جب تک ہم زندہ ہیں تب تک کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔ کیوں کرنا ہے؟ کچھ نہ کچھ پانے کے لیے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کی کوئی نہ کوئی غایت ہوتی ہی ہے۔ ہونی ہی چاہیے! اس کائنات میں کچھ بھی بلا سبب نہیں‘ بلا جواز نہیں۔ ہر معاملہ کسی نہ کسی غایت کو لیے ہوئے ہے۔ یہ پوری کائنات غایت در غایت چلتی آئی ہے اور اِسی طور چلتی رہے گی۔ قصہ مختصر‘ ہم زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اُس کے عوض کچھ نہ کچھ پانا بھی چاہتے ہیں۔ یہ بھی بالکل فطری بات ہے! یہ بات ہماری جبلت میں رکھی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ کرے اُس کا کوئی نہ کوئی صلہ ضرور ملے۔ اگر یہ صلہ پہلے سے طے شدہ یا سوچا ہوا ہو تو نہ ملنے پر بہت دکھ ہوتا ہے۔ اور اگر معاملہ پہلے سے طے شدہ نہ ہو تو انسان کسی بھی شکل میں ملنے والے صِلے سے مطمئن ہو رہتا ہے۔ ہر انسان اپنی محنت کا معاوضہ پانے کے معاملے میں محض حسّاس نہیں بلکہ کبھی کبھی جذباتی بھی ہوتا ہے۔ آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ جو کچھ بھی آپ کریں اُس کا کوئی نہ کوئی معاوضہ ضرور ملے؟ یقینا آپ ایسا ہی چاہتے ہوں گے۔ اور ایسا چاہنے میں کوئی قباحت بھی نہیں۔
کیا یہ لازم ہے کہ ہماری تمام کوششوں کا حاصل صرف زر ہو؟ جو کچھ ہم کرتے ہیں کیا اُس کی غایت صرف اِتنی ہے کہ ہمیں زر یا اُس کے قریب ترین متبادل کی صورت میں کچھ ملے؟ کیا انسان کی تمام مساعی کا مطلوب و مقصود صرف اور صرف زر کا حصول ہے؟ بادی النظر میں ایسا ہی ہے! عمومی سطح پر ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کے عوض زر یا پھر اُس کا نزدیک ترین متبادل چاہتے ہیں۔ یہ سوچ ماحول کی پیدا کردہ ہے۔ ماحول گھر کا ہو یا شہر کا، انسان کو زر پرستی ہی سکھاتا ہے۔ زر پرستی ہماری جبلّت میں ہو نہ ہو‘ مزاج و اطوار میں ضرور ہے۔ بچپن سے بڑھاپے تک انسان کو وہی ماحول میسر رہتا ہے جس میں قدم قدم پر بتایا اور جتایا جاتا ہے کہ کوئی بھی عمل کسی جواز کے بغیر نہیں اور ہر عمل کا جواز بالآخر زر کی چوکھٹ تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔کیوِن کروز نے کیا کام کی بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں ''زندگی جیسی نعمت اس لیے عطا نہیں کی گئی کہ ہم اُسے فضول سرگرمیوں اور لایعنی قسم کی خواہشوں کی نذر کردیں۔ قدرت کا عظیم ترین عطیہ اس لیے نہیں کہ اِسے کمانے کے عمل میں کھپاکر سُکون کا سانس لیا جائے۔ زندگی کمانے سے کہیں زیادہ کوئی نہ کوئی تاثر اور اثر پیدا کرنے کے لیے عطا کی گئی ہے‘‘۔
ہم عمومی سطح پر اس خیال کے حامل رہتے ہیں کہ جو بھی کام ہم سے لیا جائے اُس کے عوض ہمیں کچھ نہ کچھ عطا کیا ہی جانا چاہیے کیونکہ ایسا چاہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر دانش کا تقاضا یہ ہے کہ کچھ بلند ہوکر سوچا جائے۔ عام آدمی جس نہج پر سوچتا ہے اُس سے خاصا بلند ہوکر سوچنے ہی میں عظمت پوشیدہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو زندگی جیسی نعمت اول و آخر صرف اس لیے عطا کی گئی ہے کہ ہم کچھ ایسا کر جائیں جس کی بنیاد پر دنیا کو کچھ ملے۔ اس دنیا کو ہم سے کچھ بھی اُسی وقت مل سکتا ہے جب ہم زر پرستی کا طوق اپنی گردنوں سے اتار پھینکیں اور اللہ کی رضا کے حصول کو مقصود و مطلوب بناکر زندگی بسر کرنے پر مائل ہوں۔ تاریخ کی ورق گردانی کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ آج تک زندہ وہی ہیں جنہوں نے اِس دنیا کو اپنے وجود کے وسیلے سے کچھ دینے کی ذہنیت کے ساتھ زندگی بسر کی اور کبھی کسی بھی سطح پر لاحاصل اور مجرد طمع سے اپنے ذہن کو آلودہ نہیں ہونے دیا۔ تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف کے ساتھ وہی مرقوم ہیں جنہوں نے دنیا کو کچھ دینے کی غرض سے جینے کو ترجیح دی اور جو کچھ بھی کیا وہ محض زر یا ایسے ہی کسی اور صِلے کی خاطر نہیں کیا۔
ہر انسان کو اِس دنیا میں اپنے قیام کے دوران بہت سے کردار ادا کرنا ہوتے ہیں۔ وہ رشتوں میں بھی جکڑا ہوتا ہے اور تعلقات میں بھی۔ اہلِ خانہ کے حوالے سے بھی ذمہ داریاں نبھانا ہوتی ہیں اور ایک اچھے شہری کی حیثیت سے معاشرے کے لیے بھی مفید ثابت ہونا ہوتا ہے۔ ہر کردار انسان سے دلچسپی اور محنت کا طالب ہوتا ہے۔ تاریخ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ جنہوں نے خود کو عمومی نوعیت کے کاموں سے بلند کیا وہی تاریخ کے صفحات میں مرقوم ہیں۔ خالص حیوانی سطح سے بہت بلند ہوکر جینے کی صورت ہی میں انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے کچھ نہ کچھ معنی خیز کر پاتا ہے۔ زندگی حیوانی سطح کے افعال میں کھپ جانے کے لیے نہیں۔ پوری سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں قیام کے دوران اس طور رہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہم کریں اُس کا کوئی نہ کوئی مثبت اثر مرتب ہوتا ہو۔ ہر انسان کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرے اُس کے نتیجے میں دنیا کو کچھ نہ کچھ ضرور ملے۔ یہ سوچ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان ہر معاملے میں صرف زر کے حوالے سے سوچنے سے گریز کرتا ہو۔ زر ہماری ضرورت ہے۔ زندگی بسر کرنے کے لیے زر لازم ہے مگر زندگی کا مقصد محض زر کا حصول نہیں۔ مال و زر، جائیداد اور دیگر املاک زندگی کو آسان تر بنانے کے لیے ہوا کرتی ہیں، زندگی کا مقصد نہیں ہوا کرتیں۔ ہر معاملے میں صرف مال و زر کے حصول کا سوچتے رہنے سے زندگی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ہمارے خالق کی مرضی یہ ہے کہ ہم روئے ارض پر قیام کے دوران کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہیں جس کے ذریعے اِس دنیا کا معیار بلند ہوتا رہے۔
ذرا سوچئے! زندگی جیسی نعمت محض اس لیے تو نہیں ہوسکتی کہ ہم خالص حیوانی سطح پر رہتے ہوئے جئیں۔ حیوانات اس دنیا میں بھیجے جاتے ہیں، طے شدہ معیار یا سطح کے مطابق جیتے ہیں اور پھر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اُن سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا کہ کیسے جیے۔ ہم سے ضرور پوچھا جائے گا کہ زندگی کی شکل میں عطا کی جانے والی نعمت سے کیا کام لیا۔ کسی بھی انسان کے لیے عمومی سطح سے بلند ہوتے ہوئے جینا اس لیے لازم ہے کہ قدرت کی یہی مرضی ہے۔ اِسی طور بامقصد انداز سے جیا جاسکتا ہے۔ قدرت کو یہی مطلوب ہے کہ ہم بامقصد انداز سے جئیں، جو کچھ بھی کریں وہ صرف اس نیت کے ساتھ کریں کہ اِس سے دنیا کا معیار بلند ہو، کچھ نہ کچھ فرق پڑے، کوئی نہ کوئی اثر پیدا ہو۔
ہر انسان کو قدرت نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ باصلاحیت انسان کا دنیا کو کچھ دینے سے گریز کرتے ہوئے جینا گویا اپنے ہی وجود پر ظلم ڈھانا ہے۔ ہمیں کوئی نہ کوئی فرق پیدا کرکے جانا ہے۔ یہ دنیا اِسی صورت ارتقائی عمل سے گزرتی ہے۔ اگر خالص حیوانی سطح پر جینا کافی ہوتا تو انسان آج بھی غار کے زمانے ہی میں ہوتا۔ محض جاگنا، پیٹ بھرنا اور پھر سو جانا زندگی کا معیار اور مقصد ہرگز نہیں ہوسکتا۔ غار کے زمانے کا انسان ایسی ہی طرز کی زندگی بسر کرتا تھا۔
جو لوگ محض کمانے اور خرچ کرنے کے لیے زندہ رہتے ہیں اُن کی زندگی کا باریک بینی اور توجہ سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ جینے کے نام پر محض تماشا کر رہے ہیں یا اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ یہ جینا بھی کوئی جینا ہے کہ انسان صرف مال و زر کے حصول کی خاطر جیے اور مال و زر خرچ کرتے ہوئے دنیا سے چلا جائے۔ اِس طور جینے کی صورت میں دنیا کو ایسا کچھ بھی نہیں دیا جاسکتا جس کی بنیاد پر یاد رکھا جائے۔ لوگ کسی بھی انسان کو اُسی وقت یاد رکھتے ہیں جب وہ خود غرضی کو یکسر ترک کرتے ہوئے دوسروں کے لیے جینے پر متوجہ ہوتا ہے اور دنیا میں کوئی نہ کوئی فرق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