جب تک دم میں دم ہے تب تک آپ کو ایک کام تواتر سے کرنا ہے۔ وہ کام ہے امکانات کی تلاش۔ کسی بھی پیچیدہ صورتحال کو درست کرنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ آپ کو کس نوعیت کے امکان سے کیا مل سکے گا‘ اس کا انتخاب آپ کریں گے۔ امکانات کی تلاش کا مدار بھی آپ پر ہے اور ان میں سے بہترین کا انتخاب بھی کوئی اور نہیں آپ خود کریں گے۔ عظیم موجد تھامس ایڈیسن نے کہا تھا ''جب آپ کے تمام امکانات ختم ہو چکے ہوں تب اتنا یاد رکھیے کہ امکانات ختم ہوئے ہیں‘ آپ نہیں‘‘۔ جی ہاں‘ یاد رکھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تب تک کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسی بھی طرح کی صورتحال میں امکانات صرف اس وقت ختم ہوتے ہیں جب انسان اس دنیا کو خیرباد کہہ چکا ہوتا ہے۔
عمومی سطح پر ہم جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں‘ اس کے حل کے بارے میں خاصے محدود مائنڈ فریم میں رہتے ہوئے سوچ رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی صورتحال سے کماحقہُ نپٹنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن کو بھرپور قوت کے ساتھ بروئے کار لانے کے لیے تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔ روزمرہ معاملات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملے کے کئی رخ ہوتے ہیں اور ہم کسی بھی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ اب یومیہ بنیاد پر کھانے پینے کا معاملہ ہی لیجئے۔ آج ہمارے ہاں بیشتر گھروں میں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ روزانہ کچھ نہ کچھ پکایا جائے گا تب ہی پیٹ کی آگ بجھے گی۔ تھوڑی سی توجہ سے ہم یہ بات سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں کہ روزانہ کھانا پکانا لازم نہیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن گوشت پکانا بھی لازم نہیں۔ موسم کی مناسبت سے کچھ ایسی چیز بھی تیار کرکے کھائی جا سکتی ہے جسے پکانا نہ پڑے۔ اگر ہم اپنے پڑوس کے ممالک کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ وہاں لوگ عام طور پر سادہ خوراک پسند کرتے ہیں اور چٹنی‘ اچار‘ دہی‘ پُھلکی وغیرہ جیسے آئٹم تیار کرکے بھی پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ چند ایک سبزیاں کچی ہی کھائی جا سکتی ہیں جن میں پیاز‘ ٹماٹر‘ گاجر‘ مولی اور شلجم وغیرہ نمایاں ہیں۔ ایسی چند سبزیوں کا سلاد بناکر بھی سالن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یوں ہم یومیہ بنیاد پر سالن تیار کرنے کی زحمت سے بھی بچ سکتے ہیں اور صحت بھی درست رہ سکتی ہے۔
بات اتنی سی ہے کہ کسی بھی مسئلے کے کئی حل ممکن ہوتے ہیں۔ سوال امکانات کے بارے میں سوچنے اور بہترین امکان کو تلاش کرکے اپنی مشکل آسان کرنے کا ہے۔ کہیں جانا ہو تو ذاتی سواری پر بھی جایا جا سکتا ہے اور بس یا کسی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے بھی۔ محض پچاس یا سو روپے میں بھی سفر ممکن ہے اور ہزار پندرہ سو روپے میں بڑی ٹیکسی کرکے بھی۔ اگر ذرا سی زحمت برداشت کرکے بس میں سفر کیا جائے تو معقول رقم بچائی جا سکتی ہے۔ جو لوگ اس حوالے سے عملی سوچ رکھتے ہیں وہ فائدے میں رہتے ہیں۔ امکانات کی تلاش ہمہ وقت جاری رہنی چاہیے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کے پاس وسائل محدود ہیں اور مسائل لامحدود۔ مسائل کو حل کرنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ہی معاملے کو درست کرنے کی طرف لے جانے والے کئی راستے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہی ہیں۔ ہم چاہیں تو کوئی ایسا راستہ بھی چن سکتے ہیں جو ہم سے زیادہ وصولی کرے۔ تھوڑی سی توجہ سے اسی معاملے کو درست کرنے کا نسبتاً کم خرچ طریقہ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ کسی سے مشاورت بھی کی جا سکتی ہے اور مدد بھی لی جا سکتی ہے۔ اگر کسی مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کسی سے مدد لیتے وقت اس کی جیب سے کچھ نہ جارہا ہو تو مدد لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ اور ایسے معاملات میں مدد کرنے والے کو بھی فراغ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ زندگی کا کاروبار اسی طور یعنی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر جاری رہتا ہے۔
ڈھنگ سے جینے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک آسان اور عام ترین صورت یہ ہے کہ انسان کسی بھی سطح کی پریشانی کو دیکھے اور الجھن محسوس کرے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ روزمرہ مسائل اور الجھنوں کو بھی زندگی میں بڑا بگاڑ پیدا کرنے والی مصیبت کے درجے میں رکھتے ہیں۔ معمولی بخار اور کسی ہلاکت خیز بیماری میں بہت فرق ہے۔ موسمی بخار یا ایسی ہی کسی اور معمولی پیچیدگی کو جی کا روگ سمجھنے کی ذہنیت سمجھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ مصیبت یہ ہے کہ بالعموم ایسا ہوتا نہیں۔ عام آدمی بات بات پر پریشان ہو اٹھتا ہے۔ جب بھی کوئی کام آن پڑتا ہے تو وہ اسے اپنے لیے امتحان کے درجے میں رکھتا ہے۔ یہ سوچ سراسر بے بنیاد ہے۔ زندگی جیسی نعمت اس لیے عطا نہیں کی گئی کہ اسے محض پریشانی میں مبتلا ہونے کی نذر کردیا جائے۔ محض پریشان ہونا اور الجھن محسوس کرنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ اگر ایسا کرنے سے مسائل حل کیے جا سکتے تو آج بھری دنیا میں کہیں کوئی مسئلہ پایا ہی نہ جاتا۔
زندگی محض پریشان ہوکر‘ گھبرائے ہوئے پرندوں کی طرح پر سمیٹ کر نہیں گزاری جا سکتی۔ یہ زندگی جیسی نعمت کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ نے ہمارے لیے اس دنیا کو دارالمحن بنایا ہے۔ یہاں امتحان بھی ہے اور الجھنیں بھی۔ ان دونوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جینا ہے اور ایسا کرنے ہی میں جینے کا مزا ہے۔ انسان کسی بھی طرح جی سکتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو مسائل کو حل کرنے کے بجائے محض ٹالتے رہتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ گرہ سی پڑگئی ہے کہ محض ٹالتے رہنے سے بھی مسائل حل ہو جاتے ہیں! ایسا کہاں ہوتا ہے؟ جو لوگ مسائل کو محض ٹالتے رہتے ہیں کیا انہیں معلوم نہیں کہ محض ٹالتے رہنے سے مسائل صرف پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں‘ حل ہونے کا نام بھی نہیں لیتے؟ بعض معاملات بچوں کی سمجھ میں آ جاتے ہیں‘ بڑوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ محض خوش فہمی یا غلط فہمی کے دائرے میں گھومتے رہنے سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ بچے اس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ آگ سے نہیں کھیلنا چاہیے مگر بڑوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ یہ ہے اس دنیا کا تماشا۔ مسائل حل کرنے سے اجتناب برتتے رہنا آگ سے کھیلنا ہی تو ہے۔ جو کام بچے نہیں کرتے وہ بڑے کرتے ہیں۔
کسی بھی انسان کے لیے ڈھنگ سے جینے کی معقول ترین صورت یہی ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو بدلے اور ہر مسئلے کے ممکنہ بہترین حل کی تلاش جاری رکھے۔ اس دنیا کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ امکانات کی تلاش کے جاری رکھنے کی بدولت ملا ہے۔ ہر عہد میں چند ایسے نابغے گزرے ہیں جنہوں نے امکانات کی تلاش جاری رکھی اور دنیا کو ایسا بہت کچھ دے گئے جو زندگی کا معیار بلند کرنے اور عمومی سطح پر سکون سے جینے کے لیے ناگزیر اور کافی تھا۔ اگر ہر عہد میں امکانات تلاش نہ کیے گئے ہوتے تو دنیا آج بھی غار کے دور میں ہوتی۔ مختلف زمانوں میں بہت کچھ سوچا گیا‘ امکانات تلاش کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھایا جاتا رہا تب کہیں جاکر معاملات درست ہوتے رہے اور دنیا کو وہ سب کچھ ملتا رہا جو معیاری انداز سے جینے کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔
انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کے معاملات میں امکانات تلاش کرنے کی ذہنیت ہی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ کامیاب وہی رہے ہیں جو کسی بھی صورتحال سے گھبرائے بغیر اُس کا بہترین حل تلاش کرنے پر یقین رکھتے آئے ہیں۔ ہر دور میں امکان پسند ذہنیت ہی دنیا کو راستہ دکھاتی رہی ہے۔ مسائل اور مشکلات سے گھبراکر گوشہ نشینی اختیار کرنے والوں سے دنیا کو کبھی کچھ نہیں ملا۔ کامیاب وہی رہے ہیں جنہوں نے آخری سانس تک مسائل حل کرنے کے بارے میں سوچا ہے۔ وہی اس دنیا کو مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ اور سلیقہ عطا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آج بھی عام آدمی کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ امکانات کی تلاش ہی زندگی ہے اور اسی میں جینے کا مزا بھی ہے۔