"MIK" (space) message & send to 7575

بکھرنے سے نکھرنے تک

ہم زندگی بھر مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ کبھی ہم سنجیدگی کے ساتھ سوچتے ہیں کہ یہ مسائل ہوتے کس لیے ہیں اور مشکلات سے ہمیں کیا ملتا ہے؟ ہر مشکل، ہر پریشانی کسی نہ کسی عمل یا ردِعمل کا نتیجہ ہوتی ہے اور اُس کے دامن میں ہمارے لیے صرف الجھن نہیں ہوتی‘ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اگر ہم مثبت طرزِ فکر و عمل کے ساتھ جینے کے عادی ہوں تو کسی بھی بحران کے بطن سے اپنے لیے کوئی شاندار موقع نکال سکتے ہیں۔ اپنے قریبی ماحول میں بھی آپ کو ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو مشکلات سے گھبرانے کے بجائے اُنہیں اپنے حق میں استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ ہنر خود بخود آتا ہے نہ راتوں رات سیکھا جا سکتا ہے۔ برسوں کی منصوبہ سازی، محنت اور مشق کے ذریعے انسان مشکلات کو اپنے میں استعمال کرنے کا ہنر سیکھ پاتا ہے۔
عمومی سطح پر ہر انسان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مشکلات صرف اُس کے حصے میں آئی ہیں، مسائل کا سامنا صرف اُسے رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے! سب کو اپنے اپنے حصے کے غم ملتے ہیں۔ الجھنیں سب کے لیے ہیں، مسائل سے کسی کو استثنا نہیں۔ مالی مشکلات سے دوچار افراد یہ سمجھتے ہیں کہ جو بہت دولت مند ہیں اُن کی زندگی میں کوئی الجھن نہیں۔ یہ تصور عام ہے کہ بڑے گھروں میں رہنے اور بڑی گاڑیوں میں گھومنے والوں کی راہ میں زندگی کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرتی۔ ایسا بالکل نہیں ہے! ہر انسان کو کسی نہ کسی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ مسائل سب کے لیے ہوتے ہیں اور آزمائش کا درجہ رکھتے ہیں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو سامنے پاکر ہم ابتدائی لمحات میں پریشان ہو جاتے ہیں۔ ہر مسئلہ ہمیں پہلے پہل بدحواس کرتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اسی مرحلے میں پھنس کر رہ جاتے ہیں یعنی بدحواس ہونے کو مسئلے کا حل سمجھ بیٹھتے ہیں یا پھر پژمردگی کا شکار ہوکر ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ بدحواس ہونے سے تو
مسائل مزید شدت اختیار کرتے ہیں۔ ہر مسئلہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اب سوچئے کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ کسی بھی مسئلے کو اپنے سامنے پاکر ہم میں سے بیشتر صرف پریشان ہو اٹھتے ہیں، حواس باختہ ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ مسئلہ اُسی وقت حل ہوگا جب اُسے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے یا دنیا کے تمام معاشروں پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے، یہ حقیقت ہر جگہ دکھائی دے گی کہ کامیاب صرف وہ ہوتے ہیں جو مسائل حل کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔
شخصیت کو نکھارنے والے عوامل اور بھی بہت سے ہیں۔ انسان محنت کرتا ہے تو نکھرتا ہے۔ کسی کی مدد کرنے سے بھی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اپنی کامیابی، خوشحالی اور خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنے سے بھی شخصیت کا نکھار بڑھتا ہے؛ تاہم کوئی بھی شخصیت حقیقی معنوں میں اُسی وقت نکھرتی ہے جب مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اُن سے نپٹنے کا ذہن بنایا جاتا ہے۔ پریشان کن حالات انسان کے لیے بہت حد تک آزمائش کا درجہ رکھتے ہیں یعنی وہ ہمیں آزماتے ہیں۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ ڈھنگ سے جینے کی خاطر اِس نظام سے ہم آہنگ رہتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ کوئی ہمارے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور کسی کے لیے ہم مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ تفاعل کے نتیجے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ معاشرہ اشتراکِ عمل کا نتیجہ ہے۔ ہمارے بہت سے اعمال یا افعال کسی کے لیے سہولت اور کسی کے لیے الجھن پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسا ہم دانستہ نہیں کرتے۔ کسی کی کامیابی کسی کو ناکامی سے دوچار کرتی ہے۔ اکھاڑے میں اترنے والے دو پہلوانوں میں سے ایک فتح یاب ہوتا ہے۔ ہمارے بیشتر معاملات کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ کوئی بھی اِس شدید غلط فہمی کا شکار نہ رہے کہ زندگی کے دامن میں اُس کے لیے کچھ نہیں۔ زندگی سبھی کو بہت کچھ دیتی ہے۔ کبھی کبھی بہت کچھ خود بخود ملتا چلا جاتا ہے اور کبھی تلاش کرنا پڑتا ہے۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ نکھرنے اور بکھرنے کا فرق کیا ہے۔ یہ دنیا اُن کے لیے ہے جو اپنی صلاحیت و سکت کو پہچان کر اُس سے مطابقت رکھنے والی محنت کے عادی ہوتے ہیں اور مثبت سوچ کے ساتھ کام کرتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جو لوگ ہمت ہارے بغیر، مایوس ہوئے بغیر کام کرتے رہتے ہیں اور نتائج قدرت کی مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں وہ بالآخر کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ قدرت کسی کو اُس کی محنت کے اجر سے محروم نہیں رکھتی۔ مسائل کا حل تلاش کرنے کی ہر کوشش ہمیں اپنی صلاحیت و سکت کو مزید بروئے کار لانے کی تحریک دیتی ہے۔ مشکلات سے گھبراکر گوشہ نشینی اختیار کرنے والوں کے لیے اس دنیا میں کچھ بھی نہیں۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ شدید ناکامی کے ساتھ ساتھ گمنامی یا بے نامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ یاد اُنہیں رکھا جاتا ہے جو حالات سے لڑنے کا حوصلہ اور سلیقہ رکھتے ہوں۔ زندگی کے دامن میں جو کچھ بھی ہے وہ صرف اُن کے لیے ہے جو ہر طرح کے حالات میں بھرپور مثبت سوچ کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔
ہر عہد اپنے چیلنج لے کر پیدا ہوتا ہے۔ کوئی بھی صورتِ حال ہمارے لیے محض مسئلہ ہے یا چیلنج، اس کا تعین ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ اگر ہم بات بات پر گھبرا اٹھتے ہیں اور ہر پریشان کن صورتِ حال کو عذاب کی شکل میں دیکھنے کے عادی ہیں تو معاملات بہت مشکل سے درست ہوں گے۔ کامیابی کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان مسائل کو چیلنج کے طور پر لے، اپنے معاملات درست کرنے کے لیے پُرعزم ہو۔ اس مرحلے سے گزرنے ہی پر کچھ ہو پاتا ہے، کچھ مل پاتا ہے۔ مطالعے اور مشاہدے سے آپ کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ مسائل کی شدت انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ زیادہ محنت کرنے کا عزم اُسی وقت سامنے آتا ہے جب انسان کو بہت مشکل صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے۔ ہر طرف آسانیاں ہوں تو انسان تن آسانی کے پنجرے میں قید ہوکر رہ جاتا ہے۔ آسانیوں کے ساتھ جینے والے معمولی سی پریشان کن صورتِ حال میں بُری طرح الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ مشکلات کے ہاتھوں بکھرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مسائل کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتے ہیں اور اپنی شخصیت میں نکھار کے اضافے کی راہ ہموار کرتے
ہیں۔ انسان چیلنجوں سے نپٹنے کی ذہنیت اپنانے ہی سے اپنا معیار بلند کرتا ہے۔ ایسی حالت میں عزائم کا گراف بلند ہوتا ہے اور سکت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ کسی بھی انسان میں صلاحیت کا پایا جانا معاملات کی درستی کے لیے کافی نہیں۔ اگر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا عزم اور کام کرنے کی لگن نہ پائی جاتی ہو تو زندگی کا معیار کیونکر بلند کیا جاسکتا ہے؟
ذہنیت تبدیل کیے بغیر ہم اپنی زندگی میں کوئی بھی بڑی اور مثبت تبدیلی یقینی نہیں بناسکتے۔ بڑی اور اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے کے لیے وسیع النظر اور وسیع القلب ہونا لازم ہے۔ سوچ محدود نہیں ہونی چاہیے۔ معاملات کو سمجھنے کی محض صلاحیت کافی نہیں‘ شوق بھی ناگزیر ہے۔ صلاحیت کم و بیش ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ سوال صلاحیت کے پائے جانے کا نہیں‘ اُسے بروئے کار لانے کے عزم اور ذہنیت کا ہے۔ کوئی بھی انسان بہت کچھ پا سکتا ہے مگر اُس سے کہیں کم پر راضی رہتے ہوئے زندگی گزار دیتا ہے۔ ایسے میں زندگی کا حق ادا نہیں ہو پاتا۔ اگر کسی نے سوچا ہے کہ یوں جینا ہے کہ لوگ یاد رکھیں تو پھر ناگزیر ہے کہ وہ مشکلات سے لڑنا سیکھے۔مسابقت آج کا مسئلہ نہیں۔ ہر عہد کے انسان کو مختلف سطحوں پر مسابقت کا سامنا رہا ہے۔ آزمائش کا درجہ رکھنے والے حالات ہمیشہ رہے ہیں۔ اِس دنیا کو چلانا قدرت کا کام ہے۔ اُس کا اپنا نظام ہے۔ ہمیں تو محض اُس کی مرضی کا پابند ہو رہنا ہے۔ ہر عہد کی تاریخ گواہ ہے کہ کچھ بھی نیا اُسی وقت ہو پایا ہے جب انسان نے مشکلات کو عذاب سمجھنے کے بجائے مواقع کے طور پر دیکھا ہے، کچھ سیکھا ہے اور پھر پوری تیاری کے ساتھ میدانِ عمل میں اُترا ہے۔ آج کے انسان کو بہت سے معاملات میں آسانیاں میسر ہیں۔ جاننا اب مسئلہ نہیں رہا۔ آج کا مسئلہ ہے عمل! مسائل کو چیلنج سمجھنے ہی سے شخصیت بکھرنے کے بجائے نکھرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں