آپ کس کس کو خوش رکھ سکتے ہیں؟ اہلِ خانہ کو؟ دوستوں کو؟ اعزہ و اقربا کو؟ دفتر کے ساتھیوں کو؟ اہلِ محلہ کو؟ آتے جاتے دعا سلام کرنے والے ہر شخص کو؟ کیا سب کو خوش رکھا جاسکتا ہے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ہر اُس انسان کی زندگی میں بہت اہمیت کے حامل ہیں جو مزاج کا اچھا اور سادہ ہو اور سب سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہو۔ جس کے مزاج میں پاکیزگی اور سنجیدگی ہوتی ہے وہ چاہتا ہے کہ دوسروں میں بھی یہ وصف پیدا ہو اور وہ بھی سب کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے۔ اصلاحِ نفس کہنے کو کچھ بھی نہیں اور کرنے نکلئے تو قدم قدم پر رکاوٹیں ملیں گی‘ الجھنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اِس دنیا میں جتنی بھی اچھائیاں اور بُرائیاں دکھائی دے رہی ہیں سب کی سب مزاج کے فرق کی پیدا کردہ ہیں۔ اگر سب کا مزاج یکساں ہوتا تو نہ کچھ سوچنا پڑتا اور نہ ہی عمل کی کسوٹی پر خود کو بار بار پرکھنا پڑتا۔ مزاج کے فرق ہی سے دنیا کی نیرنگی ہے۔ جس کے مزاج میں کجی ہو اور وہ اُس کجی کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہو‘ وہ سب کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اچھا، سلجھا ہوا اور نافع مزاج رکھنے والے اگر دنیا کو کچھ دینے کا سوچیں تو قدرت کی طرف سے اُن کی بھرپور مدد کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یوں اُن سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
بعض لوگوں کا مزاج ہوتا ہی کچھ ایسا ہے کہ ہر ایک کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کبھی ممکن ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اِس کا سبب سمجھنا بھی کچھ دشوار نہیں۔ مزاج کا فرق انسانوں کو مختلف درجوں میں تقسیم کرتا ہے۔ کچھ لوگ ہر وقت صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچ لیتے ہیں۔ جو صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں وہ ہمیشہ پریشان دکھائی دیتے ہیں کیونکہ کسی بھی مقام یا منزل پر رُک کر سُکون کا سانس لینا اور جو کچھ ملا ہے اُس کا شکر ادا کرنا اُن کے نصیب میں لکھا ہی نہیں ہوتا۔ اپنی ذات تک محدود رہنے کی پاداش میں قدرت کی طرف سے اُن پر محدود ذہنیت تھوپ دی جاتی ہے۔ پھر وہ کتنی ہی کوشش کریں‘ اپنے ذاتی مفادات کے دائرے سے نکل کر کچھ سوچنے اور کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ جو لوگ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچتے ہیں وہ قدرے بہتر طرزِ زندگی کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے دل پر‘ ضمیر پر کوئی زبردستی کا بوجھ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کسی کا حق نہیں مارتے۔ اِنہیں زیادہ فکر اِس بات کی لاحق رہتی ہے کہ اپنا فائدہ ہو تو دوسروں کا بھی کچھ فائدہ ہو جائے۔ یہ اپنے مفادات ترک نہیں کرتے اور دوسروں کے مفادات پر ڈاکا نہیں ڈالتے بلکہ کچھ دینے ہی کی کوشش کرتے ہیں۔
سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے والے لوگ ہر اعتبار سے قابلِ احترام ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسوں کی اکثریت پریشان رہتی ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ نہیں کہ اِن کی نیت میں کوئی کھوٹ ہے۔ اِن کا ایسا کیس تو ہے ہی نہیں۔ ہاں‘ سب کو خوش رکھنے کی کوشش اِنہیں بظاہر کسی جواز کے بغیر پریشان رکھتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ سب کو خوش رکھنے کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ قدرت کے نظام میں ایسا ہوتا ہی نہیں۔ آپ کچھ بھی کرلیں، کچھ لوگ آپ سے نالاں ہی رہیں گے اور کسی ٹھوس جواز کے بغیر آپ کے خلاف جاتے رہیں گے۔ کیوں؟ یہ اُن کے مزاج کا حصہ ہے! جس طور آپ کے مزاج میں سب کا بھلا کرنے کی خواہش گندھی ہوئی ہے بالکل اُسی طور اُن کے مزاج میں آپ سے نالاں رہنے اور آپ کے خلاف جانے کی روش پیوست ہے۔ وہ آپ کی ہر اچھی بات میں کوئی نہ کوئی سقم تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور موقع ملتے ہی آپ پر وار کریں گے۔ آپ کے ذہن میں یہ خیال بار بار گردش کرتا رہے گا کہ آپ نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا، تو پھر کوئی آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے کیوں ہے؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہر انسان اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ آپ شرافت کی راہ سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں تو کچھ لوگ خباثت ترک نہ کرنے پر بضد ہیں۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ سب کو خوش رکھنے کی ترکیب کیا ہے؟ ایسی کوئی معقول ترکیب پائی تو نہیں جاتی مگر ہاں‘ لوگ اپنے طور پر کچھ طے کرلیتے ہیں اور اُسی کو اپنے مطلب کی ترکیب سمجھ کر بروئے کار لاتے ہیں۔ عمومی سطح پر لوگ کیا چاہتے ہیں؟ عمومی ذہنیت کے تحت لوگ صرف ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں کسی کی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ کسی کو اس بات سے بظاہر کچھ غرض دکھائی نہیں دیتی کہ اُس کے مفادات کی تکمیل کسی کو اُس کے مفادات سے کس حد تک محروم کرتی ہے۔ یہ عمومی ذہنیت صرف بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو پسند کرتے رہیں، آپ سب کو راس آتے رہیں تو اِس کی ایک ایک ہی ترکیب ہے ؎
سب کو راس آنے کی لے دے کر یہی ترکیب ہے
زخم کھاتے جائیے اور مسکراتے جائیے
کسی کو اِس بات سے بظاہر کچھ خاص غرض نہیں کہ دنیا کس حال میں ہے۔ وہ اپنی دنیا میں مست رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ صرف اُس کا مطلب سیدھا ہوتا رہے۔ خالص خود غرضی کا تو یہی تقاضا ہوتا ہے۔ ایسی خود غرضی کا کیا علاج ہے؟ جب کوئی تلوار لے کر حملہ آور ہو اور سر تلوار کی زد میں آرہا ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ یا تو تلوار سے مقابلہ کرنا چاہیے یا پھر ڈھال سے تلوار کا وار روکنا چاہیے۔ اور تو کوئی چارہ نہیں! کوئی خود غرضی کی تلوار سونت کر سامنے آئے تو اپنی سادہ لوحی کے ہاتھوں گردن پیش کرنے کے بجائے حقیقت پسندی کی ڈھال سے اُس تلوار کا وار روکنا چاہیے۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ انسان اچھوں سے اچھا سلوک روا رکھے اور جو بُرے ہیں اُن کی بُرائی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے۔ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہیں دیا جاسکتا؛ تاہم یہ بھی لازم نہیں کہ ہر بار بُرائی کا بدلہ اچھائی ہی سے دیا جائے۔ ایک دو بار تو ایسا کیا جاسکتا ہے‘ متواتر نہیں۔ دینی تعلیمات بھی اِس حوالے سے واضح ہیں۔ دین نے ہمیں ہر معاملے میں اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے کی تلقین کی ہے۔ اگر کوئی بُرائی پر بضد ہو تو انتباہ کے طور پر ایک یا دو بار درگزر سے کام لیا جاسکتا ہے۔ اگر بہتری کی صورت نہ نکلے تو بُرائی کا قلع قمع کیا جاتا ہے، بُرائی کا ارتکاب کرنے والوں کو ہنس ہنس کر گلے نہیں لگایا جاتا۔ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جو ہستی سراپا رحمت تھی اُس نے بھی حجت تمام ہونے پر تلوار اٹھانے میں دیر نہیں لگائی۔ جہاں عفو و درگزر سے کام چلتا ہو وہاں عفو و درگزر اور جہاں تلوار لازم ہو وہاں تلوار۔ ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموار کرنے کا یہ انتہائی بنیادی اصول ہے۔
ہر ایک کو، کسی جواز کے بغیر، خوش رکھنے کی کوشش انسان کو مصائب سے دوچار رکھتی ہے۔ سب کو خوش رکھنا ممکن بھی نہیں اور اِس کا کوئی ٹھوس جواز یا ضرورت بھی نہیں۔ جب ہم بُرائی کے مرتکب افراد کو رام کرنے میں مصروف ہوتے ہیں تب اُنہیں بھول جاتے ہیں جنہوں نے بھلائی کی ہو اور اُس کے عوض ہم سے بھی کچھ بھلائی چاہتے ہوں۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش میں ہمیں بھلائی کرنے والوں کی بھلائی کو تسلیم کرنا اور سراہنا بھی یاد نہیں رہتا۔ ہر انسان کا دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات پر بھی برابر کا حق ہے۔ خرابیاں تو دوسروں کو نظر انداز کرنے کی صورت میں بھی پیدا ہوتی ہیں تاہم اپنے وجود کو نظر انداز کرنے کی صورت میں زیادہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں انسان اپنے کام کا رہتا ہے نہ دوسروں کے مطلب کا۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش انسان کو اِتنا الجھادیتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیت و سکت سے کماحقہٗ مستفید نہیں ہو پاتا۔ حقیقت پسندی کے زاویے سے دیکھیے تو سب کو خوش رکھنے کی خواہش اور کوشش ذہنی پیچیدگی کے سوا کچھ نہیں۔