آپ کا دشمن کون ہے یا آپ کے دشمن کتنے ہیں؟ آپ کے نزدیک دشمنی کا معیار کیا ہے یعنی کن امور کی بنیاد پر آپ کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں؟ کیا ذرا سا اختلاف کرنے والا دشمن ہوسکتا ہے؟ کیا آپ کو معمولی سا نقصان پہنچانے والا آپ کا جانی دشمن قرار دیا جانا چاہیے؟ کیا دشمن قرار نہ پانے والے ہر شخص کو دوست کے درجے میں رکھا جاسکتا ہے؟ ذہن جب سوچتا ہے تو بیسیوں معاملات کو آپس میں خلط ملط کرکے گمان اور قیاس کی بنیاد پر بہت کچھ سوچتا ہے۔ ذہن کا کام ہی سوچنا ہے۔ یہ تو ہم پر منحصر ہے کہ ذہن کیا سوچے۔ اگر ہم ذہن کو بے لگام چھوڑ دیں تو وہ کسی بھی سمت جاسکتا ہے۔ ذہن کو کسی بھی مرحلے پر بے لگام نہیں چھوڑنا۔ ایسی حالت میں وہ اپنی توانائی اور مہارت کو محض ضائع کرتا ہے۔
ہم زندگی بھر لوگوں کو پرکھتے رہتے ہیں۔ ہمیں دوستوں کی تلاش رہتی ہے مگر قدم قدم پر دشمن ملتے رہتے ہیں۔ دوست تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ دشمن بنے بنائے دستیاب ہیں۔ پھر وہی سوال ذہن کے پردے پر ابھر رہا ہے کہ دشمن آخر ہے کون۔ ہر انسان کی زندگی میں بیسیوں یا سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ ہم تنہا نہیں جی سکتے۔ اہلِ خانہ، رشتہ دار، پڑوسی، اہلِ علاقہ، رفقائے کار، احباب اور دوسرے بہت سے لوگ ہماری زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ بہت سے لوگ سمجھ میں نہیں آتے مگر پھر بھی ہم اُن سے کنارہ کش نہیں رہ سکتے۔ بسا اوقات محض مجبوری یا مصلحت کے تحت بھی تعلق نبھانا پڑتا ہے۔
کیا فکری یا ذہنی ہم آہنگی کے فقدان کو ہم دشمنی سے تعبیر کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی شخص ہمارے موقف کو درست تسلیم کرنے کے لیے راضی نہ ہو تو کیا لازم ہے کہ اُسے ہم اپنا نہ سمجھیں؟ اگر یہ روش اپنائی جائے تو پھر ہم زیادہ دور تک چل نہیں سکتے۔ اختلافِ رائے کی بنیاد پر کسی کو نظر انداز یا مسترد کرنا کسی بھی درجے میں کوئی ایسی بات نہیں جو معقول قرار دی جاسکے۔ اختلاف کسی بھی نکتے پر ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص آپ کی رائے سے مختلف رائے دے سکتا ہے۔ آپ بھی تو اختلافِ رائے کے حامل ہوسکتے ہیں۔ تو پھر دشمن کون ہے؟ یا یوں کہیے کہ وہ کون ہے جو دشمن قرار دیئے جانے کی کسوٹی پر کھرا اُترتا ہے۔ آپ کو اِس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے، زندگی جیسی نعمت سے کیوں نوازا گیا ہے؟ آپ کا مقصدِ تخلیق تو یہ ہے کہ آپ اپنے خالق و مالک کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں اور جب یہاں سے رخصت ہوں تو آپ کے پاس اِتنا کچھ ہونا چاہیے جو آپ آخرت میں پیش کرکے سرخرو ہوسکیں۔ اِس کے لیے ناگزیر ہے کہ آپ ہمہ وقت اپنے خالق کی مرضی اور مشیّت کو ذہن نشین رکھیں، اُس کی عطا کردہ ہدایات کی روشنی میں جئیں تاکہ اُخروی زندگی میں نجات کا سامان ہو۔ اپنے شب و روز کا جائزہ لیجیے، معمولات پر ایک نظر ڈالیے اور اندازہ لگائیے کہ آپ اپنے حقیقی مقصد کے مطابق جینے کے قابل ہوسکے ہیں یا نہیں۔ آپ کی صلاحیت و سکت کن مدوں میں صرف ہو رہی ہیں؟ آپ کا سب سے قیمتی اثاثہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب وقت کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ وقت سے بڑی دولت کسی کو عطا نہیں کی گئی۔ ہمیں جو سانسیں بخشی گئی ہیں وہی ہمارے لیے سب کچھ ہیں اور اِن سانسوں کو پورے شعور اور تعقل کے ساتھ بروئے کار لانا ہے۔ اِس معاملے میں تساہل کی گنجائش ہے نہ تغافل کی۔ ہر سانس پورے احساسِ ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔
آپ کو قدم قدم پر ''دشمنوں‘‘ کا سامنا رہتا ہے۔ اب معاملہ دشمن کی تعریف کے تعین تک آ پہنچا ہے۔ آپ کا حقیقی دشمن کون ہے؟ ہم سوچے سمجھے بغیر کسی کو بھی دشمن قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ایسا کرنے میں بہت سی قباحتیں ہیں۔ کسی کو دشمن قرار دینے یا سمجھنے کے لیے چند امور کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ عمومی معنوں میں دشمن وہ ہے جو نقصان پہنچائے۔ یہ اصول اپنایا جائے تو آپ کو ہر طرف دشمن ہی دشمن دکھائی دیں گے۔
