"MIK" (space) message & send to 7575

دوسروں کی خوشی کے لیے؟

انسان کس کے لیے جیتا ہے؟ اپنے لیے! صرف اپنے لیے؟ نہیں! دوسروں کیلئے بھی جینا پڑتا ہے یا جینا ہی ہوتا ہے؛ تاہم زندگی اول و آخر ہوتی اپنے لیے ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے‘ حتمی تجزیے میں زندگی صرف اپنے لیے بسر کرنے کا معاملہ ٹھہرتی ہے۔ اور اِس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ اگر آپ کو یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے تو ذرا سوچئے کیا کوئی اور ہے جو آپ کے لیے جی رہا ہے؟ سب اپنے لیے جیتے ہیں۔ ہاں‘ زندگی کو زیادہ بارآور بنانے کے لیے لازم ہے کہ دوسروں کا بھی خیال رکھا جائے اور خیال رکھا ہی جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی کے میلے کی ساری رونق دم توڑ دے۔ معاشرہ مل جل کر رہنے کیلئے ہوتا ہے۔ اگر کوئی بھرے پُرے معاشرے میں رہتے ہوئے اکیلا رہنا پسند کرتا ہے، لوگوں سے برائے نام میل جول بھی نہیں رکھتا، کسی کے کام آنے سے یا کسی سے مدد لینے سے بھی گریز کرتا ہے تو پھر اُسے اپنا نفسی علاج کرانا چاہیے۔ لوگوں میں رہتے ہوئے اُن سے الگ تھلگ رہنا ذہنی یا نفسی عارضہ نہیں تو اور کیا ہے؟ دُنیا سے غرض نہیں رکھنی تو دُنیا سے کنارہ کش ہوا جائے۔ لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے اُن سے الگ تھلگ رہنا حماقت اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
ایک بڑا نفسی عارضہ یہ بھی ہے کہ اپنے وجود کو بھلاکر دوسروں میں گم رہا جائے۔ جی ہاں‘ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو آسانی سے شناخت کرسکتے ہیں جو اپنے بیشتر اہم معاملات کو یکسر نظر انداز کرکے دوسروں کے معاملات میں غیر ضروری طور پر بہت زیادہ دلچسپی لیتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگی کو داؤ پر لگاکر دوسروں کے معاملات درست کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ اِس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ وہی جو ہونے چاہئیں۔ دوسروں کے معاملات میں غلطاں رہنے والوں کو آپ ذہنی اعتبار سے منتشر پائیں گے۔ ایسے لوگ اپنے معاملات کی درستی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتے۔ دے ہی نہیں سکتے! دوسروں میں گم رہنے سے فرصت ملے تو کچھ سوچیں نا۔ خود غرضی کیا ہے؟ یہ کہ انسان صرف اپنی ذات تک محدود ہو رہے، صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین رکھے اور کسی اور کو فائدہ پہنچانے کے تصور تک سے انجان رہے۔ آپ کو اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو میل جول تو بہت رکھتے ہیں مگر کسی اور کے مفاد کا خیال رکھنے کے معاملے میں انتہائی درجے کی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھلا کون پسند کرے گا؟ اپنے معاملات کو احسن طریقے سے سمجھنے اور برتنے کی کوشش کو خود غرضی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ خود غرضی اور خود شناسی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہر وہ انسان خود شناس ہے جو اپنی صلاحیت و سکت کو اچھی طرح جانتا ہے اور اُنہیں بروئے کار لانے کے معاملے میں دیانت و جاں فشانی پر یقین رکھتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے فائدے کا ضرور سوچتے ہیں مگر اِس کے لیے وہ لازمی طور پر دوسروں کا نقصان کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔
حقیقت پسندی اِس کے سوا کیا ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے، اپنی مشکلات پر نظر رکھے، اپنی صلاحیت و سکت کو پرکھتا رہے، ضرورت کے مطابق اپنے معاملات کی درستی کے لیے متحرک رہے اور ضروری ہو تو دوسروں سے مدد لے یا اُن کی مدد کرے۔ ہمیں اپنے ماحول میں ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں جو خالص حقیقت پسندی کو بروئے کار لاتے ہوئے جی رہے ہوں۔ اِس کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ بیشتر افراد کو چھوٹی عمر سے حقیقت پسند سوچ اپنانے کے تربیت نہیں دی جاتی۔ وہ جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہی قبول کرتے جاتے ہیں اور پھر ماحول میں پائی جانے والی عمومی سوچ ہی اُن کی فکری ساخت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو بھی حقیقت پسندی پر مبنی سوچ اپناتا ہے وہ ہمیں عجیب دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت پسندی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے، بہت سے معاملات میں بالکل درست طرزِ فکر اپنانے کی تحریک دیتی ہے۔ حقیقت پسندی ہی انسان کو اپنی صلاحیت و سکت کی حدود میں رہتے ہوئے فیصلے کرنے اور اُن پر کاربند رہنے کی توفیق عطا کرتی ہے۔
بالعموم کون لوگ زیادہ خوش اور مطمئن رہتے ہیں؟ اِس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے، گھنٹوں نہیں بلکہ دِنوں تک بحث کی جاسکتی ہے۔ انسان کو خوش اور مطمئن رکھنے والے عوامل بہت سے ہوتے ہیں۔ اِس دنیا میں ایسا بہت کچھ ہے جو دِل کو خوش رکھنے میں قابلِ رشک حد تک معاون ثابت ہوتا ہے۔ کوئی بہت دولت پاکر مطمئن ہوتا ہے اور کوئی علم و فن کی دنیا میں آگے بڑھنے پر زیادہ مسرت محسوس کرتا ہے۔ کسی کو لوگوں کی خدمت کرنے میں سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ ایسے بدبخت بھی ہیں جو دوسروں کا مال ہڑپ کرنے میں زیادہ خوش محسوس کرتے ہیں! توجہ اور دیانت سے جائزہ لیجیے تو ہر وہ انسان آپ کو بھرپور مسرت کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہوا ملے گا جو اپنی صلاحیت و سکت اور حالات سے مطابق رکھنے والے فیصلے کرنے کا عادی ہو اور اپنی یہ عادت محض لوگوں یا حالات کے دباؤ کے تحت ترک نہ کرتا ہو۔ ہر انسان کو اول و آخر اپنی ذات کی حدود میں سمٹنا ہوتا ہے۔ معیاری انداز سے جینا یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کریں اُس میں اپنے حالات کو ذہن نشین رکھیں۔ کسی بھی معاملے میں کیے جانے والے فیصلے کا اچھا یا برا نتیجہ صرف ہمارے لیے ہوتا ہے۔ اگر ہم غیر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیسے تیسے کوئی غیر دانش مندانہ فیصلہ کر گزریں گے تو اُس کا منطقی (ناموافق) نتیجہ بالآخر ہمیں ہی بھگتنا ہوگا۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے اور کسی بھی طرف سے غیر ضروری دباؤ قبول نہ کیا جائے۔
ماحول ہم پر بہت دباؤ مرتب کرتا ہے۔ ہمیں کبھی کبھی اپنی مرضی کے خلاف بھی جانا پڑتا ہے۔ اگر کبھی ایسی مشکل آن پڑے تو بہرحال اپنی مرضی یا مفاد سے بھی ایک خاص حد تک ہی دستبردار ہوا جاسکتا ہے۔ ہمارے لیے سب سے بڑھ کر اپنا مفاد ہوتا ہے۔ لازم نہیں کہ اِس کے لیے دوسروں کے مفاد کو نظر انداز کردیا جائے۔ معقول انسان وہ ہے جو اپنا تو بھلا چاہے؛ تاہم کسی کا برا نہ چاہے۔ اِس معیار کو ذہن نشین رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے والے بالعموم خوش رہتے ہیں۔ دنیا کو دیکھ کر یا اُس کی خوشی کی خاطر کیے ہوئے فیصلے کس حد تک جائز یا درست ہیں؟ ایک خاص حد تک اور اُس حد کا تعین بھی آپ ہی کو کرنا ہے۔ آپ کا ہر فیصلہ آپ کے حالات کی متعین کی ہوئی حدود میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ دوسروں کی خوشی کے لیے کیے جانے والے فیصلوں میں آپ کی اپنی دل بستگی کا سامان کم ہی ہوتا ہے۔ وہی فیصلے جاندار اور بارآور ہوتے ہیں جو اپنے حالات کی روشنی میں کیے جائیں۔ دنیا کو دیکھ کر یا اُس کی خوشی کی خاطر کیے جانے والے فیصلے زیادہ کارگر اور بارآور ثابت نہیں ہوتے۔ آج کی دنیا میں فیصلوں کی بہت اہمیت ہے۔ ایک طرف امکانات اور مواقع بہت ہیں اور دوسری طرف تباہی کے سامان اور امکانات بھی کم نہیں۔ اگر کوئی شخص غلط فیصلہ کرے اور غیر معمولی مالی نقصان پہنچے تو ازالے میں باقی زندگی کھپ جاتی ہے۔ اب سوچ سمجھ کر جینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ دنیا ایسی الجھی ہوئی ہے کہ کوئی ایک غلط فیصلہ پوری زندگی کو داؤ پر لگاسکتا ہے۔ حقیقت پسندی ہر عہد میں ناگزیر تھی مگر اب تو اِس کا معاملہ کچھ زیادہ ہے۔
آج کے ہر انسان کو صرف اور صرف خالص حقیقت پسندی کے ساتھ ہی جینا چاہیے۔ اپنے معاملات اپنے حالات کی حدود میں رہتے ہوئے طے یا درست کرنے چاہئیں۔ آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے حقیقت پسندی کی روش ترک کردی ہے اور دیکھا دیکھی کی راہ پر گامزن ہیں۔ دیکھا دیکھی سے کیے جانے والے فیصلے ہمیں مشکلات سے دوچار کرتے ہیں۔ فیصلہ کرتے وقت کسی کی خوشی نہیں بلکہ اپنی سکت اور سہولت دیکھی جاتی ہے۔ کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنا نقصان کر بیٹھنا کسی بھی درجے میں دانش مندی نہیں۔ حقیقت پسندی ہی ہماری حقیقی راہ نما ہوسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں