ہر انسان اہم ہے۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جس کا کوئی نہ کوئی مصرف نہ ہو، اہمیت نہ ہو۔ قدرت نے ہر انسان کو کسی نہ کسی خاص مقصد کی تکمیل اور حصول کے لیے خلق کیا ہے۔ انسانوں سمیت کوئی بھی مخلوق بے مقصد و بے مصرف نہیں۔ مقصدِ تخلیق ہی خالق کا پتا دیتا ہے۔ ہمارا سماجی ڈھانچا ایسا ہے کہ جس میں بظاہر کوئی خاص خوبی نہیں ہوتی‘ وہ بھی اپنے آپ کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ عام آدمی کی سوچ یہ ہے کہ وہ بہت کچھ کرسکتا ہے مگر لوگ ہیں کہ اُس پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں! ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ کسی خاص تیاری کے بغیر اور کچھ بنے بغیر ہی اپنے آپ کو غیر معمولی وقعت کا حامل سمجھنے لگتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے عام آدمی کو اِس مغالطے میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ غیر معمولی صلاحیت و سکت کا حامل ہے مگر دنیا اُس سے مستفید ہونے کو تیار نہیں۔ یہ مغالطہ بہت سوں کو تباہ کرچکا ہے اور تباہی کا یہ سلسلہ رُکا نہیں۔
ہر معاشی اور معاشرتی ڈھانچے میں لوگوں کے لیے پنپنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ گنجائش زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہاں بیشتر معاملات اپنے اصل مقام پر ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کوئی نوجوان اپنی صلاحیت و سکت اور لگن کو بروئے کار لانے کے بارے میں سوچتا ہے تو راہیں آسانی سے سوجھتی ہیں۔ وہاں پورا معاشرہ ہر باصلاحیت نوجوان کی معاونت کے لیے حاضر ہے۔ حکومتی نظام بھی ایسا ہے کہ ہر باصلاحیت نوجوان کو اپنی مرضی کے مطابق موافق شعبے میں آگے بڑھنے کی گنجائش دکھائی دیتی ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے‘ کر گزرتا ہے۔ سیاست بھی اتنی آلودہ نہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی لیاقت سے کسی بھی منصب تک پہنچ سکتا ہے۔ انگلینڈ میں ایشیائی نژاد باشندوں کا میئر اور وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنا اِس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ وہاں صرف صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے۔ جس میں دم ہوتا ہے اُسے آگے بڑھنے دیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے ہی ترقی و خوش حالی سے ہم کنار رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں اب تک ایسا ماحول پیدا نہیں ہوا جس میں ہر باصلاحیت فرد کو اُس کی مرضی کے مطابق کام کرنے کا موقع ملے اور وہ تیزی سے آگے بڑھ سکے۔ نئی نسل میں صلاحیت بھی کم نہیں اور کام کرنے کی لگن بھی خوب پائی جاتی ہے مگر پھر بھی اُسے زیادہ آگے جانے کا موقع نہیں ملتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے والے عوامل کم ہیں۔ ایسا ماحول مجموعی طور پر ناپید ہے جس کے ذریعے کسی بھی نوجوان کو تیزی سے آگے بڑھنے کی راہ ملے۔ سماجی سطح کی پیچیدگیاں معاشی معاملات کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مالی منفعت کے حصول کی خواہش لوگوں کو سماجی اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی نوعیت کی پیچیدگیوں سے دوچار کر رہی ہے۔ عمومی سطح پر پایا جانے والا ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک بہت اہم ہے اور اُس کی اہمیت کو سمجھنے والے کم ہیں۔ اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کو قدرت نے کسی نہ کسی مصرف کے لیے خلق کیا ہے۔ کسی بھی انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لیے خلق کیا ہے اُس کام کے کیے جانے کی گنجائش اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اپنی صلاحیت و سکت کو پہچانتا ہے، کام کرنے کی لگن پیدا کرتا ہے اور اپنے لیے کوئی واضح ہدف بھی متعین کرتا ہے۔ اِس مرحلے سے گزرے بغیر اپنے آپ کو کسی کے لیے کام کا سمجھنا‘ اہم گرداننا محض سادہ لوحی ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو کسی کے لیے بھی بہت اہم گردانتے ہیں۔ ہم اپنی صلاحیت و سکت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ ہم میں کام کرنے کی لگن کس قدر ہے‘ یہ بھی ہم اچھی طرح جانتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کسی کو ہماری صلاحیت و سکت اور کام کرنے کی لگن درکار ہے یا نہیں۔ اگر ہم بہت اہم ہیں تب بھی سب کے لیے اہم ہوں یہ لازم نہیں‘ ناگزیر نہیں۔ کوئی بھی شخص جب کسی کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اُسے اپنی ضرورت کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ کوئی کتنا ہی باصلاحیت ہو، مہارت کا حامل ہو، سکت بھی رکھتا ہو اور کام کرنے کی لگن کے معاملے میں بھی اعلیٰ درجے کا حامل ہو تب بھی اُس سے استفادہ اُسی وقت کیا جاسکے گا جب اُس کی ضرورت محسوس ہوگی اور یہ استفادہ بھی وہی کرے گا جسے اُس کی ضرورت محسوس ہوگی۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر قابل شخص سب کے لیے کام کا نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا! ہر چیز اپنے مقام پر اچھی لگتی ہے۔ تیسرے یا چوتھے درجے کی (کم بجٹ والی) فلم میں صفِ اول کا ہیرو کبھی سجتا نہیں۔ کسی چھوٹے سے، غریب بستی کے مکان میں اعلیٰ درجے کا فرنیچر اچھا نہیں لگتا۔ ایسی بستی میں کوئی مہنگی کار رکھے تو لوگ حیرت ہی سے دیکھیں گے اور متعلقہ فرد کو بے وقوف گردانیں گے۔ مزدوری کے لیے جاتے وقت مہنگے کپڑے پہننا حماقت ہی سمجھا جائے گا۔ دوسرے بہت سے معاملات میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہر چیز وہیں اچھی لگتی ہے جو اُس کا منطقی مقام ہو۔
کیا ہم ہر وقت، ہر ایک کے لیے اہم ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب نفی ہی میں ممکن ہے۔ ہم اگر غیر معمولی صلاحیت و سکت کے حامل ہوں، کام کرنے کی بھرپور لگن بھی رکھتے ہوں اور مطلوب مہارت بھی کم نہ ہو تب بھی ہم سب کے لیے کام کے نہیں ہوسکتے۔ اگر ہمیں یہ مغالطہ لاحق ہو کہ ہم بہت کام کے ہیں اور سبھی کے لیے کام کے ہیں تو اِسے سادہ لوحی کے سوا بھلا کیا سمجھا جائے گا۔ یہ سلسلہ دراز ہو تو ہم ہدفِ استہزا بھی بن سکتے ہیں۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ہم کبھی کسی کے لیے اُتنے اہم نہیں ہوتے جتنا ہم گمان کر بیٹھتے ہیں۔ اگر کسی کو ہماری ضرورت محسوس نہ ہوتی ہو اور ہم خواہ مخواہ اپنے آپ کو اُس کے لیے اہم گرداننے پر تُل جائیں تو ایسی ہر بات کو حماقت کے درجے میں رکھا جانا چاہیے۔ عمومی سطح پر یہی ہوتا ہے۔ اگر ہم غیر ضروری طور پر کسی کو یہ جتائیں کہ ہم اُس کے لیے اہم ہیں تو فریقِ ثانی ہمیں کچھ بھی گرداننے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہم کس کے لیے اہم ہیں اور کس کے لیے نہیں اِس کا تعین ہم نہیں کرسکتے، یہ کام تو فریقِ ثانی کو کرنا ہے۔ ہم کسی کے لیے اہم اُس وقت محسوس ہوں گے جب ہماری ضرورت محسوس ہوگی۔ ہم میں صلاحیت اور مہارت کے خزانے بھی بھرے ہوں تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ بلا ضرورت ہماری طرف جھکے، ہم سے استفادہ کرنے کے بارے میں سوچے؟
کسی بھی معاشرے میں کامیاب وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اہمیت ہی سے واقف نہیں ہوتے بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اُن کی اہمیت کہاں ہے یعنی کون اُن کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ کوئی غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہو اور کسی چھوٹے سے سیٹ اَپ میں اپنے لیے گنجائش ڈھونڈ رہا ہو تو اُسے ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ جس میں غیر معمولی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہو اُسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کون اُس کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ اگر وہ کسی نامناسب یا غیر متعلقہ جگہ اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرے گا تو ناکام ہی رہے گا اور ایسی ناکامی شدید مایوسی سے بھی دوچار کرے گی۔
آج ہم معاشرتی سطح پر پائی جانیوالی بہت سی پیچیدگیوں کے شکنجے میں کَسے ہوئے ہیں۔ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر مغالطے پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہم طرح طرح کے مغالطوں کے گڑھے میں گِرے ہوئے ہیں۔ حقیقت پسندی ہم سے دامن کشاں رہتی ہے۔ یا یوں کہیے ہم ہی حقیقت پسندی کا دامن تھامنا نہیں چاہتے۔ ہر انسان کو اپنے تمام حقائق کے تناظر میں اپنے وجود کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ حقیقت پسندی کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے۔ اپنے وسائل کی حدود میں جینا چاہیے۔ اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرنے پر یقین رکھنا چاہیے۔ ہاں، لگن کے معاملے میں خسارہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بھی انسان جو کچھ کرسکتا ہے وہ اُسے کرنا ہی چاہیے۔ یہی زندگی کا نچوڑ ہے‘ حاصل ہے۔ مغالطے کچھ نہیں دیتے۔ اِس گڑھے سے نکلنے ہی پر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