"MIK" (space) message & send to 7575

بائیکاٹ سے ایک قدم آگے

مہنگائی اِس قدر ہے کہ عام آدمی کو ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع بھی نہیں مل رہا۔ روپے کی قوتِ خرید روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی کا زور تو خیر دنیا بھر میں ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ نظم تو دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے عوام بھی روز افزوں مہنگائی سے پریشان ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے لوگ بھی مہنگائی کی مار سے بچے ہوئے نہیں ہیں مگر وہاں کی اور یہاں کی مہنگائی میں خاصا فرق ہے۔ مہنگائی تو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب وغیرہ میں بھی ہے مگر وہاں حکومت نے بعض معاملات کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ دبئی، شارجہ وغیرہ میں رہائشی اور کاروباری عمارتوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں مگر کھانے پینے کی اشیا کے دام قدرے کم ہیں۔ عام آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ کرایہ بھگت لیا تو گزارہ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ یومیہ سفر بھی زیادہ پریشان کن نہیں۔ بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضرورتیں بھی ڈھنگ سے پوری کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں معاملات بالکل الجھے ہوئے ہیں۔ متعلقہ اداروں کی رِٹ دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ ہر شعبے کو متعلقہ مافیا نے کنٹرول کر رکھا ہے۔ عام آدمی ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم والی کیفیت سے دوچار ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا۔ جب ایسی کیفیت ہو تو انسان نہ چاہتے ہوئے بھی حماقتوں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔
ہر سال رمضان المبارک کی آمد پر ہر چیز کے دام 100 سے 200 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔ جو خربوزہ کچھ دن پہلے 50 سے 100 روپے فی کلو کے نرخ پر مل رہا تھا وہی خربوزہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی 150 سے 200 روپے فی کلو کے نرخ تک جا پہنچا۔ اِس بار کیلے کا معاملہ قطعی آؤٹ آف کنٹرول دکھائی دے رہا ہے۔ اسلام آباد میں پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی ہے جو اب تک کامیاب رہی ہے۔ یہ تو بہت سیدھی سی بات ہے کہ جس چیز کے دام بہت بڑھادیے جائیں وہ یا تو بالکل نہیں کھانی چاہیے یا پھر زیادہ استعمال سے اجتناب برتنا چاہیے۔ کوئی بھی پھل اگر خواہ مخواہ مہنگا کردیا جائے تو اُس کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ دوسری بہت سی چیزوں پر بھی اِس اصول کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔
ہمارے ہاں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کسی بھی چیز کے نرخ میں کسی جواز کے بغیر کیے جانے والے اضافے کو برداشت کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ جس نرخ پر خریداری کی جارہی ہے اُس کی کوئی منطق ہے نہ کوئی جواز۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ برائلر یعنی فارمی مرغی کا گوشت کھانے سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔ متعلقہ تاجر اور ماہرین اس کے جواب میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ جس فیڈ سے دنیا بھر میں برائلر مرغیاں پروان چڑھائی جاتی ہیں وہی فیڈ ہمارے ہاں بھی استعمال کی جارہی ہے۔ مرغی کے گوشت کے دام 250 سے 300 روپے فی کلو ہوں تو غنیمت سمجھیے۔ اِس سے زیادہ مہنگا چکن ''وارے‘‘ میں نہیں آتا۔ اس وقت کراچی میں مرغی کا گوشت 600 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے اور بغیر ہڈی کا 900 روپے فی کلو تک کے نرخ پر دستیاب ہے! برائلر گوشت کا اِس قدر بلند نرخ پر فروخت ہونا انتہائی حیرت انگیز ہے کیونکہ گائے کا بغیر ہڈی کا گوشت 600 روپے اور بچھیا کا بغیر ہڈی کا گوشت 850 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے۔ جو لوگ مرغی کے گوشت کو نقصان دہ قرار دیتے ہیں اُنہیں گائے یا بچھیا کا گوشت کھانا چاہیے۔ گائے کے ساتھ ساتھ بھینس کا گوشت بھی قدرے کم نرخ پر دستیاب ہے۔ کراچی میں بھینس کا گوشت زیادہ پسند نہیں کیا جاتا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ گوشت بھی معیاری ہوتا ہے اور اضافی خصوصیت یہ ہے کہ سستا ہے۔
تمام شہروں میں کئی ایسے علاقے ہوتے ہیں جہاں کم و بیش تمام ہی اشیا کی ورائٹیز دستیاب ہوتی ہیں۔ اگر کراچی کی بات کریں تو نیو کراچی کے علاقے میں سندھی ہوٹل کی مارکیٹ میں بچھیا کے علاوہ بچھڑے، گائے، بھینس اور بھینسے کا گوشت بھی فروخت ہوتا ہے۔ اِسی مارکیٹ میں بکرے اور بکری کا گوشت الگ الگ فروخت کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں پردے کے گوشت کا سستا قیمہ بھی دستیاب ہے۔ جب اِتنی ورائٹی میسر ہو تو کوئی بھی اپنے بجٹ کے حساب سے معیاری خریداری کر سکتا ہے۔ بچھیا اور گائے کے گوشت میں ذائقے کا فرق ہوتا ضرور ہے مگر بہت زیادہ نہیں ہوتا۔ بالکل اِسی طور کم آمدنی والے گھرانے اگر گوشت کھانے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں تو گائے اور بھینس کے گوشت کی عادت ڈال سکتے ہیں۔ تھوڑی سی توجہ اور دور اندیشی بروئے کار لاتے ہوئے گوشت کی مد میں گھر کے بجٹ کو کنٹرول کرنا ناممکن نہیں۔
کسی انتہائی مہنگی چیز کا بائیکاٹ بھی ایک اچھا طریقہ ہے؛ تاہم اِس سے زیادہ مؤثر اور کارگر حکمتِ عملی یہ ہے کہ گھر کا بجٹ متوازن رکھنے کے لیے ذہانت اور نظم و ضبط کا سہارا لیا جائے۔ ہر ماہ تنخواہ ملنے پر جب مہینے بھر کا راشن خریدنے کی منصوبہ سازی کی جائے تب دیکھا جائے کہ کون کون سے آئٹم کسی جواز کے بغیر خریدے جارہے ہیں۔ جن اشیا کی خریداری سے گھر کا بجٹ‘ کسی جواز کے بغیر‘ متاثر ہوتا ہو اُنہیں ترک کردینا بہتر ہے۔ آٹا، گھی، تیل، چاول، دالیں، مسالے، صابن اور دیگر تمام ضروری اشیا پوری ذہنی تیاری کے ساتھ خریدنی چاہئیں۔ جہاں بھی کچھ بچانے کی گنجائش وہاں ایسی کوشش سے گریز درست نہیں۔ بازار میں ہر چیز کی ورائٹی دستیاب ہے۔ بعض چیزیں برانڈڈ ہونے کی بنیاد پر بہت مہنگی ہیں جبکہ وہی چیزیں کُھلی خریدی جائیں تو بجٹ پر خاصا اثر مرتب ہوتا ہے۔ مثلاً پسی ہوئی مرچ بالعموم 500 روپے فی کلو تک دستیاب ہے جبکہ برانڈڈ پسی ہوئی مرچ 1800 روپے فی کلو تک پڑتی ہے! ہلدی اور زیرے سمیت گرم مسالوں کا بھی کچھ ملتا جلتا معاملہ ہے۔ چند دکانیں کھنگالنے سے ایک ہی چیز کے مختلف دام سامنے آتے ہیں اور خریداری آسان و معقول ہوتی جاتی ہے۔ محض برانڈ کے چکر میں کوئی بھی چیز بہت مہنگی خریدنا سراسر بلا جواز ہے۔ بڑے سٹورز میں معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خریداری کی جائے تو گھر کا بجٹ قابو میں رہتا ہے اور معیاری اشیائے خور و نوش کا حصول بھی ناممکن نہیں رہتا۔ اشیائے خور و نوش کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری اشیا بھی سوچ سمجھ کر خریدنی چاہئیں۔ صابن، شیمپو، ڈش واشر اور دیگر بہت سی اشیا بھی مقبول ترین برانڈ کی خریدی جائیں تو بہت مہنگی پڑتی ہیں اور گھر کے ماہانہ بجٹ پر منفی اثرات مرتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ بازار کی تھوڑی سی ''ریکی‘‘ کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ معیاری اشیا کم نرخ پر کہاں کہاں مل سکتی ہیں۔ ایک ہی چیز کے چار چار نرخ پائے جارہے ہوتے ہیں۔ ہر چیز کی ورائٹی موجود ہو تو سستا اور معیاری مال تلاش کرنے پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔
گھر کو سہولتوں سے مزین کرنا اچھی بات ہے مگر بجٹ بھی دیکھنا چاہیے۔ اگر گنجائش نہ ہو تو خواہ مخواہ نزاکت پسندی کا دکھاوا نہیں کرنا چاہیے۔ بعض چھوٹی اشیا اخراجات میں اضافہ کرکے بجٹ کو غیر متوازن کردیتی ہیں۔ اگر کسی کی آمدن اجازت نہ دیتی ہو تو ٹشو پیپر اور ایسی کی دیگر ''نزاکت بہ دوش‘‘ اشیا خریدنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بالکل اِسی طرح باہر سے کھانا بھی اُسی وقت خریدنا یا منگوانا چاہیے جب جیب اجازت دیتی ہو۔ محض جذباتی ہوکر یا شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر کھانے پینے کی چیزوں کے ایسے آرڈر نہیں دینے چاہئیں جن سے گھر کا بجٹ غیر متوازن ہوتا ہو۔ مہینے بھر کے راشن، سبزیوں، گوشت اور دیگر اشیائے خور و نوش کی خریداری ذہانت اور نظم و ضبط کے ساتھ نہ کی جائے تو تعلیم، صحت اور سیر و تفریح وغیرہ کے لیے رقم نکالنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کنٹرول کرنا بنیادی طور پر حکومت یا ریاست کا فرض ہے مگر عوام بھی اس حوالے سے تھوڑے بہت احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو اچھی خاصی بہتری کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ ہم مجموعی طور پر بے ہنگم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بعض مدات میں غیر ضروری اخراجات ہمارے معیارِ زندگی پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ تھوڑی سی ذہانت کے ساتھ تھوڑا سا نظم و ضبط ہمیں معقولیت کے ساتھ قدرے خوش گوار زندگی بسر کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں