شدید بے آرامی میں کیا ہوتا ہے؟ انسان کو بہت سی ایسی باتوں کا علم شدید بے آرامی کی حالت میں ہوتا ہے جن کا اُسے عمومی سطح پر آسانی سے اندازہ نہیں ہوتا۔ بے آرامی انسان کو بتاتی ہے کہ خامیاں اور خرابیاں کہاں کہاں واقع ہوئی ہیں۔ اور یہ بھی کہ اُنہیں بروقت کس طور دور کیا جاسکتا ہے۔ جب انسان کسی بھی حوالے سے تکلیف میں ہوتا ہے تب پہلے مرحلے میں وہ شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتا ہے اور سوچنے یا سمجھنے کے بجائے محض جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کرنے کو اپنے مسئلے کا حل سمجھ بیٹھتا ہے۔ جب ذہن کچھ ٹھکانے پر آتا ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے قدم پر جو کچھ سوچا تھا وہ تو بالکل غلط تھا۔ یہ تو ہوا بے آرامی کا معاملہ۔ اور آرام؟ بہت کم لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ آرام تو جھوٹا ہوتا ہے۔ وہ سچ بولتا ہی نہیں۔ جب انسان کو تھوڑا بہت آرام ملتا ہے تو اُسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ کہیں بھی کچھ بھی غلط نہیں‘ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے جبکہ ایسا ہوتا نہیں۔ خامیاں بھی ہوتی ہیں اور خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں مگر جب ہم آرام کی حالت میں ہیں تب ذہن اُس طرف جاتا ہی نہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آرام ہم سے جھوٹ بول رہا ہوتا ہے! وہ تواتر سے بتاتا رہتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آرام کہتا ہے کہ ساری باتیں بھول جاؤ، بس موجودہ کیفیت کا مزہ لو۔ آرام کا موقع میسر آتے ہی انسان بھول جاتا ہے کہ اُس نے تکلیف بھی اٹھائی ہے اور یہ کہ تکلیف مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی بلکہ برقرار ہے۔ ہاں‘ کچھ دیر کے لیے تکلیف سے الگ ہونے کا موقع ضرور مل جاتا ہے۔ یہ موقع انسان کو بہت بڑی جاگیر جیسا دکھائی دیتا ہے۔ وہ تھوڑا سا سکون پاکر ماحول اور اس میں پائی جانے والی الجھنوں سے یکسر بے نیاز ہوکر اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا میں جانے دیتا ہے۔ اُس دنیا میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں کون ہے جو زمینی حقیقت کے بارے میں زیادہ سوچے اور سوچ سوچ کر ہلکان ہو!
کسی بھی قوم نے کبھی سکون کی حالت میں ترقی نہیں کی۔ ترقی کا راستہ صرف اور صرف مشکلات اور پریشانیوں کے جنگل سے ہوکر گزرتا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ کامیابی، ترقی اور خوش حالی تک پہنچنے کے لیے اُسے الجھنوں سے نمٹنا ہی پڑتا ہے، پریشانیوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم یا معاشرہ اُسی وقت بھرپور ترقی اور خوش حالی ممکن بناسکا جب اُس نے زندگی کی پیدا کردہ مشکلات کو اپنے پختہ عزم اور بھرپور جاں فشانی کے ذریعے شکست دی۔ یہ مرحلہ یونہی، محض باتوں سے طے نہیں ہو جاتا بلکہ اِس کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں جن معاشروں نے غیر معمولی ترقی کی اُنہوں نے صدیوں تک بہت کچھ سہا، اپنے آپ کو مختلف محاذوں پر منوایا، علم و حکمت اور مختلف فنون کے ساتھ ساتھ میدانِ جنگ میں بہت سے معرکے جیتے۔ آج یورپ کی بیشتر اقوام قابلِ رشک ترقی سے ہم کنار ہیں۔ اُنہوں نے کم و بیش تین صدیوں سے خود کو عصری علوم و فنون کے حوالے سے صفِ اول میں رکھا ہے بلکہ وہ جہاں بان و جہاں دار رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے نہیں مل گیا۔ یورپی اقوام نے اَنتھک محنت سے جو کچھ پایا ہے اُسے برقرار رکھنے پر زیادہ محنت کرنا پڑی ہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ بھرپور کامیابی، ترقی اور خوش حالی ممکن بنانے کے ساتھ وہ آرام سے ایک طرف بیٹھ گئیں بلکہ اُنہوں نے ثابت کیا کہ کسی بھی شعبے میں ملنے والی بھرپور کامیابی برقرار رکھنے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس معاملے میں کسی بھی قوم، نسل یا معاشرے کو استثنا حاصل نہیں۔ بھرپور ترقی اور خوش حالی یقینی بنانے کے لیے آپ کو بھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جب کسی اور کو استثنا حاصل نہیں تو پھر آپ کو کیونکر استثنا مل سکتا ہے!
ہر دور کے انسان کو بہت سی دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔ آج کا انسان یہ سوچتا ہے کہ الجھنیں صرف اُس کے حصے میں آئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ جب بظاہر بہت سکون تھا تب بھی در حقیقت زیادہ سکون نہ تھا۔ ڈھائی‘ تین ہزار سال کے ارتقائی سفر میں انسان نے بہت کچھ سہا ہے۔ جب زندگی کو آسان بنانے والی اشیا ایجاد یا دریافت نہیں ہوئی تھیں تب زندگی سادہ ضرور تھی؛ تاہم جنگیں جاری رہتی تھیں، ملکوں پر قبضہ کرکے لوگوں کو غلام بنالیا جاتا تھا۔ غلاموں کی خرید و فروخت عام تھی۔ پوری کی پوری نسلیں غلامی کی نذر ہو جاتی تھیں۔ امریکہ میں غلامی پونے دو سو سال پہلے تک باقی تھی۔ جن ممالک میں بظاہر سکون تھا وہاں بھی در حقیقت بہت سی الجھنیں تھیں اور اُن الجھنوں سے نجات پانا آسان نہ تھا۔ صدیاں گزر جاتی تھیں اور معاشرے تبدیل نہیں ہوتے تھے۔ تب زندگی آسان بھی تھی اور دشوار بھی۔ آسان اُن کے لیے تھی جو کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے اور دشوار اُن کے لیے جو بہت کچھ کرنے کے متمنی تھے اور کام آسان بنانے والی اشیا و خدمات ناپید تھیں۔ کسی سے ملنا ایک بڑا دردِ سر تھا۔ کہیں سے کچھ منگوانا بھی آسان نہ تھا۔ آج ہم کہیں بھی بہت آسانی سے جاسکتے ہیں اور کہیں سے کچھ بھی منگوا سکتے ہیں۔ جو لوگ زندگی کی دشواریوں کا رونا روتے رہتے ہیں وہ ذرا سوچیں تو سہی کہ چار پانچ سو سال قبل پیدا ہوئے ہوتے تو کیسی زندگی بسر کرنا پڑتی!
بہر کیف‘ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہم جیسا آرام چاہتے ہیں ویسا آرام کبھی ممکن ہی نہیں۔ زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ جتنی محنت ترقی ممکن بنانے کے لیے کرنا پڑتی ہے اُس سے کئی گنا محنت ترقی کو برقرار رکھنے کی خاطر کرنا پڑتی ہے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے انوکھی بات نہیں کیونکہ اِس دنیا کا حساب کتاب اِسی طور چلتا آیا ہے اور اِسی طور چلتا رہے گا۔ کچھ زیادہ پانے اور قابلِ رشک انداز سے جینے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور محنت سے قبل صلاحیت و سکت کے ساتھ ساتھ مہارت بھی یقینی بنانا پڑتی ہے۔ کسی بھی قوم کے عروج و زوال کی داستان پر طائرانہ نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ حقیقی زوال اُس وقت شروع ہوا جب بھرپور ترقی و خوش حالی سے ہم کنار ہونے کے بعد صرف آرام کا سوچ لیا گیا۔ اقبالؔ نے کہا ہے ؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سِناں اول، طاؤس و رباب آخر
عروج پانے کے لیے علم و فن کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے اور تلوار بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ علم و فن کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ ساتھ کشت و خون سے عبارت معرکوں میں بھی فتح یاب ہونا پڑتا ہے۔ جو قوم کچھ کرنے کا سوچتی ہے اُسے طے کرنا پڑتا ہے کہ آرام کرنا ہے یا کام۔ آرام طلبی فطری معاملہ ہے مگر جب کچھ کرنا ہو تو فطرت کے خلاف جانا پڑتا ہے۔ آرام طلب انسان بھی کچھ نہیں کرسکتا اور آرام طلب قوم بھی زوال پذیر ہی رہتی ہے۔ تاریخ کے صفحات اُن اقوام کے قصوں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے تھوڑی سی کامیابی کو بہت سمجھتے ہوئے عیش و آرام کو شعار بنایا اور پھر یوں ہوا کہ جو کچھ اُنہوں نے عشروں کی محنت کے نتیجے میں پایا تھا‘ وہ چند ہی برسوں میں ہاتھ سے جاتا رہا۔
آپ کو بھی طے کرنا ہے کہ زندگی کو صرف آرام سے مزین کرنا ہے یا جہدِ مسلسل سے آراستہ رکھنا ہے۔ آرام کو اولین ترجیح بنائیے گا تو زیادہ دور تک چل نہ پائیے گا کیونکہ آرام انسان کو مشکلات کے چوراہے تک پہنچاکر غائب ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان صرف حواس باختہ ہوسکتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ آرام بھی لازم ہے مگر معقول حد تک۔ یہ معقول حد کوئی اور نہیں‘ آپ خود طے کریں گے۔ مشکلات سے گھبرانا فطری امر ہے مگر اُن سے لڑنا بھی فطری امر ہی ہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا پامردی سے کرنے کی صورت ہی میں ہمارے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ محض آرام طلبی ہمارے معاملات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ آرام جو جھوٹ بولتا ہے اُس سے دور رہنا چاہیے اور بے آرامی جو تلخ سچائیاں بیان کرتی ہیں اُن پر متوجہ ہونا چاہیے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جہدِ مسلسل کی روش سے ہٹ کر سفر نہ کیا جائے۔