"MIK" (space) message & send to 7575

’’وائلڈ کارڈ‘‘ کی نفسیات

ہماری اجتماعی نفسی ساخت سے ''اچانک‘‘ کا فیکٹر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہم اچانک کے اِتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب تو اِس کے بغیر جینے کا تصور بھی باقی نہیں رہا۔ زندگی بجائے خود ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں بہت سے ٹوئسٹ ہیں، ڈرامائی موڑ ہیں۔ ہر ڈرامائی موڑ ہمیں تھوڑا سا حیران و پریشان کرکے دم لیتا ہے۔ ہر ڈرامائی موڑ کا ایسا ہی اثر مرتب ہوا کرتا ہے۔
آج کا ہمارا معاشرہ چونکہ بیشتر معاملات میں سمت سے محروم ہے اس لیے اجتماعی مزاج ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے جس میں توازن اور اعتدال کے لیے زیادہ گنجائش رہی نہیں۔ لوگ ایسی تمام عادتیں اپناچکے ہیں جو زندگی کو غیر متوازن رکھتی ہیں اور زندگی کے عملی پہلو پر توجہ مرکوز نہیں ہونے دیتیں۔ ''اچانک‘‘ کے پرستار بہت زیادہ ہیں۔ منصوبہ سازی کو پسند کرنے والی ذہنیت کو یہاں پسند ہی نہیں کیا جاتا اس لیے اِس ذہنیت کو پروان چڑھانے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ آج بھی لوگ کسی بھی سطح کی منصوبہ سازی کے بغیر جینے کے عادی ہیں اور تین چار عشروں پہلے کے ماحول کا جائزہ لیجیے تو تب بھی یہی رجحان پائیں گے۔ ایک زمانے سے یا یوں کہیے کہ شروع ہی سے ہمارے ہاں وائلڈ کارڈ انٹری کا کلچر رہا ہے۔ وائلڈ کارڈ انٹری کی اصطلاح بالعموم کھیلوں میں استعمال ہوتی ہے۔ جب کوئی ٹیم اچانک کسی ایسے کھلاڑی کو متعارف کرائے جس کے بارے میں کسی نے سوچا ہی نہ ہو تو اِسے وائلڈ کارڈ انٹری کہا جاتا ہے۔ وائلڈ کارڈ انٹری کا کلچر کبھی کبھی معاملات کو سلجھاتا ہے اور چند ایک اچھے امکانات بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ بالکل لاٹری جیسا معاملہ ہے۔ جس کی لاٹری نکل آئی ہو اُس کے لیے لاٹری بہت اچھا معاملہ ہے۔
وائلڈ کارڈ انٹری کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ایک نمایاں مثال امجد خان کی ہے۔ ''شعلے‘‘ کے گبّر سنگھ کو بھلا کون نہیں جانتا؟ بالی وُڈ کی کامیاب ترین فلم کا ولن لوگوں کو آج بھی یاد ہے اور اُس کے مکالمے ابھی تک ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ امجد خان نے سٹیج ڈراموں میں کام کیا تھا اور اداکاری کا وصف اُنہیں ''موروثی‘‘ طور پر ملا تھا۔ اُن کے والد جینت اپنے وقت کے بڑے ولن تھے۔ مدھو متی، لیڈر اور سنگھرش میں انہوں نے دلیپ کمار کے ساتھ کام کیا تھا۔ رمیش سِپّی نے امجد خان کو فلم کے مرکزی ولن کے طور پر لیا اور پھر دنیا حیران رہ گئی۔ امجد خان وائلڈ کارڈ انٹری تھے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اُنہیں اچانک سامنے لایا جائے گا اور وہ چھا جائیں گے۔ 1980ء کے عشرے کی ابتدا میں توصیف احمد کو بھی وائلڈ کارڈ انٹری کے طور لایا گیا تھا۔ قومی ٹیم پریکٹس کر رہی تھی۔ توصیف احمد نے بولنگ کی تو جاوید میاں داد اور دیگر سینئر کھلاڑیوں نے بھانپ لیا کہ توصیف احمد کو ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کرنا مخالف ٹیم کو حیران و پریشان کردے گا۔ اور ایسا ہی ہوا! دنیا بھر میں کھیلوں اور شوبز کی دنیا میں وائلڈ کارڈ انٹریز کامیابی سے ہم کنار ہوتی رہی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وائلڈ کارڈ انٹریز کی روایت کو برقرار رکھنے سے معاشرہ کہاں تک جاسکتا ہے؟ اور کیا اس بات کا انتظار درست ہے کہ لوگ محض اپنی لیاقت اور محنت کے ذریعے اچانک ابھر کر آگے آئیں؟
کسی بھی معاشرے میں صلاحیت کی کمی نہیں ہوتی۔ نئی نسل میں صلاحیت ہوتی ہی ہے اور کام کرنے کا جذبہ بھی کم نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں بھی نئی نسل انتہائی ذہین اور پُرجوش ہے۔ ہاں‘ معاملات اِتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ وہ پُرامید نہیں۔ ہمارے نوجوان جب تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزرنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ یہاں کچھ خاص امکانات نہیں تو کسی نہ کسی طور بیرونِ ملک جاکر قسمت آزمانے کا ذہن بناتے ہیں۔ وطن کی محبت اپنی جگہ مگر وہ بھی کیا کریں؟ جب میرٹ کا چلن ہی نہیں رہا اور کم و بیش ہر شعبے میں صرف کرپشن کا کلچر رہ گیا ہے تو غیر معمولی صلاحیت و سکت کا حامل کوئی بھی نوجوان یہاں رہ کر کیا کرے گا؟ ایسا لگتا ہے جیسے طے کرلیا گیا ہے کہ نئی نسل کو معقول تربیت کے ذریعے اور میرٹ کی بنیاد پر کچھ کرنے کا موقع دینے کے بجائے یونہی چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنی محنت سے کسی نہ کسی طور آگے آئے اور اُس سے استفادہ کیا جائے۔ کسی بھی شعبے میں مطلوب اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت کے ذریعے نئی نسل کو آنے والے زمانے کے لیے تیار کرنا جامع معاشی ترقی و خوش حالی کے لیے ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ یہ سوچ ہمارے ہاں پروان چڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ معاملات کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں نئی نسل کو غیر معمولی تربیت کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر اس کا معقول انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے نتیجے میں چند ہی نوجوان جیسے تیسے کچھ سیکھ کر اپنے آپ کو بہتر امکانات کے لیے تیار کرتے ہیں۔ مختلف شعبوں میں غیر معمولی اہلیت کے حامل نوجوان اچانک ابھر کر سامنے آتے ہیں اور ہم اِسی سے مطمئن ہو رہتے ہیں۔
کیا کسی معاشرے کی بقا محض وائلڈ کارڈ انٹریز کی مدد سے ممکن بنائی جاسکتی ہے؟ ریاستی اداروں کی سرپرستی کے بغیر، محض اپنی صلاحیت، محنت اور مہارت کی بنیاد پر نئی نسل کب تک اپنے آپ کو بہتر امکانات کے لیے تیار کرتی رہے گی؟ دنیا بھر میں عمومی چلن یہ ہے کہ چھوٹی عمر سے موزوں تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بچوں کو رجحان کے مطابق ہی کچھ سکھایا جاتا ہے۔ خاصی چھوٹی عمر سے اُن کا ذہن کسی بھی خاص شعبے میں کیریئر کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام ترقی یافتہ معاشروں میں نئی نسل کو اپنی سمت کا بہت پہلے اندازہ ہوچکا ہوتا ہے۔ متعلقہ تعلیم و تربیت پاکر وہ اپنے موزوں وقت پر انٹری دیتی ہے اور کچھ نہ کچھ اچھا کرکے دکھاتی ہے۔ وہاں وائلڈ کارڈ انٹری کا کوئی تصور نہیں۔ سب کو ایک خاص طریق کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو ہر شعبے میں معیاری افرادی قوت کی ضرورت رہتی ہے۔ ریٹائر ہونے والے نئے آنے والوں کے لیے راہ چھوڑتے ہیں۔ نئی نسل تیار ہوتی جاتی ہے۔ یہ عمل اگر منصوبہ سازی کے تحت ہو تو ٹھیک‘ رینڈم اصول کے تحت ہو تو سمجھ لیجیے کہ گئی بھینس پانی میں۔ اولاد کو پال پوس کر بڑا کرنا ہی نہیں بلکہ ان کے بہتر مستقبل کی منصوبہ سازی بھی والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اولاد کو بروقت کمانے کے قابل بنانا والدین کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر وہ اس حوالے سے ناکام رہیں تو اولاد تادیر الجھنیں جھیلتی رہتی ہے۔ انتہائی غیر معمولی صلاحیت و سکت رکھنے والے نوجوان کم ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبے میں اکثریت اُن کی ہوتی ہے جو معقول تعلیم و تربیت مکمل کرنے کے بعد میدان میں آتے ہیں۔ اپنے بل پر اچانک ابھر کر سامنے آنے والے خال خال ہی ہوسکتے ہیں۔ ایسے غیر معمولی افراد کسی بھی قوم کے لیے محض سرمایہ نہیں بلکہ سرمایۂ ناز بھی ہوا کرتے ہیں مگر محض اُن کے دم سے قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔
ہمارے معاشرے کا عجیب حال ہے۔ غیر ہنر مند افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ ہنر سیکھنے کے بجائے محض کلرکی یا پھر کم محنت والے کاموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملک میں غیر معمولی نوعیت کی بیروزگاری ہے مگر اس حقیقت پر غور کرنے والے کم ہیں کہ ہنر مند کے لیے بیروزگاری کبھی نہیں ہوتی۔ ہر طرح کے ماحول میں ہنر مند فائدے ہی میں رہتا ہے۔ معمولی نوعیت کے اور آسان کام کرنے والوں کی چونکہ اکثریت ہے اس لیے بیروزگاری بھی بہت زیادہ ہے۔ آج بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب ہیں جو متعدد کام جانتے ہیں۔ وائلڈ کارڈ انٹری ٹائپ معاملات صرف چند لوگوں کے ہوتے ہیں۔ خواب و خیال کی دنیا میں رہنے والوں کے لیے بھرپور معیشت بھی بیروزگاری پیدا کرکے دم لیتی ہے۔ ہمیں رینڈم کا کلیہ ترک کرکے باقاعدگی کے ساتھ جینے کا عادی ہونا ہے۔ اچانک ابھر کر آنے والے چند ایک افراد پورے معاشرے کو سنبھال نہیں سکتے، چلا نہیں سکتے۔ اس کے لیے معیاری و مقبول طریقِ فکر و عمل درکار ہوا کرتا ہے۔ ہر شعبے میں سسٹم کی ضرورت ہے۔ سسٹم کام کرے گا تو معاشرہ بھی چلے گا۔ سسٹم کام نہ کرے تو...؟ اس کے لیے کئی پس ماندہ معاشرے مثال کی صورت میں موجود ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں