامِ تعلیم و تربیت انسان کو بہتر مستقبل اور خوش حال زندگی کے لیے ہر اعتبار سے تیار کرتا ہے۔ محض پیشہ ورانہ مہارت کافی نہیں‘ مزاج بھی معتدل ہونا چاہیے۔ فکر و نظر کا توازن ہی انسان کو ہر اعتبار سے قابلِ قبول بناتا ہے۔
ہمارے ہاں بالکل نارمل حالات میں بھی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی۔ یوکرین نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی قوم کسی بھی معاملے میں کوئی عزم کرلے تو حالات اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پختہ عزم ہی انسان کو آگے لے جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم و تربیت کو زندگی اور موت کا معاملہ سمجھنے کی ذہنیت کبھی پروان ہی نہیں چڑھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی چند برس تعلیم و تربیت کے حوالے سے توانا تھے۔ لوگ محسوس کرتے تھے کہ ڈھنگ سے جینا ہے تو تعلیم و تربیت کے معاملے میں لاپروائی نہیں چلے گی۔ یہ رویہ مثالی نوعیت کا تو نہیں تھا؛ تاہم آج کے حالات کی روشنی میں جائزہ لیجیے تو وہ سوچ بہت بڑی کامیابی معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب اساتذہ کو اندازہ تھا کہ ایس ایس سی یعنی میٹرک کی سطح پر بچوں کا ذہن مستحکم ہو تو مستقبل کے لیے بہتر تیاری میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ نویں اور دسویں کے امتحان کی تیاری پر خاص توجہ دی جاتی اور دلائی جاتی تھی۔ اساتذہ اضافی کلاسیں لے کر بچوں کو بورڈ کے امتحان کے لیے تیار کرتے تھے۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ ایس ایس سی کی سطح پر عمدہ کارکردگی طلبہ کے اعتماد میں مطلوب اضافہ ممکن بناتی ہے۔ اساتذہ امتحانات کی تیاری کے لیے طلبہ کو اضافی وقت کسی معاوضے کی تمنا کے بغیر دیا کرتے تھے۔ اُنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس تھا۔ کسی اضافی معاوضے کی تمنا کیے بغیر کچھ کرنے سے اُنہیں خاصی مسرّت حاصل ہوتی تھی اور طلبہ و والدین میں اُن کا امیج بھی بلند ہوتا تھا۔ طلبہ اِس بات کا بہت اچھا اثر قبول کرتے تھے کہ اساتذہ اُنہیں اضافی وقت کسی صلے کی پروا کیے بغیر دیتے ہیں۔ یوں طلبہ میں بھی ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ وہ بھی عملی زندگی میں کسی کے لیے کچھ کرنے کا سوچتے تھے اور کر گزرتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کو مکمل شکست ہوئی تھی۔ اُسے ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔ امریکا نے دو ایٹم بم چلاکر جاپان کے دو بڑے شہر ہی تباہ نہیں کیے تھے اور بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان پہنچاکر عظیم انسانی المیے ہی کو جنم نہیں دیا تھا بلکہ جاپانی قوم کے اعتماد کو بھی غرق کرنے کی کوشش کی تھی۔ جاپانی قوم کی عظمت کو بھی سلام کہ اُس نے جنگ میں شکست قبول کرنے اور ہتھیار ڈالنے کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور دن رات محنت کرکے چند ہی عشروں میں ایک بار پھر عالمی سطح پر اپنے آپ کو منوالیا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوسکا؟ عزم اپنی جگہ تھا اور محنت کرنے کی لگن بھی کم نہ تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ جاپانیوں نے علم و فن کے محاذ پر اپنے آپ کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ سکولنگ معیاری تھی اور پیشہ ورانہ تربیت کا ماحول انتہائی توانا تھا۔
جنگ کی تباہ کاری کے باوجود جاپانیوں نے دن رات ایک کرکے علوم و فنون میں مہارت پیدا کی اور اپنے آپ کو ایک عظیم قوم کی حیثیت سے پھر منوالیا۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوسکا کہ جاپان میں تعلیم و تربیت کا نظام نہ صرف یہ کہ برقرار تھا بلکہ انتہائی جاندار و شاندار تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اساتذہ میں ملک کے لیے کچھ کرنے کی لگن توانا تھی۔ انہوں نے ستائش اور صلے کی پروا کیے بغیر نئی نسل کو مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے پر توجہ دی اور یوں جاپان ایک بار پھر اپنے آپ کو عالمی قوت کی حیثیت سے منوانے میں کامیاب رہا۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اپنے آپ کو منوانا ہے یا نہیں؟ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُس کی بنیاد پر تو یہی رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو منوانے کی فکر تو کیا لاحق ہوگی، یہاں تو جینے ہی میں دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔ زندگی کو بوجھ سمجھ کر محض گزارا جارہا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کا سوچا بھی نہیں جارہا۔ تعلیم زندگی کا سب سے بنیادی معاملہ ہے۔ اس شعبے کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ترقی تو خیر کیا ممکن بنائی جاسکے گی، اپنے وجود کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔
تعلیم و تربیت کو زندگی سمجھنے تک ہم ڈھنگ سے کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ حالیہ سیلاب نے سندھ میں کم و بیش بیس ہزار سکولوں کو تباہی سے دوچار کیا ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ سکولوں کی تباہی سے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سیلاب نے تباہی نہیں مچائی تھی تب ان سکولوں میں تعلیم کا سلسلہ کس طور جاری تھا۔ کیا تب نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کی سوچ پائی جاتی تھی؟ اس سوال کا جواب صرف اور صرف نفی میں ہے۔ ہمارے ہاں پورے ملک میں مجموعی طور پر اور سندھ میں خصوصی طور پر سرکاری شعبے میں تعلیم کا معیار بلند کرنے اور نئی نسل کو آنے والے زمانوں کے لیے تیار کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی ہی نہیں جاتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں