وقت کا کام ہے ہمیں آزمائش کے مراحل سے گزارتے رہنا۔ آزمائش نہ ہو تو انسان کو اندازہ ہی نہ ہو پائے کہ اُس کے اندر کتنی صلاحیت، مہارت اور طاقت پنہاں ہے۔ مشکلات سے نمٹنے کا مرحلہ ہی تو طے کرتا ہے کہ دنیا کی نظر میں ہماری قدر و قیمت کیا ہونی چاہیے۔
کیا آزمائش ناگزیر ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم کسی واضح آزمائش سے گزرے بغیر اپنے آپ کو منوالیں؟ ایسا ممکن نہیں! کیونکہ آزمائش ہی سے طے ہوتا ہے کہ ہم کیا کر پائیں گے اور کیا نہیں کر پائیں گے۔ آزمائش ہی طے کرتی ہے کہ ہمارے اندر کس حد تک صلاحیت اور مہارت پائی جاتی ہے اور یہ کہ ہم کسی بھی معاملے میں سکت کے حوالے سے کہاں تک جاسکتے ہیں۔ آزمائش نہ ہو تو انسان بالکل نارمل یعنی لگی بندھی زندگی بسر کرے، اپنے آپ کو منوانے پر مائل نہ ہو اور یوں دنیا کو معلوم ہی نہ ہو پائے کہ اُس میں کتنی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہے۔ اور دنیا کو کیا‘ آزمائش کے مرحلے سے نہ گزرنے پر تو خود متعلقہ فرد کو بھی اپنی صلاحیت و سکت کا درست اندازہ نہیں ہو پاتا۔
کون کیا ہے، کیا کرسکتا ہے، کس حد تک جاسکتا ہے اِس کا اندازہ کسی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہونے ہی پر ہوسکتا ہے۔ بہت سوں کو مصیبت کی گھڑی میں اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں تو صلاحیت و سکت کا خزانہ چھپا ہوا تھا جو اب ظاہر ہوا ہے۔ بعض افراد کو مشکلات یوں سامنے لاتی ہیں کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ بہت سوں کو اپنی صلاحیت، مہارت اور طاقت کا اندازہ اُسی وقت ہو پاتا ہے جب کوئی پریشان کن کیفیت اُن سے دامن گیر ہو اور اُنہیں اپنے وجود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنے کی تحریک دے۔ کسی بھی مشکل کو محض مسئلہ سمجھ لینے سے بات نہیں بنتی۔ جب ہم کسی مشکل کو اپنے لیے ویک اَپ کال کے طور پر لیتے ہیں تبھی بیدار ہو پاتے اور کچھ کر پاتے ہیں۔ ویک اَپ کال یعنی بیدار ہونے کا انتباہ! یہ انتباہ بہت سے مواقع پر ہمیں ملتا رہتا ہے ہم متوجہ نہیں ہوتے۔ جو لوگ متوجہ ہوتے ہیں وہ بیدار ہونے کا صلہ بھی پاتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے کو زندہ رکھنے اور پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اُس کی بنیاد۔ بنیاد مضبوط ہونی چاہیے۔ دنیا بھر میں ایسے معاشرے ہیں جن کی بنیاد اِتنی مضبوط تھی کہ حالات کے سخت تھپیڑوں سے بھی اُن کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور وہ اپنے آپ کو منوانے میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ آزمائش کے ادوار سے ہر معاشرے کو گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر اِس کا انکار تلخ تر نتائج پیدا کرتا ہے۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہی زمینی حقیقت ہے اور ہمیں اُسے تسلیم کرنے میں بخل سے کام لینا چاہیے نہ تاخیر سے۔
تاریخ کا ریکارڈ کھنگال دیکھیے۔ مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کو اِبتلائے شدید سے دوچار ہونا پڑا۔ بعض معاشروں کے لیے تو بقا کا سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ دوسری عالمی عظیم میں اتحادیوں نے مل کر محوری قوتوں کو دُھول چٹانے کی ٹھانی تو جاپان پر امریکہ نے دو ایٹم بم گرادیے۔ اِن دو ایٹم بموں سے اِتنی تباہی پھیلی کہ جاپان نے فوراً ہتھیار ڈال دیے۔ اگر جاپان ایسا نہ کرتا تو اُس کے لیے بقا کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا۔
کیا ہتھیار ڈالنے سے جاپان ختم ہوگیا؟ نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اُس کی بنیاد بہت مضبوط تھی۔ بنیاد مضبوط ہونے سے کیا مراد ہے؟ سیدھی سی بات ہے، جاپان محض طاقتور نہ تھا بلکہ اپنے بل پر طاقتور تھا۔ اُس نے جدید ترین ٹیکنالوجی میں اپنے آپ کو خوب منوایا تھا۔ اُس کی ترقی کا راز یہ تھا کہ وہ عصری علوم و فنون میں اپنی مہارت بڑھانے پر یقین رکھتا تھا اور پوری قوم اپنے آپ کو بلند مقام پر دیکھنے کے عزم سے سرشار تھی۔ جنگ میں شکست کے بعد جاپانیوں نے طے کیا کہ کھوئی ہوئی عظمت بحال کرنی ہے۔ یہ عزم اُن کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ دو ایٹم بموں نے جو تباہی پھیلائی تھی وہ کسی بھی قوم کے حوصلوں کو صدیوں تک کے لیے سرد کرنے کو کافی تھی۔ جاپانی صفر پر کھڑے تھے مگر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ٹھان لی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ محض چند عشروں میں ہی وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے۔
جاپانی ایک زمانے سے جدید علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت کے حامل تھے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ابھرنے اور اپنے آپ کو باقی دنیا سے منوانے کا جذبہ اُن میں غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ دنیا انہیں ایک ایسی قوم کے طور پر یاد رکھے جو کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں اپنے آپ کو منوانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اور پھر دنیا نے انہیں مان بھی لیا بلکہ ماننا ہی پڑا تھا۔ جاپانیوں نے ایک عشرے تک اَنتھک محنت جو کی تھی۔
بنیاد مضبوط نہ ہوتی تو جاپانی دوبارہ ابھر نہیں سکتے تھے اور اگر ابھرتے بھی تو کئی صدیوں کے بعد۔ اور کون جانتا تھا کہ اس دوران دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہوتی۔ اب سوال یہ ہے کہ بنیاد سے کیا مراد ہے۔ بنیاد میں بہت کچھ شامل ہے۔ عصری علوم و فنون بھی، اخلاقی معیار بھی، تہذیبی اقدار بھی، انفرادی و اجتماعی سطح پر پایا جانے والا بھرپور عزم بھی۔ کچھ گزرنے کی لگن بھی۔ حقیقی ترقی اور خوش حالی یقینی بنانے کے لیے مطلوب ایثار پر مائل ہونے کا رجحان بھی۔ اپنی خامیوں کو قبول کرنے کی عادت بھی۔ دوسروں سے بہت کچھ سیکھنے پر آمادگی بھی۔ کسی بھی قوم کی حقیقی بنیاد اِن تمام خوبیوں اور عادتوں سے مل کر بنتی ہے۔ کسی مکان کی بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اُس کا ڈھانچا اُتنا ہی مضبوط ہوگا۔ بنیاد ہی طے کرتی ہے کہ مکان کا ڈھانچا کسی بھی نقصان کو کس حد تک جھیل سکے گا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اقوام کا بھی ہوتا ہے۔ جس طور جاپانیوں نے ایک بہت بڑا جھٹکا خوش دِلی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے دوبارہ اپنے آپ کو مضبوط کیا‘ بالکل اُسی طور کئی دوسری اقوام نے بھی اچھی خاصی تباہی اور بربادی جھیلنے پر بھی خود کو دوبارہ مضبوط بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اور اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اُن کی بنیاد مضبوط تھی۔ عالمِ اسلام میں ترکیہ اِس کی ایک واضح مثال ہے۔ ترکوں نے کئی سخت ادوار کا سامنا کیا ہے مگر چونکہ وہ علوم و فنون اور اخلاقی و تہذیبی اقدار کے معاملے میں بہت مضبوط تھے‘ اس لیے تمام مشکلات کو پچھاڑنے میں کامیاب رہے۔ فی زمانہ ہر قوم کے لیے کسی نہ کسی سطح پر بحران موجود ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی بحرانوں کا سامنا ہے۔ سوال صرف نوعیت کا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے بحرانوں کی نوعیت چونکہ مختلف ہوتی ہے اس لیے ہم اُنہیں ڈھنگ سے سمجھنے میں بالعموم ناکام رہتے ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں کا معاملہ بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ اُنہیں بھی قدم قدم پر الجھنوں کا سامنا ہے۔ پس ماندہ معاشروں کا حال نہ ہی پوچھا جائے تو اچھا ہے۔ اِن معاشروں میں صلاحیت بچی ہے نہ سکت۔ یہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی اہلیت کھوچکے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اِن کی بنیاد انتہائی کمزور ہے۔ پس ماندہ معاشرے پڑھنے لکھنے پر خاطر خواہ توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ جدید فنون سیکھنے پر بھی اِن کی توجہ برائے نام ہے۔ کسی بھی معاشرے کو جس خوش دِلی کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے وہ اِن معاشروں میں مفقود ہے۔
انفرادی اور اجتماعی‘ ہر دو طرح کے معاملات میں بنیاد مضبوط کرنے پر بھرپور توجہ دی جانی چاہیے۔ غریب و پس ماندہ گھرانے اُسی وقت ابھر پاتے ہیں جب وہ اپنی اولاد کی بنیاد مضبوط کرتے ہیں، اُنہیں عصری علوم و فنون سے آراستہ کرتے ہیں۔ محض علوم و فنون سے آراستہ کردینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ اُنہیں علم کے ساتھ ساتھ حِلم بھی سکھانا پڑتا ہے۔ سمجھانا پڑتا ہے کہ جھوٹی اَنا کو اپنی راہ کی دیوار نہ بننے دینا، ہمیشہ سر جھکاکر کام کرنا، حقیقت پسندی سے کام لیتے رہنا، مل کر کام کرنے پر توجہ دینا، دوسروں کی مہارت اور محنت کی قدر کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں سے شفقت کا سلوک روا رکھنا، کسی کے کام کو کمتر اور اپنے کام کو برتر نہ گرداننا، کسی بھی مرحلے پر سیکھنے سے گریز نہ کرنا، سکھانے میں بخل سے کام نہ لینا۔ یہ ہوتی ہے بنیاد۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ بنیاد کی نوعیت ہی ہماری حتمی منزل کا تعین کرتی ہے۔