"MIK" (space) message & send to 7575

بے وقوف بنانے کا دھندا

ہر دور کا انسان بیشتر معاملات میں آسانی تلاش کرتا آیا ہے۔ اگر پوری سنجیدگی اور غیر جانب داری سے جائزہ لیجیے تو انسان کی اب تک کی ساری علمی و فنی کاوش صرف اس مقصد کے تحت رہی ہے کہ قدم قدم پر آسانیاں ہوں، زندگی بسر کرنا آسان ہو جائے اور جو کچھ بھی پانا ہے اُس کے لیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ کیا آسانی چاہنا بری بات ہے؟ بری بات تو خیر نہیں مگر اُس کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں وہ خاصے متنازع اور نقصان دہ ہیں۔ صحت کے معاملے میں انسان خطرناک حد تک سادہ لوحی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ چھوٹی موٹی یا معمول کی بیماری کے علاج کے لیے کوئی دیسی ٹوٹکا کیا جائے تو شاید زیادہ تشویش کی بات نہیں مگر یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ جان لیوا مرض سے چھٹکارا پانے کے معاملے میں بھی سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی اور کوشش کی جارہی ہے کہ فٹ پاتھ ہی پر علاج کرالیا جائے۔ لوگ جانتے بھی ہیں کہ سستے یا فوری علاج کے نام پر دھوکا دیا جارہا ہے مگر پھر بھی دھوکا کھانے سے باز نہیں آتے۔
ایسا کیوں ہے؟ کیا صرف لالچ؟ یا ذہن کو بروئے کار لانے سے صاف انکار؟ محض لالچ کی بنیاد پر تو انسان زیادہ دھوکا نہیں کھا سکتا۔ جب معاشرے تباہی کی طرف جارہے ہوتے ہیں تب ذہن ماؤف ہو جاتے ہیں یا شاید ذہنوں کے ماؤف ہو جانے سے ہی معاشرے تباہی کی طرف جاتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دو دھاری تلوار والا معاملہ ہے۔ پہلے یہ ہوتا ہے کہ لوگ ذہن سے کام لینا چھوڑتے ہیں اور معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں‘ پھر یوں ہوتا ہے کہ خرابیوں کو تیزی سے پنپتا ہوا دیکھ کر ذہن ماؤف ہوتے جاتے ہیں۔ لالچ بھی انسان کو دھوکا کھانے پر مائل رکھتی ہے مگر خیر‘ اُس کی ایک حد ہے۔ ذہن کے ماؤف ہو جانے کی صورت میں لالچ ایک طرف رہ جاتی ہے اور انسان کسی جواز کے بغیر بہت سے ایسے کام کرتا ہے جو سراسر حماقت کے درجے میں رکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً آج کل پاکستان میں لوگ گائے کا گوشت چھوڑ کر برائلر یعنی فارمی مرغی کا گوشت 650 روپے فی کلو کے نرخ پر کھارہے ہیں! کوئی لاکھ سمجھائے کہ بھائی! گوشت ہی کھانا ہے تو اس سے کہیں سستی مچھلی کھاؤ، یا پھر بیف کھاؤ مگر کوئی سننے کو تیار نہیں۔
تعلقِ ذہنی، روشن ضمیری، فاصلاتی حرکت، نفسی علاج‘ یہ سب بہت حد تک بے وقوف بنانے کے دھندے ہیں۔ اِنہیں بے وقوف بنانے کا دھندا اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اِن کی مدد سے سادہ لوح افراد کو دھوکا دیا جارہا اور تجوریاں بھری جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے چال باز ہیں جو حالات کے ستائے ہوئے انسانوں کو سستے علاج کے نام پر لوٹ رہے ہیں۔ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک سے بچ جانے والے اِن شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو یہ دعوے کرتے پھرتے ہیں کہ آپریشن کے لیے اوزاروں کی ضرورت ہے نہ دواؤں کی‘ اور بے ہوش کرنا بھی لازم نہیں۔ ''سرّی علوم‘‘ کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُس سے کہیں زیادہ وہ ہے جو دکھائی نہیں دے رہا۔ اُن کے نزدیک زندگی کا روحانی پہلو زیادہ اہم ہے اور بیشتر معاملات پر وہی محیط ہے۔ فلپائن میں ''سائیکک سرجری‘‘ یعنی ذہنی جراحت کے نام سے ایک گروپ کام کر رہا ہے۔ اس گروپ کا دعویٰ ہے کہ ماہرین کوئی بھی دوا یا اوزار استعمال کیے بغیر مریض کا آپریشن کرسکتے ہیں اور اُسے مرض سے نجات دلاسکتے ہیں۔ فلپائن تو چلئے تیسری دنیا کا ملک ہونے کے ناتے ایسی مشق کا متحمل ہوسکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ؟ حد یہ ہے کہ اِن دونوں ترقی یافتہ خطوں میں بھی لاکھوں افراد آج بھی اُن کے ہاتھوں بے وقوف بن رہے ہیں جو نفسی یا روحانی علاج کے نام پر صرف مال بٹور رہے ہیں۔ ہر دور کا انسان کرشمات یا کرامات کا لفظ سنتے ہی کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ ہزار‘ بارہ سو سال کی نہیں بلکہ ڈھائی تین سو سال پہلے کی بھی بات کیجیے تو جس نوعیت کی زندگی رُوئے ارض پر گزاری جاتی تھی اُس کے مقابلے میں آج کی زندگی کو پیش کیجیے تو یہ کسی کرشمے سے کم دکھائی نہیں دے گی۔ تین سو سال پہلے بادشاہوں کو بھی جو سہولتیں میسر نہ تھیں وہ آج عام آدمی کو میسر ہیں۔ اس کے باوجود لوگ اب بھی کرشمات اور چمتکار وغیرہ کے منتظر رہتے ہیں۔ نفسی اور روحانی علاج کے نام پر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے والے آج بھی سادہ لوح انسانوں کو بے وقوف بنارہے ہیں۔ نیو یارک کی بلند و بالا عمارتوں میں کام کرنے اور شاندار علاقوں میں رہنے والے ہوں یا ایمیزون کے گھنے جنگلات میں آباد قبائل کے لوگ‘ سبھی لفظ ''کرشمہ‘‘ سنتے ہی پاگل سے ہو جاتے ہیں، پتا نہیں کیا کیا سوچنے لگتے ہیں۔ آج کی عمومی زندگی بھی سر بہ سر کرشمہ ہے۔ ہمیں جو سہولتیں میسر ہیں وہ زندگی کو اس قدر آسان کیے ہوئے ہیں کہ اِس پر خدا کا شکر ادا نہ کرنا انتہائی کم ظرفی ہے۔ اگر اب بھی کوئی کرشموں کا منتظر رہتا ہے تو اُس کی مرضی اور اُس کا نصیب۔
امریکہ اور یورپ میں آج بھی ایسے ڈھونگی پائے جاتے ہیں جو ارواح کو بلاکر بات کرانے کے نام پر مال بٹور رہے ہیں۔ جو لوگ کسی کے رشتہ داروں کی ارواح کو بلاکر بات کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں وہ خود کو ''میڈیم‘‘ یعنی واسطہ و وسیلہ کہتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک میں کوئی عامل بن کر لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے، کوئی سادھو ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ کوئی مذہب کے نام پر دھوکا دیتا ہے اور کوئی روحانی علاج کے نام پر۔ امریکہ اور یورپ میں یہی دھندا ذرا جدید انداز سے ہوتا ہے۔ وہاں کچھ لوگ ''سوڈو سائنس‘‘ کے نام پر مال بٹورتے پھرتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی، شمع بینی، روشن ضمیری، حسی شدت، ای ایس پی (چھٹی حس) کے نام پر سادہ لوح افراد کو لُوٹنے والے خوب متحرک ہیں۔ کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ محض ذہنی قوت سے کسی کو بھی اپنے بس میں کرسکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سنگ دل محبوب کو قدموں میں لا پھینکنے کا دعویٰ کرنے والے کم نہیں۔ کسی کے بھی خیالات جاننے کا دعویٰ کرنے والے بھی امریکہ و یورپ میں کم نہیں۔ محض آنکھوں اور ذہن کی مدد سے کسی بھی چیز پر اثرات مرتب کرنے کے دعوے دار بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور خاصی نفاست سے اُن کی جیبیں خالی کر ڈالتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی کے فن میں مہارت رکھنے کے دعویداروں کا کہنا ہے کہ وہ کسی کے بھی ذہن میں داخل ہوکر اُسے اپنی بات ماننے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ میں تحقیقی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ نفسی علاج الگ چیز ہے اور ٹیلی پیتھی بالکل الگ معاملہ ہے۔ کلیئر واینس یعنی روشن ضمیری کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کہیں دور کے خطے میں کیا ہوا ہے اِس کے بارے میں کہیں بھی بیٹھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے بھی اپنے آپ کو روحانی امور کے ماہرین میں شمار کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ امریکہ میں پولیس افسران مجرموں کا سراغ لگانے کے سلسلے میں بھی اِن ''بابوں‘‘ سے مدد لیتے پائے گئے ہیں! امریکہ میں یوری گیرین نے دعویٰ کیا کہ وہ ذہن کی طاقت سے چمچ سمیت کوئی بھی چیز موڑ سکتا ہے۔ اُس نے اپنے فن کا مظاہرہ ٹی وی پر بھی کیا۔ لاکھوں افراد اُس کے دیوانے ہوگئے۔ کچھ مدت بعد جیمز رینڈی نے اُس کا بھانڈا پھوڑا۔ اُس نے بتایا کہ یہ سب محض شعبدہ بازی ہے جو کوئی بھی کرسکتا ہے اور وہ (جیمز رینڈی) خود بھی کرسکتا ہے۔ یوری گیرین نے جیمر رینڈی کے خلاف ایک کروڑ ڈالر کا ہرجانے کا دعویٰ کیا مگر ہرجانہ تو کیا ملتا، عدالت نے جیمز رینڈی کو قانونی اخراجات بھی یوری گیرین سے دِلائے!
دنیا بھر میں سادہ لوح افراد کو بے وقوف بنانے کا دھندا جاری ہے۔ پس ماندہ ممالک کی تو بات ہی کیا کی جائے، امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ خطوں میں بھی لوگ دنیا بھر کی شاندار سہولتوں سے ہم کنار ہونے کے باوجود اب تک شعبدہ بازوں کے جھانسے میں آرہے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے بے وقوف بنانے اور بننے کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں