"MIK" (space) message & send to 7575

ہنستے گاتے جانا ہے

زندگی جیسے تیسے گزر ہی جاتی ہے۔ جیسے تیسے کیوں؟ جب گزارنی ہی ہے تو ڈھنگ سے کیوں نہ گزاری جائے۔ کیا لازم ہے کہ ہر وقت حالات و مسائل کا رونا رویا جائے؟ مسائل تو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہمارے لیے بہترین طرزِ فکر و عمل یہی ہوسکتی ہے کہ مسائل کو ایک طرف ہٹاکر زیادہ سے زیادہ خوش رہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بیشتر وقت خوش کیونکر رہا جائے؟ اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ جب بیشتر وقت افسردہ رہا جاسکتا ہے تو پھر خوش بھی رہا جاسکتا ہے۔ افسردہ رہنے اور حالات کا شکوہ کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا آپشن بھی ہمِیں نے اپنایا ہوتا ہے تو پھر خوش رہنے کا آپشن بھی ہمِیں کو اپنانا ہے۔
اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے تو آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو کسی حال میں خوش رہنا ہی نہیں چاہتے۔ بہت کچھ مل جائے تب بھی وہ پریشان دکھائی دیتے ہیں اور کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ جب جیب خالی ہوتی ہے تب بھی وہ حالات کا رونا رو رہے ہوتے ہیں اور جب جیب ہی نہیں‘ تجوری بھی بھر جاتی ہے تب بھی اُنہیں صرف اِس بات سے غرض ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رونا روکر خود بھی ہلکان ہوا جائے اور دوسروں کا بھی ناک میں دم کیا جائے۔ اِسی ماحول میں آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو اپنی محدود آمدنی میں بھی ڈھنگ سے گزارہ کرتے ہیں، کسی بات کا رونا نہیں روتے، خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہوتی ہے جسے گھماتے ہی وہ حالات کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور خوشی خوشی دن گزارتے ہیں؟ خوش رہنے کے لیے انسان کا جادوگر ہونا لازم نہیں۔ محض شکر گزار ہونے سے بھی یہ کام ہو جاتا ہے۔ جب بندہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے جینے کی کوشش کرتا ہے تب قدرت کی طرف سے کچھ ایسا اہتمام ہو جاتا ہے کہ وہ ہزار مشکلات کے باوجود خوش اور مطمئن رہتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی مثال بنتا ہے۔
اور کسی بھی حقیقت کو جھٹلایا جاسکتا ہے، موت کو جھٹلانے کا حوصلہ کسی میں ہے؟ یہ حقیقت اٹل ہے۔ جو آیا ہے اُسے ایک نہ ایک دن جانا ہی ہے۔ ایک دن زندگی کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ہم سب اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ تب دنیا میں گزارے ہوئے ایک ایک پل کا حساب لیا جائے گا۔ ہمیں جو سانسیں عطا کی گئی ہیں اُن کا حساب دینا ہوگا۔ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یعنی جو کچھ یہاں بوئیں گے وہ ہم آخرت میں کاٹیں گے۔ اچھا بویا ہوگا تو اچھی فصل کٹے گی۔ بُری بُوائی کا نتیجہ بُری فصل کی صورت میں برآمد ہوگا۔ دانش کا تقاضا ہے کہ ہم دنیا میں اپنے قیام کو جذبۂ تشکر سے مزین کریں۔ جو لوگ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں، ہر مصیبت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر صبر کرتے ہیں اور ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا مانتے ہوئے اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب رہتے ہیں۔
ہم جیے جاتے ہیں مگر زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ جو زندگی ہم بسر کر رہے ہیں وہ ہم سے قدم قدم پر شعور کو بروئے کار لانے کا تقاضا کرتی ہے۔ شعور کو بروئے کار لانے کی بہترین صورت یہ ہے کہ انسان اپنی ہر سانس کو اللہ تعالیٰ کی عطا گردانتے ہوئے اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے، تشکّر کے جذبے سے سرشار رہتے ہوئے جیے اور اپنے وجود کے ساتھ ساتھ دوسروں کے وجود کو بھی معنویت سے ہم کنار کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ کبھی آپ نے کچھ وقت نکال کر، تھوڑی سی گوشہ نشینی اختیار کرتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ آپ کس طور جی رہے ہیں؟ اور یہ کہ جس طور آپ جی رہے ہیں کیا وہی جینے کا بہترین طور ہوسکتا ہے؟ سوچنا لازم ہے کیونکہ سوچنے ہی سے انسان کو راہ ملتی ہے۔ ہم اپنے تمام مسائل کا حل اُسی وقت نکال پاتے ہیں جب سوچتے ہیں اور عمل کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔
ہمیں بہت سی نعمتیں اِتنی آسانی سے ملی ہوئی ہیں کہ ہم اُن کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ پانی ہی کو لیجیے۔ قدرتی ماحول میں یہ ہمیں مفت میسر ہے۔ اور جب خود اہتمام کرنا پڑے؟ تبھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نعمت کتنی قیمتی ہے۔ یہی حال ہمارے وجود یعنی اعضا کا ہے۔ تمام اعضا کا ڈھنگ سے کام کرنا وہ نعمت ہے جس پر ہمیں ہر دم اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے مگر ہم اِس طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ کسی حادثے یا بیماری کی صورت میں ہاتھ پاؤں ڈھنگ سے کام کرنا چھوڑ دیں تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی یہ نعمت کتنی قیمتی ہے۔ انسان جب تک چلتا پھرتا رہتا ہے تب تک سوچتا ہی نہیں یہ سکت کتنی بڑی عطا ہے۔ فالج کی صورت میں بستر سے اٹھ بیٹھنا بھی ممکن نہ رہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ جسم کا درست حالت میں ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے اُس پر شکر گزار ہونا تو بنتا ہی ہے مگر ساتھ ساتھ خوش رہنا بھی ناگزیر ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو شمار کرتے ہوئے اُس کا شکر ادا کرتے ہیں تب حقیقی مسرت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ حقیقی مسرت کس کیفیت کا نام ہے اور یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔
انسان کا عمومی مزاج یہ ہے کہ جب تک سب کچھ اچھا چل رہا ہوتا ہے تب تک وہ کسی بھی معاملے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ ہر طرف رونما ہونے والی ناموافق تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود وہ یہی سمجھ رہا ہوتا ہے یہ سب کچھ اُس کے ساتھ نہیں ہوگا۔ پھر جب کوئی مشکل آن پڑتی ہے تب ہوش آتا ہے مگر تب بھی صرف اِس قدر ہوش آتا ہے کہ پریشان ہوا جائے۔ حقیقت پسندی کے ساتھ سوچنا تو تب بھی نصیب نہیں ہوتا۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ محض پریشان ہونے کو غور کرنے کے درجے میں رکھتے ہیں۔ ہر انسان کے لیے معقول طرزِ فکر و عمل یہ ہے کہ ہر آن اپنے فکر و عمل کا حساب کرتا رہے۔ اپنا جائزہ لیتے رہنا سب کے لیے تقریباً فریضے کے درجے میں ہے۔ جو لوگ اپنے شب و روز پر نظر رکھتے ہیں وہ حقیقت پسندی کی راہ پر گامزن ہونے میں زیادہ دشواری محسوس نہیں کرتے۔ ہر گزرتے ہوئے دن کا محاسبہ لازم ہے کیونکہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق اور خوش رہنے کا حوصلہ اپنا محاسبہ کرنے کے معمول ہی کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اپنے گزرے ہوئے تمام دنوں کا جائزہ لیجیے یعنی عمر کے بیتے ہوئے حصے پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے۔ جتنے دن آپ نے خوش خوش گزارے ہیں بس وہی آپ کے ہیں اور اُتنی ہی آپ کی زندگی ہے۔ باقی دنوں کو محض وقت گزارنے کا عمل سمجھیے یا پھر محض خانہ پُری۔
زندگی خانہ پُری کا نام نہیں۔ ہر دن بھرپور انداز سے گزارنے کا نام ہے زندگی۔ جب کوئی بھی انسان اپنا ہر دن پورے ہوش و حواس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے گزارتا ہے، اپنے حصے کا کام پوری دیانت اور جاں فشانی سے پایۂ تکمیل تک پہنچاتا ہے تب اُس کی زندگی میں مسرت کا سامان ہوتا ہے۔ مسرت کا احساس اندر سے ابھرتا ہے۔ یہ باہر کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ باہر تو صرف دکھ ہیں‘ پریشانیاں ہیں۔ اندر کا موسم اچھا ہو تو باہر کے موسم کی شدت کچھ نہیں بگاڑ پاتی۔ آج ہمارا معاشرہ جس موڑ پر کھڑا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ بے ذہنی و بے نظری کی زندگی بسر نہ کی جائے۔ زندگی کے حوالے سے بھرپور سنجیدگی اپنائے بغیر ہم ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ حقیقی مسرت یقینی بنانے کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جو کچھ بھی رب کی طرف سے عطا ہوا ہے‘ اُس پر شکر گزار رہا جائے اور مزید بہتری کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار و سپاس گزار رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تگ و دَو کی جائے۔ جو لوگ مسرت کے خواہش مند ہیں اُنہیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ رب کو بھول کر وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ شکر ادا کیجیے، سپاس گزار رہیے اور صرف اِتنا یاد رکھیے کہ ہنستے گاتے جانا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں