"MIK" (space) message & send to 7575

مکمل زوال کی نمایاں ترین علامت

معاشروں کو عروج بھی عطا کیا جاتا ہے اور اُن پر زوال بھی آتا ہے۔ عروج اپنی کوششوں سے ہوتا ہے اور زوال بھی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ قدرت کا قانون یہی ہے کہ جس کی جیسی نیت ہو‘ اُسے اُسی کے مطابق نوازا جائے گا۔ یہ قانون ہر عہد میں رُو بہ عمل رہا ہے۔
کسی بھی معاشرے کو عروج کس بنیاد پر ملتا ہے؟ علم و فن کی بنیاد پر! اس کے ساتھ ساتھ نیت کا اخلاص بھی ناگزیر ہے۔ اگر کوئی معاشرہ دوسروں کو دبوچ کر اپنا پیٹ بھرنے کی روش پر گامزن ہوتا ہے تو اُسے ملنے والا عروج حتمی نوعیت کا نہیں ہوتا۔ دوسروں کی قبروں پر تعمیر کیا جانے والا محل کسی بھی اعتبار سے وقیع نہیں ہوسکتا۔ قدرت کے نزدیک اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر عہد میں وہی معاشرے محترم ٹھہرے ہیں جنہوں نے اپنی ترقی کا پیڑ کسی کے تنزل کی زمین میں نہیں لگایا۔ اپنی ترقی کے لیے کسی کو پس ماندہ رکھنا غیرت کا تقاضا نہیں ہوسکتا۔ ایسے تقاضے خالص غیر روحانی اقدار ہی کے ہوسکتے ہیں۔ معاشرے اُسی وقت پھلتے پھولتے ہیں جب اُنہیں پروان چڑھانے والوں کی نیت میں اخلاص کا تناسب واضح ہوتا ہے اور وہ کسی کا بُرا نہیں چاہتے۔ مسلم معاشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی فلاحی ریاستیں بھی تشکیل دی جاتی رہی ہیں اور دُنیا نے اُنہیں اُصولوں کی حیثیت سے اپنانے میں بھی کبھی تساہل برتا ہے نہ بخل۔ یورپ کے معاشروں نے بھی مسلم معاشروں سے بہت سے مثبت اثرات قبول کیے۔ آج دنیا بھر میں مسلم معاشرے کمزوری کا شکار ہیں۔ اُن پر باہر ہی سے نہیں بلکہ اندر سے بھی تنقید ہو رہی ہے۔ مسلم معاشروں میں ایسے عناصر بھی ہیں جو ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھنے کے عادی ہیں اور اُس سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ہر معاملے میں اپنے معاشرے کو لتاڑتے اور کوستے رہتے ہیں۔ یہ بات کسی کو یاد نہیں کہ ابھی ڈیڑھ سو برس پہلے تک نہ صرف یورپ کے بیشتر معاشرے بلکہ خود امریکہ بھی شدید پسماندگی اور مادّی و اخلاقی بُرائیوں میں لتھڑے ہوئے تھے۔ سو‘ سوا سو سال پہلے کی نیو یارک کی تصویریں دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ آج دنیا کے لیے مثال بنا ہوا یہ شہر ہمارے لیاری جیسے علاقوں سے بھی بدتر تھا۔ خرابیاں تمام ہی معاشروں میں پیدا ہوتی اور ختم ہوتی ہیں۔ یہ چکر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ قدرت کی طرف سے کبھی کسی کو عروج عطا ہوتا ہے اور کبھی زوال۔ کسی بھی زوال پذیر معاشرے کو خرابیوں کی طرف بڑھنے سے روکنے میں بہت سوں کو کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر تو یہ کردار سبھی کا ہونا چاہیے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عام آدمی معاشرے کی بہتری میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اُس کو تو ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
والا معاملہ روز درپیش ہوتا ہے۔ پیٹ بھرنے کی تگ و دَو سے فرصت ملے تو وہ کچھ کر پائے۔ معاشروں کو بگاڑ سے بچانے میں نمایاں ترین کردار اہلِ ثروت، اہلِ علم اور اہلِ فن کا ہوتا ہے۔ اہلِ علم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مذہب کی تعلیمات کو عام کرنے کے پابند ہیں یعنی علمائے کرام۔ اِنہیں آپ اہلِ اخلاق و اقدار بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اہلِ علم و فن کا بنیادی کام عصری علوم و فنون کے حوالے سے شعور بیدار رکھنا ہے تاکہ معاشرے کو معیاری افرادی قوت میسر رہے۔ مذہبی پیشواؤں، علمائے کرام یعنی اہلِ اخلاق و اقدار کو لوگوں کے اخلاق درست رکھنے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ اساتذہ، شعرا، مصنفین، مترجمین اور مقررین سمیت تمام اہلِ دانش کا فرض ہے کہ معاشرے کو راہِ راست پر لانے یا راہِ راست پر گامزن رکھنے میں اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کریں۔ معاشرے میں یہ واحد طبقہ ہے جو مالی منفعت کی عمومی سوچ ترک کرے تو کچھ ہو پاتا ہے۔ اہلِ ثروت غریبوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں مگر اہلِ دانش اُن کی اخلاقی اور روحانی کمزوریوں کو دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
زوال پذیر معاشروں میں اہلِ دانش ہی امید کی آخری کرن ہوتے ہیں۔ جب تک اُنہیں اپنا کردار یاد رہتا ہے تب تک معاشرہ کسی نہ کسی طور خرابیوں اور بُرائیوں سے نجات پانے کی تگ و دَو کرتا رہتا ہے۔ زوال پذیر معاشروں میں اہلِ دانش سب سے آخر میں کرپٹ ہوتے ہیں۔ اُن میں مادّہ پرستی اور اخلاقی خرابیاں سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہیں۔ دانش کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ انسان عمومی سطح سے بلند ہوکر سوچے، اپنے آپ کو اُن کے لیے وقف کرے جو سوچنے کی صلاحیت یا تو رکھتے نہیں یا پھر یہ سطح اُن میں بالکل عمومی نوعیت کی ہوتی ہے۔ ایسے میں وہی لوگ کچھ کرسکتے ہیں جو واقعی کچھ کر سکتے ہیں۔ کیا ہمارے ہاں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو زوال پذیر معاشروں میں ہوا کرتا ہے؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ یہاں سبھی ایک رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ جنہیں معاشرے کے لیے کچھ کرنا ہے یعنی جن کی واقعی اخلاقی ذمہ داری ہے وہ بھی اپنا کام اور فرض بھول کر بھیڑ میں گم ہو گئے ہیں۔ اہلِ دانش کو تو باقیوں کو راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ اگر وہی بھٹک جائیں تو؟ یہاں یہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ علم و فن کی وقعت یوں بھی نہیں رہی کہ جنہیں اپنے علم و فن سے کوئی روشن مثال قائم کرنی ہے وہ مادّہ پرستی کی راہ پر گامزن ہیں اور زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کی فکر میں غلطاں ہیں۔
پاکستان کا یہ معاملہ پہلے تو نہیں تھا۔ یہاں بیشتر تہذیبی اور اخلاقی اقدار زندہ تھیں۔ لوگ بیشتر معاملات میں تسلیم شدہ اخلاقی اور تہذیبی اقدار کا خیال رکھتے تھے۔ یہ عام آدمی کا معاملہ تھا۔ اہلِ عل و فن اور اہلِ دانش کا معاملہ تو بہت مختلف اور بلند تھا۔ اُنہیں اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس تھا۔ اُن کی بھرپور کوشش ہوتی تھی کہ اُن کی ذات سے معاشرے کو کچھ ملے، بالخصوص نئی نسل کچھ بہتر کرنے کی تحریک پائے۔ اساتذہ کو بھی اپنا فرض اور کردار یاد تھا۔ شعرا، مصنفین اور مقررین اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ اُنہیں معاشرے کے لیے کوئی نمایاں اور قابلِ قدر کردار ادا کرنا ہے۔ معاشرہ اُن کی طرف دیکھا کرتا تھا۔ شعرا کو اندازہ تھا کہ لوگ بہت سے معاملات میں اُن سے خیر کی توقع رکھتے ہیں اس لیے وہ اپنی فکری کاوشوں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح میں حصہ ڈالتے تھے۔ مصنفین بھی معاشرے کو بہت کچھ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اساتذہ کوشش کرتے تھے کہ معاشرے کی بہتری میں اُن کا حصہ بھی کم نہ رہے۔ وہ نئی نسل میں عملی زندگی کے لیے بھرپور اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی بھی دور میں مقابلہ کم نہیں ہوتا۔ نئی نسل کو کچھ کر دکھانے کے لیے، کچھ بننے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ کرنا ہی چاہیے۔ مگر یہ سب کیسے ہو‘ یہ دکھانا، بتانا اور سمجھانا اہلِ دانش کا کام ہے۔ اساتذہ اور والدین کے علاوہ خاندان کے بزرگ اور معاشرے کی شناخت سمجھی جانے والی شخصیات کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوتا تھا۔ جب تک یہ کردار ادا کیا جاتا رہا‘ ہمارا معاشرہ مستحکم رہا۔ جب اہلِ دانش نمایاں طور پر مادیت کا شکار ہو گئے کچھ بھی نہ رہا، کچھ بھی نہ بچا۔
آج ہمارے معاشرے کو پھر اُسی کردار کی ضرورت ہے جس کی بدولت خرابیوں کو روکنا ممکن ہو پاتا ہے۔ خرابیوں اور خامیوں سے پاک تو کوئی بھی معاشرہ نہیں۔ سوال خرابیوں اور خامیوں کو قابلِ قبول حد میں رکھنے کا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی خرابیوں سے بحسن و خوبی نمٹنے کی تیاری ہم سب پر لازم ہے۔ ہر فرد کو معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ جو جہاں ہے وہاں اپنا کردار کسی نہ کسی حد تک تو ادا کر ہی سکتا ہے‘ اور کرنا چاہیے۔ ہاں! جنہیں قدرت نے غیر معمولی صلاحیت و سکت سے نوازا ہے اُن کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ اہلِ ثروت ناداروں کی مادّی ضرورتیں پوری کرنے میں اپنا کردار بطریقِ احسن ادا کرسکتے ہیں۔ اہلِ دانش کو اخلاقی و روحانی سطح پر اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کے مکمل زوال کی نمایاں ترین علامت یہ ہے کہ اہلِ دانش بھی مادّی و مالی آسودگی کے پھیر میں پڑ جائیں۔ اور ہمارے ہاں یہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں