لوگ زندگی بھر کامیابی کے بارے میں سوچتے ہیں اور جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی‘ محض حالات کی مہربانی سے‘ تھوڑی سی بہت کامیابی بلا جواز طور پر بھی مل جاتی ہے اور انسان مطمئن ہو رہتا ہے۔ کوئی بھی شعبہ کبھی موافق حالات کا حامل ہوتا ہے اور کبھی ناموافق حالات کا۔ وقت بدلتا ہے تو انسان کے لیے امکانات بھی بدل جاتے ہیں۔ اور تو اور‘ سب کچھ بدل جاتا ہے، قدرت کے اصول نہیں بدلتے۔ ہر شعبے میں پنپنے کی کسی نہ کسی حد تک گنجائش ہوتی ہے۔ معاشرہ چاہے کسی بھی سطح پر جی رہا ہو‘ چند شعبوں میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو معاشرے دم توڑ دیں۔
کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے جدوجہد کرنے سے پہلے چند ایک معاملات کا خاص خیال رکھنا لازم ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اُس شعبے میں خصوصی دلچسپی ہے بھی یا نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ آپ واضح اور ٹھوس دلچسپی کے بغیر کام شروع کریں اور کامیابی مل جائے۔ دلچسپی انتہائی بنیادی عنصر ہے۔ کسی بھی انسان کو اپنے لیے شعبہ منتخب کرتے وقت بغور جائزہ لینا چاہیے کہ اُس شعبے میں حقیقی اور واقعی دلچسپی ہے یا نہیں۔ اِس کے بعد ہی کچھ کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ نئی نسل جب کسی شعبے میں بھرپور شہرت اور دولت دیکھتی ہے تو اُسی شعبے میں طبع آزمائی کی ٹھان لیتی ہے۔ دلچسپی کے بغیر ایسا کیا جائے تو نتیجہ ڈھاک کے تین پات والا نکلتا ہے۔ شخصی ارتقا کے ماہرین کسی بھی شعبے میں طبع آزمائی کی خواہش یا ارادہ رکھنے والوں سے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اُس شعبے سے واقعی دلچسپی ہے یا نہیں۔ اگر دلچسپی نہیں ہے تو محنت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اگر دلچسپی ہے اور بھرپور ہے تو کسی نہ کسی طور کامیابی یقینی بنائی جاسکے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ متعلقہ شعبے میں فروغ کی گنجائش کتنی ہے۔
کیریئر کی سوچ انسان کو منظم انداز سے کام کرنے کے قابل بناتی ہے۔ جب ہم کسی بھی شعبے کو زندگی بھر کے لیے اپنانے کے بارے میں سوچتے ہیں تب تمام متعلقہ امور ہم پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی خاص شعبے میں دلچسپی لینے لگتا ہے تو اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا ہے۔ پھر وہ پڑھتا بھی ہے اور لوگوں سے ملتا بھی ہے۔ مثلاً اگر کسی کو اداکاری کا شوق ہے تو محض ڈرامے یا فلمیں دیکھنے سے کچھ نہ ہوگا۔ متعلقہ شعبے میں نام کمانے والوں سے ملنا پڑے گا اور متعلقہ لٹریچر پڑھنا بھی پڑے گا۔ محض سوچنے سے کوئی اداکار نہیں بن جاتا بلکہ اُسے سیکھنا پڑتا ہے کہ اداکاری میں کون کون سی باتوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ زبان پر عبور ہونا چاہیے۔ تاثرات میں خامی نہیں رہنی چاہیے۔ باڈی لینگویج شاندار ہونی چاہیے۔ کردار کے سانچے میں ڈھلتے وقت اپنی شخصیت کو دبوچ کر ایک طرف ہٹانا پڑتا ہے۔ کردار کی زبان، لہجہ، چال ڈھال سب کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ دیکھیں تو دیکھتے رہ جائیں۔ یہ سب کچھ محض کہنے سے نہیں ہوتا بلکہ اِس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اداکاری اپنے وجود کو بھول کر کسی اور کے وجود کی کھال میں سمانے کا نام ہے۔ یہ محض سوچنے اور کہنے کا نہیں بلکہ کرنے کا معاملہ ہے۔
آپ کیا بن سکتے ہیں اور کیا نہیں بن سکتے یہ آپ سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟ اور اگر آپ خود بھی نہیں جانتے تو پھر سمجھ لیجیے کہ آپ اپنے ہی وجود سے کِھلواڑ کر رہے ہیں۔ ہمیں روئے ارض پر جتنا بھی وقت ودیعت کیا گیا ہے وہ ہماری صلاحیت اور سکت سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ یہ جاننا پڑتا ہے۔ قدرت نے ہم میں جو کچھ بھی رکھا ہے، سمویا ہے وہ ایک بھرپور زندگی کے لیے انتہائی کافی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں یا نہیں، اپنے آپ کو کماحقہٗ پہچان پاتے ہیں یا نہیں۔ بہت سوں کو اپنی صلاحیت و سکت کا درست اندازہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو پہچاننا کسی بھی شعبے میں پیش رفت یقینی بنانے کی بنیادی شرط ہے۔ آپ کو معلوم اور یقین ہونا چاہیے کہ آپ میں کیا بننے کی صلاحیت و سکت ہے۔اِس دنیا میں جس کسی کو بھی سانسیں عطا کی گئیں ہیں اُسے کسی نہ کسی حوالے سے باصلاحیت بھی بنایا گیا ہے۔ ہر انسان کو اپنی صلاحیت کا اندازہ لگاکر اُسے نکھارنا پڑتا ہے۔ یہ کام خود بخود نہیں ہوتا بلکہ توجہ اور محنت کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ توجہ بھی بھرپور ہونی چاہیے اور محنت بھی ایسی نہ ہو کہ کہیں کوئی کسر رہ جائے۔
