کبھی کبھی کچھ لوگ اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں کہے ہوئے محض ایک جملے میں پوری کتاب بیان کردیتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ کوزے میں دریا سمونے کا کام ہو جاتا ہے۔ ایمیزون کے بانی سربراہ جیف بیزوز کہتے ہیں ''ویسے تو بہت کچھ ہے جو ہمارے لیے خطرناک ہے، بہت کچھ ایسا ہے جو قدم قدم پر ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے اور اب اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جو خامی ہمیشہ پس ماندہ رکھتی ہے وہ ہے ارتقا سے بچنا‘ دور رہنا۔ اِس سے زیادہ خطرناک بات نہیں ہوسکتی کہ کوئی اپنے آپ کو پروان چڑھانے سے انکار کردے۔ کم و بیش ہر انسان کو ارتقائی مراحل سے گزرنا ہی چاہیے۔ جب تک یہ خامی دور نہیں کرلی جاتی تب تک بھرپور کامیابی کی راہ ہموار کرنا ممکن نہیں ہو پاتا‘‘۔ دیکھا آپ نے! جیف بیزوز نے ایک ایسی حقیقت چند آسان الفاظ میں بیان کردی جسے ڈھنگ سے بیان کرنے کی خاطر لوگ ضخیم کتابیں لکھتے ہیں۔ جیف بیزوز نے جو کچھ بھی کہا وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا۔ انہوں نے ایک ایسا ادارہ قائم کیا ہے جس نے زندگیاں بدل ڈالی ہیں۔ انہوں نے ایسا بہت کچھ کر دکھایا ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بدلنے کا بھی ذریعہ بنا ہے۔ زندگی قدم قدم پر کچھ نہ کچھ مانگتی ہے۔ زندگی کا تقاضا پورا کرنا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ کچھ نہ کرنے کا آپشن بھی سب کو میسر ہے۔ جو لوگ یہ آپشن اپناتے ہیں اُن کا انجام ہم نے دیکھا ہے۔ اپنے آپ کو نہ بدلنے کا آپشن ہر انسان کے لیے ہے اور اِس آپشن کو گلے لگانے کے نتیجے میں جو تباہی رونما ہوتی ہے وہ بھی ہم سب کے علم میں ہے۔ کسی بھی ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں جو اپنے آپ کو بدل کر بہت کچھ پاتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی کم نہیں جو اپنے آپ کو بدلنے سے گریز کی راہ پر گامزن رہ کر اپنا اور متعلقین کا بیڑا غرق کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔
ارتقا آپشن نہیں، لازمہ ہے۔ اگر کوئی اِسے لازمے کا درجہ نہ دے تو اُس کا نصیب۔ بے عملی سب کے لیے کھلا راستہ ہے۔ ویسے پوری دیانت سے سوچئے تو زندگی بے عملی کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی۔ جنگل سے گزرتے وقت آپ کو اِدھر اُدھر دیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ بہتر ہے کہ گروہ کی شکل میں گزریے تاکہ درندے آپ سے دور رہیں۔ اگر آپ بضد ہوں کہ جنگل سے تنہا گزرنا ہے اور وہ بھی کوئی ہتھیار ساتھ لیے بغیر تو آپ کی مرضی۔ ایسے میں آپ جنگل سے گزرتے وقت کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ پھر تو جو کچھ بھی کرنا ہے درندوں ہی کو کرنا ہے۔ زندگی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمیں جو زندگی بہت پُرکشش دکھائی دیتی ہے وہی زندگی جب اپنا اصل چہرہ دکھاتی ہے تب ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ جس نے زندگی کے تقاضے نبھانے کی بھرپور تیاری نہ کی ہو اُس کے اوسان تو خطا ہونے ہی ہیں۔ جو لوگ زندگی کا حُسن بڑھانے کی تیاری کرتے رہتے ہیں وہی تو کسی بھی مشکل صورتِ حال میں اپنے آپ کو متوازن رویے کا حامل رکھ پاتے ہیں۔ زندگی کیسی ہے؟ کھٹی یا میٹھی؟ ٹھنڈی یا گرم؟ بیزار کن یا پُرکش؟ روشن یا تاریک؟ عرض یہ ہے کہ جناب! زندگی کچھ بھی نہیں‘ یہ بالکل نیوٹرل ہے۔ اِسے کھٹا یا میٹھا، ٹھنڈا یا گرم، بیزار کن یا پُرکشش، روشن یا تاریک ہم بناتے ہیں۔ جب ہم زندگی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے اور عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش نہیں کرتے تب زندگی کا سخت چہرہ اور تلخ پہلو سامنے آتا ہے۔
ہمیں کب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی ساری کشش ہاتھ سے جاتی رہی ہے؟ کب ایسا لگتا ہے کہ زندگی میں اب کچھ رہا ہی نہیں، بچا ہی نہیں؟ ایسا تو بہت سے مواقع پر ہوتا ہے مگر ہم سبب یا اسباب جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیوں؟ کچھ تو تساہل کے باعث اور کچھ لاپروائی کے نتیجے میں۔ بہر کیف‘ پریشان وہی لوگ رہتے ہیں جو ''خطرناک بات‘‘ کا بروقت ادراک نہیں کر پاتے۔ خطرناک بات یعنی ارتقائی عمل سے گزرنے پر متوجہ نہ ہونا یعنی اپنے آپ کو پروان چڑھانے سے گریز کرتے رہنا۔ زندگی ہم سے بار بار کہتی ہے اپنے آپ کو بدلو! اپنے آپ کو بدلنا یعنی پروان چڑھانا۔ پروان چڑھانا یعنی کچھ نیا سیکھنا، مشق کرنا، تجربہ حاصل کرنا، مہارت یقینی بنانا۔ مہارت کے بڑھنے سے انسان بہت کچھ پاتا ہے۔ بہت سا کام بہت کم وقت میں کرنا ممکن ہو پاتا ہے۔ ذہن کو بروئے کار لانے کی صورت میں انسان جسمانی مشقت کا گراف نیچے لانے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ آپ نے بہت سوں کو دیکھا ہوگا کہ کہیں کم محنت کے نتیجے میں زیادہ کماتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ غیر معمولی محنت کے باوجود زیادہ کمانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ کسی بھی دور کا جائزہ لیجیے، کسی بھی معاشرے پر نظر دوڑائیے، کسی بھی قوم کے بارے میں پڑھیے، آپ بالآخر اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ صرف اُنہیں ترقی مل سکی ہے جنہوں نے اپنے کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بدلا ہے۔ اِسی کو ارتقائی عمل کہتے ہیں۔ مرحلہ وار تبدیلی۔ جو معاشرے انقلابی تبدیلیوں پر یقین رکھتے ہیں وہ بالآخر بہت کچھ اُلٹا سیدھا کر بیٹھتے ہیں۔ راتوں رات کسی معاشرے کو تو کیا‘ ایک فرد کو بھی بدلا نہیں جاسکتا۔ جیف بیزوز نے جو حقیقت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو ارتقائی مراحل سے گزرنے پر یقین رکھنا چاہیے۔ بے عملی کی راہ پر گامزن رہ کر بہت سا کام جمع کرلینے کی صورت میں آخرِ کار ایک ساتھ بہت کچھ کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ذمہ داریوں کو ٹالتے رہنا کبھی سُود مند نہیں ہوتا۔ زندگی کے حوالے سے ایک رویہ تو یہ ہے کہ ؎
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھویں میں اُڑاتا چلا گیا
فکر کو دھویں میں اُڑانا یعنی اپنی دھن میں مگن رہنا، موج مستی کی حالت میں رہنا زندگی کے تمام مسائل کا حل نہیں۔ خوش رہنا ہماری ضرورت ہے۔ انسان کو خوش دِلی کے ساتھ جینا چاہیے مگر خوش دِلی اصلی ہونی چاہیے، بناوٹی نہیں۔ جہاں سنجیدگی درکار ہو وہاں سنجیدہ ہی ہونا پڑتا ہے۔ زندگی کا ساتھ نبھانے کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات و مسائل کا رونا روتے رہنے کے بجائے پوری دیانت سے اپنا جائزہ لے، اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات کے لیے تیار کرے، اپنی خامیوں کو دور کرنے پر متوجہ ہو، نئی مہارتیں سیکھے، مشق کا دائرہ وسیع کرے، مشق و مشقت کے ذریعے اپنے آپ کو زیادہ بارآور بنائے۔ زندگی کے بارے میں ہماری عمومی طرزِ فکر و عمل کیا ہونی چاہیے؟ حقیقت پسندانہ۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہو اُس سے مطابقت رکھنے والی سوچ اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ لازم ہے کہ انسان اپنے آپ کو بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق تیار کرے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ہر قوم کو زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا پڑتا ہے، سیکھنا ہی چاہیے۔ جو قوم اپنے آپ کو بدلنے سے انکار کرتی ہے وہ بہت خطرناک بلکہ تباہ کن کام کرتی ہے۔ خطرناک بات صرف یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بدلنے سے انکار کرے۔ اس دنیا میں تبدیلی سے گریز کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ کوئی اگر طے کرلے کہ خود کو بدلے بغیر جیے گا تو اُسے ہم حقیقی معنوں میں زندہ تصور نہیں کرسکتے۔ ہمیں اِس طور جینا ہے کہ زندگی کا حق ادا ہو۔ جو کچھ ہمارے ماحول میں بدل رہا ہو اُس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا ہماری پسند و ناپسند کا معاملہ نہیں بلکہ ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ صرف اُس وقت کامیاب ہوسکا جب اُس نے اپنے آپ کو بدلا۔ بات صرف بدلنے کی نہیں بلکہ بدلتے رہنے کی ہے۔ ارتقا اِسی کا نام ہے کہ انسان اپنے آپ کو مسلسل بدلتا رہے۔ کامیاب کاروباری ادارے کسی مقام پر پہنچ کر رُکتے نہیں بلکہ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ نئی دنیائیں تلاش کرتے ہیں اور پھل پاتے ہیں۔ ارتقائی عمل سے گزرنا ہماری نفسی صحت کیلئے ناگزیر ہے۔ جو لوگ حالات کے مطابق اپنے آپ کو نہیں بدلتے وہ جوہڑ کی شکل اختیار کرتے جاتے ہیں۔ انسان کو دریا بننا ہے۔ بہتا ہوا پانی ہی شاداب رہتا ہے۔