آپ کو زندگی بھر طرح طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو براہِ راست حملہ آور ہوتے ہیں یعنی اُن کا بغض چھپا نہیں رہتا۔ وہ اپنے خُبثِ باطن کی بنیاد پر آپ کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو سات پردوں میں رکھنا بھی نہیں چاہتے۔ انسان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسے بہت سے لوگوں سے ربط رکھتا ہے جو اُسے کسی نہ کسی حوالے سے نقصان پہنچاتے رہتے ہیں مگر اِس کا اندازہ وقت پر نہیں ہو پاتا اور جب اندازہ یا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ آپ کے پاس وقت طے شدہ ہے۔ اِس کی مقدار بڑھائی نہیں جاسکتی۔ جتنی سانسیں لکھی گئی ہیں اُتنی ہی میسر ہیں۔ صلاحیت و سکت بھی محدود ہے۔ کوئی کتنا ہی باصلاحیت ہو، کوئی نہ کوئی تو حد ہوتی ہی ہے۔ یہی معاملہ سکت یعنی توانائی کا ہے۔ انسان ایک خاص حد تک ہی کام کرسکتا ہے، اپنی صلاحیت و مہارت کو بروئے کار لاسکتا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لائے یعنی مثبت انداز سے زندگی بسر کرتے ہوئے کچھ ایسا کرے جس سے شب و روز زیادہ آسودگی کے ساتھ گزریں۔ اس خواہش اور کوشش کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل رہتی ہیں۔ ہم زندگی بھر اِن رکاوٹوں کے تدارک کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اب اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ آپ کا دشمن کون ہے تو آپ بلا تکلف و تذبذب کہہ سکتے ہیں ہر وہ چیز اور ہر وہ انسان دشمن ہے جو راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے۔ جی ہاں، ہر انسان کے لیے حقیقی دشمن وہ ہیں جو اُس کی صلاحیت و سکت کو ضائع کرنے والے معاملات پیدا کریں۔ آپ اپنے ماحول کا جائزہ لیں جو اندازہ ہوگا کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنا وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ اِن میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جنہیں خود بھی احساس نہ ہوتا ہوگا کہ وہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ یہ اور بھی خطرناک ہے کیونکہ جسے اپنے افکار و اعمال کا کچھ اندازہ ہی نہ ہو وہ زیادہ الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ ہر طرح کے ماحول میں کچھ لوگ کسی مصرف کے نہیں ہوتے۔ اِس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ ضروری نہیں کہ انسان ریٹائرمنٹ کے بعد ہی بے مصرف رہے۔ بہت سوں کو آپ بھری جوانی میں بھی بے کار و بے مصرف پائیں گے۔ ایسے لوگ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے پر بضد رہتے ہیں۔ اِن کی اپنی زندگی میں جو کھوکھلا پن ہوتا ہے وہی کھوکھلا پن یہ دوسروں کی زندگی میں بھی بھرنا چاہتے ہیں۔ یہ روش کسی بھی اعتبار سے مستحسن تو کیا، قابلِ برداشت بھی نہیں۔
ہر وہ انسان آپ کا دشمن ہی ہے جو آپ کو فکر و عمل کی راہ سے ہٹائے، انہماک متاثر کرے، اہداف کو نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن ہونے پر مجبور کرے اور زندگی کا توازن بگاڑنے پر تُلا رہے۔ اچھی طرح جائزہ لیجیے تو آپ کو اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو اپنے آپ سے بھی مخلص نہیں ہوتے۔ جب وہ اپنے وجود سے مخلص نہیں ہوتے تو کسی اور کے لیے کیونکر مخلص ہوسکتے ہیں؟ ایسے لوگوں سے بچنا لازم ہے۔ یہ کسی بھی حوالے سے اور کسی بھی شکل میں آپ کی زندگی کا رُخ کرسکتے ہیں۔ اِن سے بچنے ہی میں آپ کی بقا ہے۔ جیسے ہی آپ ڈھیلے پڑتے ہیں یہ آپ کی زندگی سے کھیلنے لگتے ہیں۔ اِن کی اپنی زندگی میں کچھ خاص نہیں ہوتا اِس لیے یہ دوسروں کی زندگی کو بھی خالی خالی سا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ یہ اچھا خاصا نفسی عارضہ ہے جس کا علاج کرایا جانا چاہیے۔ اب مصیبت یہ ہے کہ جو لوگ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے پر تُلے رہتے ہیں وہ اصلاً تو دشمنوں والا ہی کام کر رہے ہوتے ہیں مگر اپنے آپ کو ذہنی یا نفسی مریض ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اپنا بہت خیال رکھیے اور وقت و توانائی ضائع کرنے والے ''دشمنوں‘‘ سے محتاط رہیے۔ اس معاملے میں تساہل کی گنجائش ہے نہ تغافل کی۔