کیا اپنے آپ کو پہچاننا ہر انسان کے لیے آسان اور ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہر انسان نہیں جانتا کہ وہ کیا کرسکتا ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ وہ جان نہیں سکتا۔ بات یہ ہے کہ وہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ جس شعبے کے رجحان کے ساتھ خلق کیا گیا ہے اُس سے ہٹ کر کسی ایسے شعبے میں اپنے آپ کو کھپا رہے ہوتے ہیں جو مزاج سے مطابقت رکھتا ہے نہ موافقت۔ ایسے میں انسان کوئی خصوصی کام تو خیر کیا کرے گا، معمول کا کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکتا۔ کسی بھی شعبے میں آپ اُنہی کو پنپتا ہوا دیکھیں گے جو اُس شعبے میں بھرپور دلچسپی کے حامل ہوں۔ ایسی ہی حالت میں کام کرنے کا مزا آتا ہے۔نئی نسل کیریئر کے لیے شعبے کا انتخاب سوچے سمجھے بغیر کرنے کی عادی ہے۔ اول تو کیریئر کی سوچ پنپتی نہیں اور اگر پنپ جائے تو شعبے کا انتخاب مشکلات پیدا کرتا ہے۔ بیشتر نوجوان یا تو دولت کے لیے کوئی شعبہ چُنتے ہیں یا پھر شہرت کے لیے۔ جن شعبوں میں دولت اور شہرت ساتھ ساتھ چلتی ہوں اُن میں طبع آزمائی کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ نوجوان یہ بھی نہیں سوچتے کہ اُن میں متعلقہ شعبے کا رجحان پایا بھی جاتا ہے یا نہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان میں متعلقہ شعبے کا حقیقی رجحان موجود ہے یا نہیں۔ اور اگر ہے تو کس حد تک۔ ذرا سے یا عمومی نوعیت کے جھکاؤ کو کسی بھی صورت باضابطہ رجحان سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
بھرپور کامیابی کے لیے اپنے آپ کو پہچاننا محض ضروری نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔ کامیاب اُنہی کو دیکھا گیا ہے جنہوں نے پہلے اپنے وجود کو پہچانا ہے اور پھر کسی بھی شعبے میں جدوجہد کی ہے۔ بہت سوں کو آپ اس حال میں دیکھیں گے کہ کسی بھی شعبے میں واضح میلانِ طبع کے بغیر عمر کے ڈھلنے تک جَھک مارتے رہتے ہیں۔ کسی سے بھرپور مشاورت کیے بغیر، اپنی صلاحیت و سکت کا جائزہ لیے بغیر کچھ بھی کرنے کی ذہنیت کے ساتھ کام کرنے کا یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔نئی نسل کو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ اُس میں کیا بننے کی صلاحیت اور سکت ہے۔ متعلقہ شعبے کی سکت کا اندازہ بھی لگانا پڑتا ہے۔ اگر کسی شعبے میں پنپنے کی زیادہ گنجائش نہ ہو تو اُس سے وابستہ ہونے اور محنت کرنے سے کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا اور زندگی رائیگاں سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف ایسے لوگ پائے جارہے ہیں جو سوچے سمجھے بغیر کسی شعبے سے وابستہ ہوئے اور اب اُس شعبے کو جھیل رہے ہیں۔ بعض کا معاملہ اِس کے برعکس بھی ہے۔ کچھ لوگ جب سوچے سمجھے بغیر کسی شعبے میں قدم رکھتے ہیں تو اُس شعبے پر بوجھ بن جاتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں کیریئر کونسلنگ عام ہے۔ لوگ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے کیریئر کاؤنسلرز سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ رجحان اور صلاحیت و سکت سے مطابقت رکھنے والے شعبے کا انتخاب ممکن بنایا جاسکے۔ اس حوالے سے اساتذہ بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین کی تھوڑی سی توجہ بھی بچوں کو کیریئر کے حوالے سے مستحکم سوچ اپنانے کی تحریک دیتی ہے۔ کیریئر چونکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے اس لیے پہلے مرحلے میں اپنے آپ کو پہچاننے پر بھرپور توجہ دینا لازم ہے۔ اس کے بعد پوری سنجیدگی کے ساتھ کچھ کرنے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