نمایاں ہونا کس کی خواہش ہے؟ یہ کس کی خواہش نہیں؟ ہر انسان منفرد دکھائی دینا چاہتا ہے۔ ہر انسان منفرد تو ہوتا ہی ہے۔ ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ مجھ جیسا کوئی نہیں۔ یہ بات یقینا درست ہے، آپ جیسا کوئی نہیں! بالکل اِسی طور آپ کے ماحول سمیت دنیا بھر میں جتنے بھی افراد ہیں اُن میں سے ہر ایک جیسا کوئی نہیں۔ ہر انسان کو چند ایسی خصوصیات عطا کی جاتی ہیں جو کسی اور میں نہیں ہوتیں۔ انگلیوں کے نشانات کا معاملہ ہی لیجیے۔ تمام انسانوں کی انگلیوں کے نشانات الگ الگ ہوتے ہیں۔ بالکل اِسی طور فکری ساخت بھی بالکل منفرد معاملہ ہے۔ کوئی بھی دو انسان ہر اعتبار سے یکساں نہیں سوچتے، بلکہ سوچ ہی نہیں سکتے۔ محسوسات، جذبات، خیالات، تخمینے اور مشکلات سبھی کچھ تو ہر انسان میں جداگانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ ایسے میں کوئی سے بھی دو انسانوں میں مکمل یکسانیت کا پایا جانا کسی طور ممکن نہیں۔ حافظوں میں جو کچھ بھی محفوظ ہوتا ہے وہ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ اِسی لیے ہر انسان دنیا کو ایک الگ زاویے سے دیکھتا ہے۔ دنیا کی تفہیم بھی الگ الگ انداز سے کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اِس قدر واضح ہے کہ اِس حوالے سے بالعموم سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔
منفرد تو آپ بھی ہیں مگر کیا منفرد دکھائی بھی دیتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے آپ کو بہت سے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ آپ کی سوچ میں کچھ نیا پایا جاتا ہے۔ اگر آپ کی سوچ میں کوئی نئی بات نہیں تو پھر آپ کے لیے اپنے آپ کو بھیڑ سے الگ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ سوچ ہی کی بنیاد پر عمل بھی وقیع ٹھہرتا ہے۔ سوچ گھسی پٹی ہو تو عمل بھی زیادہ جاندار نہیں ہوتا۔اگر آپ کو منفرد دکھائی دینا ہے تو بھیڑ سے ہٹ کر چلنا پڑے گا۔ تبھی لوگ آپ کو ٹھیک سے دیکھ پائیں گے۔ بھیڑ سے الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کچھ نہ کچھ نیا کر دکھانا پڑے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کچھ بھی نیا کیسے کر دکھایا جائے۔ کچھ بھی نیا کرنا انتہائی دشوار سہی‘ ناممکن تو نہیں ہوتا۔ اگر ناممکن ہوتا تو دنیا میں کچھ بھی نیا نہ ہو رہا ہوتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ کسی بھی شعبے میں اور کسی بھی معاملے میں کچھ نیا کرنا انتہائی محنت طلب امر ہے۔ لوگ ابتدائی مرحلے ہی میں کمزور پڑ جاتے ہیں، ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ فی زمانہ لوگ ہر معاملے میں فوری نتائج حاصل کرنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ جب مسابقت زیادہ نہیں تھی اور بہت کچھ کر دکھانے کی گنجائش تھی تب بھی کچھ نیا کرنا انتہائی محنت طلب ہوا کرتا تھا۔ اب یہ معاملہ بہت الجھ چکا ہے۔ ہر شعبے میں مختلف حوالوں سے اِتنی پیش رفت ہوچکی ہے اور دوسروں کا کیا ہوا اِتنا کچھ ہمارے سامنے آرہا ہے کہ اب جدت کے بازار میں اپنی دکان کھولنا اور اُسے کامیابی سے چلانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا ہے۔
ہر دور اپنے ساتھ بہت سے چیلنجز لاتا ہے۔ آج کا سب سے بڑا چیلنج اپنے آپ کو حقیقی انفرادیت کا حامل ثابت کرنا ہے۔ لوگ توجہ پانے کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اِس دور میں ہر شخص کچھ نہ کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جو اُسے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر لے جائے۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے جو انتہائی منفرد دکھائی دے، لوگوں کو تیزی سے اپنی طرف متوجہ کرے۔ سارا جھگڑا ریٹنگ کا ہے۔ لوگ views، likes اور rating کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، کسی بھی حد سے تجاوز کرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ کیا منفرد دکھائی دینے کے لیے کچھ نہ کچھ اوٹ پٹانگ کرنا لازم ہے؟ لازم تو خیر نہیں ہے مگر ہاں اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لوگ پہلے مرحلے میں اوٹ پٹانگ معاملات کی طرف ہی جانا پسند کرتے ہیں۔ کیوں؟ اِس لیے کہ اِس میں آسانی بہت ہے۔ کوئی بھی الل ٹپ حرکت لوگوں کو بہت پسند آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کیے جانے والے وڈیو کلپس دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ بالعموم اِتنا سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ ایسا کرنے سے برسوں کی کمائی گئی عزت کا کیا بنے گا، ساکھ کس گڑھے میں جا گرے گی۔ کم ہی ہیں جنہیں عزت اور ساکھ کی کچھ پروا ہے۔ لوگ ریٹنگ چاہتے ہیں۔ انتہائی لایعنی قسم کی پوسٹ اَپ لوڈ کرکے بھی توقع کی جاتی ہے کہ لوگ دیکھیں اور سراہیں۔ جن چیزوں کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جائے اُن کے حوالے سے بھی دلوں میں ستائش کی تمنا انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ داد سمیٹنے کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ سارا زور اِس بات پر ہے کہ راتوں رات ہزاروں نہیں‘ لاکھوں افراد پوسٹ پڑھ لیں، دیکھ لیں اور سراہیں بھی۔
