"MIK" (space) message & send to 7575

وہ مقام آ ہی چکا ہے

ایک بار ایوارڈز کی تقریب میں بھارت کے معروف کامیڈین آنجہانی راجو شری واستو نے بھارتی ریاست مہا راشٹر کے وزیر اعلیٰ وِلاس راؤ دیش مُکھ کی موجودگی میں ایک لطیفہ سنایا جس میں کسی فرضی کردار کی زبانی کہا گیا ''ممبئی میں خطرناک اور تباہ کن بارش ہو رہی ہے۔ لوگ بالکل نہ گھبرائیں‘ ہم چیف منسٹر ولاس راؤ دیش مُکھ سے کہہ کر خطرے کے نشان کو مزید اوپر اٹھارہے ہیں!‘‘ ۔
آج کل ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے۔ مشکلات بڑھتی جارہی ہیں مگر نہ تو حکومتی مشینری ٹس سے مس ہو رہی ہے اور نہ ہی عوام کچھ سیکھنے کو تیار ہیں۔ خطرے کے نشان کو بلند کیا جارہا ہے، گویا ایسا کرنے سے خطرہ ٹل جائے گا۔ ہم کسی بھی صورتِ حال سے کچھ بھی سیکھنے کا ذہن نہیں بنا پارہے۔ سب ایک دوسرے کی نقل کر رہے ہیں۔اگر کسی سے کہیے کہ سوچنا سیکھو اور ڈھنگ سے جیو تو جواب ملتا ہے: ہم کیوں سوچنا سیکھیں جبکہ معاشرے میں کوئی بھی ایسا کرنے کو تیار نہیں! بظاہر بات بالکل درست دکھائی دیتی ہے؛ تاہم ہے بالکل غلط۔ یہ دیکھا دیکھی والا معاملہ ہمارے ہاں ہر شعبے میں ہے اور دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔
کیا اب بھی کسی بات کا انتظار کیا جانا چاہیے؟ کس بات کا؟ کسی بھی قوم کو مکمل طور پر جھنجھوڑ دینے والے معاملات اور حالات و واقعات کب کے ہمارے ہاں وارد ہوچکے ہیں‘ پھر بھی ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ کسی بھی قوم کے لیے شدید بحرانی کیفیت ہی بہت سے مواقع پیدا کرتی ہے کیونکہ جب لوگ معاملات سے تنگ آجاتے ہیں تو کچھ بہتر اور ہٹ کر کرنے کی ٹھانتے ہیں۔ ایسے میں کچھ نیا کرنے کی راہ نکل ہی آتی ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق معاشرہ کچھ کرنے کا سوچتا ہے اور بہتری کی راہ ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں وہ زمانہ ایک مدت سے آیا ہوا ہے جو کسی بھی معاشرے کو نئی اٹھان کی تحریک دیتا ہے‘ مجبور کرتا ہے کہ معاملات کو درست کرنے پر توجہ دی جائے اور بہتر زندگی کی طرف بڑھنے کی ابتدا کی جائے۔ کم و بیش ڈھائی عشروں کے دوران معاملات صرف خرابی کی طرف گئے ہیں۔ ملک دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔ کئی بار معاملات اِس طور ہاتھ سے نکلے کہ ملکی و قومی سلامتی داؤ پر لگ گئی۔ دو عشروں سے بھی زائد مدت اس طور گزری ہے کہ قوم ترقی تو کیا کرے گی‘ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکی۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب معاملہ محض عدم استحکام تک محدود نہیں رہا بلکہ بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ قوم کا وجود خطرے میں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ مزید سنگین شکل اختیار کر رہا ہے۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے لیے وہ گھڑی آچکی ہے کہ اپنے معاملات درست کرنے کے لیے بھرپور سنجیدگی اختیار کی جائے، کچھ سوچا جائے اور اُس سے مطابقت رکھنے والا عمل اپنایا جائے۔ خرابیاں اپنی منطقی انتہا کو چھو رہی ہیں۔ پورا معاشرہ خرابیوں کی لپیٹ میں ہے۔ ایسی حالت میں کچھ نہ کچھ کرنے کا ذہن بنتا ہی ہے۔ اب مزید کسی خرابی کا انتظار کرنے کی ضرورت اور گنجائش نہیں رہی۔ جو کچھ ہوچکا ہے وہ ہمیں جھنجھوڑنے اور معاملات کو بہتر بنانے کی تحریک دینے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ سرِدست پاکستان میں عوام سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شعبہ درست حالت میں نہیں۔ ہم ہر طرح کی کرپشن کے نقطۂ عروج والے عہد میں جی رہے ہیں۔ سرکاری مشینری کا حال بہت ہی بُرا ہے۔ اب نجی شعبہ بھی کچھ کم خراب نہیں۔ کرپشن سمیت تمام بُرائیاں پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ملازمین سرکاری ہوں یا نجی شعبے کے‘ سبھی کام سے گریزاں ہیں اور کرپشن پر تُلے ہوئے ہیں۔ کام کرنے اور دوسروں کے لیے بھی کام کی گنجائش چھوڑنے والے خال خال ہیں۔ ملک قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے شدید دبائو کا شکار ہے اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیا واقعی؟ وفاقی کابینہ کہتی ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے بات چیت ہو رہی ہے اور دوسری طرف چین، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک سے رابطہ کیا جارہا ہے تاکہ بیرونی تجارت کے حوالے سے ادائیگی کی پوزیشن برقرار رکھی جاسکے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ نجی بینکوں میں زرِ مبادلہ کے مجموعی ذخائر اِس سے کچھ ہی زیادہ ہیں! یہ کیفیت انتباہی نوعیت کی ہے۔ یہ ویک اَپ کال ہے یعنی خوابِ غفلت ترک کرکے اٹھ جائیے اور کچھ کر دکھائیے۔ حکومتی مشینری کچھ خاص کرنے کے قابل نہیں رہی اور ریاست کے سٹیک ہولڈرز کو آپس میں لڑنے بھڑنے ہی سے فرصت نہیں۔ اقتدار کی کشمکش ایسی ہے کہ اہلِ وطن کے دل دَہل کر رہ گئے ہیں۔ کوئی اقتدار پانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے اور جن کے پاس اقتدار ہے وہ اِسے بچانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ ایسے میں قوم پر جو کچھ گزر رہی ہے وہ ایسی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ کوئی دیکھ نہ سکے۔ جو دیکھ نہ پائے وہ بھی خرابی کو محسوس تو کر ہی سکتا ہے۔ آج پاکستان وہاں کھڑا ہے جہاں اُسے صرف اور صرف اصلاحِ احوال کی تحریک کی ضرورت ہے۔ کم و بیش ہر شعبہ شدید خرابی کی نذر ہوچکا ہے۔ عام آدمی کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں یا بڑھادی گئی ہیں۔ ہر طبقہ صرف اور صرف لوٹ مار میں لگا ہوا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی چکّی میں بُری طرح پس رہا ہے۔ مہنگائی سے نمٹنے کے لیے سبھی اپنی اپنی اجرت اور منافع بڑھاتے جا رہے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ از خود ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کے نتیجے میں اُس کی قوتِ خرید کم ہوتی جارہی ہے۔ یا تو دُگنا‘ تِگنا کام کیجیے اور مالی استعداد میں اضافہ کیجیے مگر یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی قیمت اِتنی بڑھ گئی ہے کہ عام آدمی کسی نہ کسی طور محض زندہ رہنے کی کوشش ہی میں اپنی زندگی کھپارہا ہے۔ تعلیم و صحت کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ اچھا کھانا پینا بھی آسان نہیں رہا۔ اب محض گزارے کی سطح پر جینا ہی ممکن رہا ہے۔ اور کون جانے یہ بھی کب تک ہے؟
اصلاحِ احوال کے حوالے سے ملک گیر تحریک کی ضرورت ہے۔ جو معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے اپنے آپ کو متحرک رکھتے ہیں اُنہیں زیادہ منظم اور متحرک ہوکر آگے آنا ہے۔ لوگوں کو محض بھیک، امداد یا عطیات پر زندہ رہنے کی تحریک دینے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر زیادہ توانا لگن کے ساتھ جدوجہد پر مائل کرنا ہے۔ مخیر افراد خدا کی راہ میں بہت کچھ دیتے ہیں۔ یہ یقینا اچھی روش ہے مگر بہتر روش یہ ہے کہ لوگوں کو کام کرنے کے قابل بنایا جائے۔ ایک قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بدلنے کا وقت آچکا ہے۔ یہ کام کسی بھی اعتبار سے آسان نہیں۔ بہت سی بُری عادتوں کو ترک کرنا ہے اور بہت سے اوصافِ حمیدہ کو اپنانا ہے۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر جامع اصلاحِ احوال ممکن نہیں۔ ہم عمومی سطح پر ایسا بہت کچھ اپنائے ہوئے ہیں جس کی قباحت کا خود ہمیں بھی کچھ خاص اندازہ نہیں۔ سیاسی قائدین کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ محض اقتدار سے محبت نہیں کرتے بلکہ ملک و قوم کا بھلا سوچتے ہیں۔ قومی سطح پر مصالحتی عمل ناگزیر ہے۔ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ملک کو بحران سے نکالنے کی حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔ یہ کام جلد از جلد کیا جانا ہے؛ تاہم عجلت پسندی سے معاملات مزید بگڑیں گے۔ کوئی بھی جامع حکمتِ عملی بہت سوچ سمجھ کر تیار کرنا ہوگی تاکہ ریاست اور معاشرے کو مزید نقصان نہ پہنچے۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ کاروبار کا بنیادی مقصد ہے منافع کمانا نہ کہ منافع خوری۔ اگر کوئی طبقہ حالات سے فائدہ اٹھاکر زیادہ منافع بٹورنے کی روش اپنا لے تو معاشرے کو ایسا نقصان پہنچتا ہے کہ اس کے نتیجے میں خود اُس طبقے کے مفادات بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔ آج کا پاکستان اپنے دامن میں سمائے ہوئے تمام انسانوں سے تقاضا کر رہا ہے کہ استحکام کا بھی سوچا جائے اور بقا کا بھی۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم اب تک بنیادی سہولتوں کا نظام بھی تیار نہیں کر پائے۔ عام آدمی کو روزانہ کام پر جانا اور واپس آنا بھی سوہانِ روح لگتا ہے۔ اس مقام سے ہمیں بہتری ہی کی طرف جانا ہے۔ کوئی اور آپشن ہی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں