دنیا بھر میں کام کا ماحول تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ لاگت میں کمی کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ ہر آجر لاگت میں زیادہ سے زیادہ کمی کے فراق میں ہے۔ اِس میں بظاہر کوئی قباحت نہیں۔ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ جو کچھ وہ خرچ کر رہا ہے اُس کا بہترین ممکنہ متبادل ملے۔ آج کا آجر بہت سے پوشیدہ یا ضمنی نوعیت کے اخراجات سے بچنا چاہتا ہے۔ کاروباری ماحول میں واضح اخراجات سے ہٹ کر بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بڑے صنعتی اور تجارتی اداروں میں ایسے شعبے دن رات کام کرتے ہیں جن کا بنیادی کام یا مقصد لاگت میں زیادہ سے زیادہ کمی یقینی بنانا ہوتا ہے۔ یہ شعبے تحقیق کی روشنی میں ایسی تجاویز پیش کرتے ہیں جن پر عمل کی صورت میں لاگت گھٹتی ہے اور منافع کی شرح بلند ہوتی ہے۔ بیشتر آجر ایسے طریقے اختیار کرنا چاہتے ہیں جن سے اجیروں کو کم سے کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور اُن کے یومیہ اخراجات میں بھی کمی آئے۔ اگر اِتنا بھی ممکن بنایا جائے تو اُن کی کارکردگی کا گراف بلند ہوتا ہے۔ اگر اجرت میں اضافہ ممکن نہ ہو تب بھی آجر اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ اجیروں کو کام کے مقام تک آنے اور گھر واپس جانے کے یومیہ معمول میں کچھ سہولت اور راحت ملے۔ اِس کا ایک حل تو یہ تلاش کیا گیا کہ اوقاتِ کار گھٹائے جائیں تاکہ لوگ کوئی جز وقتی کام کرکے اپنی آمدن میں اضافہ کرسکیں۔ یا اگر ایک جاب بھی کر رہے ہیں تو زیادہ تھکن طاری نہ ہو۔ اب معاملہ اِس سے ایک قدم آگے جاچکا ہے۔
دنیا بھر میں بڑے شہر پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ شہروں کے رقبے اور آبادی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پس ماندہ ممالک میں بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اس کے نتیجے میں سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بڑے شہروں میں ٹریفک جام عام ہے۔ لوگوں کو کام پر جانے اور گھر واپس آنے میں غیر معمولی زحمت کا سامنا رہتا ہے۔ بڑے شہروں میں لوگوں کو کام کے مقام تک پہنچنے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ ایندھن کا خرچ بھی جھیلنا پڑتا ہے اور گاڑی کی دیکھ بھال کا خرچ بھی۔ وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور مفت کی تھکن بھی طاری ہوتی ہے۔ جو لوگ گھر سے بہت دور کام کرتے ہیں وہ گھر واپسی پر سماجی معاملات کے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتے۔ کام پر جانے اور واپس آنے کی تھکن کو اُترنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں بیشتر کا یہ حال ہے کہ کام پر جانے اور واپس آنے میں اَدھ مُوئے سے ہو جاتے ہیں اور یوں اُن کی زندگی کا سماجی پہلو بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سی معاشرتی پیچیدگیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ گھریلو زندگی میں پائی جانے والی ناچاقیوں کا ہے۔ جو شخص دن رات (بحالتِ مجبوری) صرف کمانے کی فکر میں غلطاں ہو وہ اہلِ خانہ یا اعزہ و احباب کے لیے وقت کیونکر نکال سکتا ہے؟
سب سے پہلے مغرب میں آجروں نے کام کے سلسلے میں یومیہ سفر کے حوالے سے درپیش الجھنوں سے نجات کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ وہاں بیس برس قبل ''ٹیلی کمیوٹنگ‘‘ کا تصور پیش کیا گیا۔ ٹیلی کمیوٹنگ یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ممکن بنائی جانے والی پیش رفت کی بنیاد پر گھر بیٹھے کام کرنے کا طریق۔ جو بڑے ادارے تمام یا بیشتر ملازمین کو گھر بٹھاکر کام لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے اُنہوں نے شہر بھر میں چھوٹے پوائنٹس قائم کردیے تاکہ لوگ گھر سے نزدیک ترین مقام پر آکر کام کریں۔ اِس صورت میں ملازمین کی تھوڑی بہت اشک شُوئی ہو جاتی تھی۔ جب آئی ٹی سیکٹر زیادہ پروان نہیں چڑھا تھا تب آجر ٹیلی کمیوٹنگ کے حوالے سے زیادہ پُرجوش نہیں تھے مگر اب یہ معاملہ بہت آگے جاچکا ہے۔ آج دنیا بھر میں آجر اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ افرادی قوت گھر بیٹھے کام کرے۔ ایسا کرنے سے ایک طرف تو دفتری اخراجات میں کمی واقع ہوتی ہے اور دوسری طرف دفاتر چھوٹے رکھنا بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ دفاتر کا حجم کم ہو تو اُن کا کرایہ بھی کم ہوتا ہے اور متعلقہ اخراجات کا گراف نیچے لانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگ مل بیٹھ کر کام کرتے ہیں وہاں اچھا خاصا وقت گپ شپ میں ضائع ہوتا ہے اور یوں کام کا معیار گرتا ہے۔ گھر بیٹھ کر کام کرنے والوں کے کام کا معیار بلند دیکھا گیا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں لوگ کام پر جانے اور گھر واپس آنے کے معمول پر اچھا خاصا خرچ بھی کرتے ہیں، وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور تھکن بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی دو ملازمتیں کر رہا ہو تو کسی اور کے لیے تو کیا‘ اُس کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں ہوتا۔ یہی حال لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں رہنے والوں کا بھی ہے۔ اُن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ محض معاشی تگ و دَو کی نذر ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیلی کمیوٹنگ یا ورک فرام ہوم کا تصور اب تک ڈھنگ سے پروان نہیں چڑھ سکا۔ آجر اب تک اس حوالے سے حساس ہیں نہ باشعور۔ اُنہیں اس حوالے سے جامع طریقے سے سمجھایا بھی نہیں گیا۔ جہاں جہاں گنجائش ہے وہاں عملے کو گھر بٹھاکر اُس کے لیے بہتر کارکردگی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ دفاتر کے بہت سے کام گھر بیٹھے بھی ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہی ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران یہ مشق کی گئی تھی۔ تب آجروں کو بہت کچھ سیکھ لینا چاہیے تھا۔ کورونا کی وبا آجروں کو ''نیو نارمل‘‘ کے لیے تیار کرنے کا ایک اچھا موقع ثابت ہوسکتی تھی۔ ہمارے ہاں یہ موقع ضائع کردیا گیا۔
پاکستان جیسے ممالک میں ایک بڑی نفسیاتی الجھن یہ ہے کہ بیشتر آجر چاہتے ہیں کہ اُن کے سامنے یا ساتھ بیٹھ کر کام کیا جائے۔ جو کام کمپیوٹرز یا دیگر آلات کے ذریعے گھر بیٹھے ہوسکتے ہیں اُن کے لیے لوگوں کو دفتر بلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کسی دفتر میں 50 افراد پر مشتمل عملہ ہے تو انتہائی ناگزیر نوعیت کے چار یا پانچ افراد کو بلاکر باقی لوگوں کو گھر بٹھایا جاسکتا ہے۔ ہاں‘ گھر سے کام کرنے کی صورت میں وقت اور توانائی کی جو بچت ہوگی اُس کے عوض زیادہ اور بہتر کارکردگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے کے طور طریقے بدلے جائیں، پیداواری صلاحیت بڑھائی جائے، لوگوں کو کام کا ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اُنہیں زیادہ کام کرنے کی تحریک دے، سہولتوں میں اضافہ ممکن نہ ہو تو پریشانی کم کی جائے۔ اِسے بھی سہولت میں اضافہ ہی سمجھا جائے گا۔ بڑے شہروں میں لوگ یومیہ بنیاد پر کیے جانے والے معاشی سفر کے ہاتھوں زندگی کے ایک معتدبہ حصے سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ اُن کی جیب پر بھی اچھا خاصا بوجھ پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ توانائی بھی ضائع ہوتی ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر انسان کو زیادہ سے زیادہ بیزاری اور یکسانیت کی طرف دھکیلتے جاتے ہیں۔ کاروباری برادری کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے۔ ایسی حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے کام کرنے والوں کے لیے کسی بھی حوالے سے پیدا ہونے والی کوفت کا گراف برائے نام بلند ہو۔ بڑے شہر محنت کشوں کو کھارہے ہیں۔ انسان معاشی جدوجہد کے سلسلے میں یومیہ سفر کے ہاتھوں اپنے آپ کو ضائع ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے اور کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ساری معاشی سرگرمیاں گھر بیٹھے انجام نہیں دی جاسکتیں مگر خیر‘ جو کچھ گھر بیٹھ کر کیا جاسکتا ہے وہ تو کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی آجر کے لیے یہ تصور انتہائی دل کش ہے کیونکہ لاگت میں کمی کی گنجائش تو بہرحال پیدا ہوتی ہے۔ سوال صرف دفاتر کا بھی نہیں، بہت سے دوسرے عمومی کام بھی گھر بیٹھ کر کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کوئی بڑی ٹیلرنگ شاپ آٹھ دس کاری گروں کو گھر بٹھاکر کام کرائے تو یہ زیادہ سہولت کی بات ہے۔ آج کل کراچی میں اس حوالے سے نیا ٹرینڈ پایا جارہا ہے۔ بہت سے چھوٹے ہوٹل تمام کھانے خود تیار کرنے کے بجائے خواتینِ خانہ سے تیار کراتے ہیں اور معقول معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ ایسے ہی دوسرے بہت سے کام بھی متعلقہ کاری گروں سے اُن کے گھروں میں کرائے جاسکتے ہیں۔