کیوں؟ اِس کی پروا کسی کو نہیں۔ بھیڑ سے الگ دکھائی دینے کا شوق سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بھیڑ سے الگ دکھائی دینے کے چکر میں لوگ سبھی کچھ داؤ پر لگانے پر تُلے رہتے ہیں۔ کیا انفرادیت یقینی بنانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانا لازم اور دانش مندی ہے؟ یقینا نہیں کیونکہ آج بھی ہر معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو دوسروں سے بہت مختلف ثابت ہوچکے ہیں مگر اُنہوں نے کچھ بھی ایسا ویسا نہیں کیا جو سب کچھ داؤ پر لگانے کا باعث بنے۔ ہاں، ایسے لوگوں کو منفرد دکھائی دینے اور انفرادیت ثابت کرنے کے لیے محنت بہت کرنا پڑتی ہے۔ سکرپٹ رائٹنگ کی مثال لیجیے۔ اچھی فلم لکھنا ہر سکرپٹ رائٹر کا خواب ہوتا ہے مگر اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بہت سوچنا پڑتا ہے، بہت خونِ جگر جلانا پڑتا ہے۔ جنہیں اچھی اور منفرد فلم لکھنی ہو وہ بہت پڑھتے ہیں، بہت دیکھتے ہیں۔ اُنہیں اپنے شعبے میں پیش رفت پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ منفرد نوعیت کی فلمیں دیکھنے سے اُنہیں بھی منفرد انداز کے سکرپٹ لکھنے کی تحریک ملتی ہے۔ دوسروں کے کام کا جائزہ لینا انسان کو منفرد انداز سے سوچنا سکھاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اگر کسی کو اچھی فلم لکھنی ہو تو دوسروں کی لکھی ہوئی فلمیں دیکھنے تک معاملہ محدود نہیں رہ سکتا۔ نوٹس بھی لینا پڑتے ہیں۔ نئے آئیڈیاز ذہن کے پردے پر ابھرتے رہتے ہیں۔ اُنہیں پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ اچھا لکھنے کے لیے بہت لکھنا پڑتا ہے اور پھر اُسے ایڈٹ کرنا پڑتا ہے۔ اچھا اور کم لکھنے کے لیے بہت اس لیے لکھنا پڑتا ہے کہ جو کچھ بھی ذہن کے پردے پر ابھرے اُسے محفوظ کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ جب بہت کچھ لکھ لیا جائے تو پھر اُس میں سے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔
جب انسان اپنے شعبے پر نظر رکھتا ہے تب اُسے درست اندازہ ہو پاتا ہے کہ لوگ کیا کر رہے ہیں اور اُسے منفرد دکھائی دینے کے لیے کیا کرنا ہے۔ سلمان خان کے والد سلیم خان اور جاوید اختر نے جب ''سلیم -جاوید‘‘ کے نام سے بالی وُڈ میں سکرپٹ رائٹرز کی حیثیت سے انٹری دی تھی تب فلمیں روایتی اور گھسے پِٹے انداز سے لکھی جاتی تھیں۔ کہانیاں خاصے ڈھیلے ڈھالے اور پُھسپھسے انداز سے بیان کی جاتی تھیں۔ یہ سب کچھ لوگوں کو اپنی طرف زیادہ متوجہ نہیں کرتا تھا۔ ایسے میں فلم کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے موسیقی، رقص اور (خاصی سطحی اور بھونڈی) کامیڈی کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ سلیم -جاوید نے عملاً بتایا کہ ہر منظر ڈھنگ سے لکھا جائے اور ہر منظر کا معقول کلائمیکس ہو تو فلم میں شائقین کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ شعلے، ڈان، مسٹر انڈیا اور زنجیر سمیت اُن کی لکھی ہوئی تمام فلمیں اِس کی اچھی مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔ سلیم- جاوید ہی نے ثابت کیا کہ فلمیں کہانی کی بنیاد پر نہیں بلکہ مناظر اور مکالموں کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ آج بھی کچھ نیا کرنا، لوگوں کی توجہ پانا ممکن ہے مگر اِس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر تیاری کرنا پڑتی ہے۔ محنتِ شاقّہ کے مرحلے سے گزرے بغیر کچھ بھی نیا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ بھیڑ سے الگ دکھائی دینے کے خواہش مند ہیں تو لازم ہے کہ اپنے اندر کچھ جدت لائیں۔ جدت سوچ میں بھی ہونی چاہیے اور عمل میں بھی۔ آپ جو بھی کام کریں اُس میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا کوئی نہ کوئی پہلو ہونا چاہیے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور جدت کی قیمت تو ہوتی ہی غیر معمولی ہے۔