معاشرے کب فروغ پاتے ہیں؟ کیا محض مادّی ترقی کو معاشرے کا فروغ قرار دیا جاسکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ آسائشوں کا حصول یقینی بنانا ذمہ داریوں سے بطریقِ احسن سبکدوش ہونا ہے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوال ہر اُس انسان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں جو معاشرے کے اجتماعی مفاد کے بارے میں سوچنے کا رجحان رکھتا ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں مجموعی ماحول روا روی کا ہوتا ہے یعنی ہر طرف معمول کی زندگی دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ لوگ خالص حیوانی سطح پر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ کیوں؟ سبھی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں۔ خالص حیوانی سطح کیا ہے؟ پیٹ بھرنے، تن ڈھانپنے اور اور سر چھپانے کے ٹھکانے کا اہتمام کرنے سے زیادہ نہ سوچنا۔ انسان کو روٹی، کپڑا اور مکان کی ذہنیت سے بہت آگے جاکر سوچنا ہوتا ہے۔ اُسے گزرے ہوئے زمانوں کے تجزیے سے موجودہ اور آنے والے زمانے کی تشکیل و تطہیر کرنا ہوتی ہے۔ اگر وہ اس کام میں دلچسپی نہ لے تو زندگی کا معیار بلند نہیں کرسکتا۔
ہر عہد میں کسی بھی معاشرے کے وابستگان کی اکثریت عمومی یعنی خالص حیوانی سطح کی زندگی ہی بسر کرتی آئی ہے۔ معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے بارے میں سوچنا عام آدمی نے کبھی اپنی ذمہ داریوں میں نہیں گردانا۔ اُس کے نزدیک زندگی صرف اِتنی ہے کہ کسی نہ کسی طور زندہ رہیے اور سانسوں کی گنتی پوری ہونے پر اِس دنیا سے رخصت ہوجائیے۔ تو پھر معاشرے کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ویسے تو یہ کام ہر اُس انسان کو کرنا ہے جسے قدرت نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ جو لوگ سوچنا اور سمجھنا جانتے ہیں وہی معاشرے کی بہتر تعبیر و تشریح کرسکتے ہیں اور خامیوں کو دور کرنے میں اپنا کردار بطریقِ احسن ادا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ سوچنے والے مختلف سطحوں اور درجوں کے ہوتے ہیں۔ عام آدمی بھی تھوڑی سی محنت سے سوچنا سیکھ لیتا ہے مگر وہ معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی راہ پر زیادہ دور نہیں جاسکتا۔ اس کی صلاحیت و سکت بہت تیزی سے جواب دے جاتی ہے۔
معاشرے میں پیدا ہو جانے والے بگاڑ کو دور کرنے کے حوالے سے کلیدی کردار اگر واقعی کسی کو ادا کرنا چاہیے تو وہ ہیں اہلِ علم و فن۔ اِن میں شعرا، ادیب، فلسفی، تجزیہ کار اور فنکار بھی شامل ہیں اور اساتذہ بھی۔ نئی نسل کی ذہنی تربیت میں کلیدی کردار اساتذہ کا ہوتا ہے کیونکہ وہی نئی نسل سے ربط کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ اُس کی ضرورتیں کیا کیا ہیں اور اُن ضرورتوں کو کس طور پورا کیا جانا چاہیے کہ ملک قوم کے لیے نئی نسل زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت ہو۔ تاجر کو تجارت سے غرض ہوتی ہے۔ وہ بھی معاشرے کا ہمدرد ہوسکتا ہے؛ تاہم اُس کی حقیقی اور بنیادی دلچسپی مال کمانے سے ہوتی ہے۔ دکان دار کو دکان داری سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ صنعت کار اپنے صنعتی یونٹ کو چلانے کی فکر میں غلطاں رہتا ہے۔ مختلف شعبوں میں غیر معمولی عملی تجربہ رکھنے والے کاریگر یعنی عام شہری بھی بالعموم اس بات سے غرض رکھتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام ہوتا رہے۔ اُن کی ذہنی سطح بھی اِتنی پست ہوتی ہے کہ معاشرے کے لیے کچھ کرنے کا تصور اُس میں بالعموم پایا نہیں جاتا۔
معاشرے کے لیے اگر سوچنا ہے تو اہلِ علم و فن کو سوچنا ہے۔ اساتذہ اس معاملے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ نئی نسل کے ذہنوں کی آبیاری اِس طریق سے کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو آنے والے زمانوں کے لیے بہتر طور پر تیار کریں اور ملک کے لیے کچھ کرنے کی ٹھانیں۔ نئی نسل میں جوش و جذبے کی کمی نہیں ہوتی مگر وہ شعور کے معاملے میں زیادہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ عملی زندگی کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہونے کے باعث وہ بہت سے معاملات کو اُن کی اصل کے ساتھ سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ اہلِ علم و فن میں شعرا، ادیب اور مفکر یا فلسفی نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں۔ اس درجہ بندی میں مصور بھی ہوتے ہیں اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد بھی مگر اُن کا بنیادی تعلق سوچنے سے نہیں ہوتا اِس لیے وہ نئی نسل کے ذہنوں کی تہذیب و تطہیر میں اپنا کردار خاطر خواہ حد تک ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اساتذہ کا تو کام ہی پڑھنا پڑھانا ہے اِس لیے اُن کے بارے میں پورے تیقن سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو نئی نسل کو سوچنا بھی سکھا سکتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں بہتر حکمتِ عملی تیار کرنے کے قابل بھی بناسکتے ہیں۔
شعرا و ادیب معاشرے کی سمت کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اُن کی فکری کاوشیں عام آدمی کو بھی سوچنے کی تحریک دے سکتی ہیں۔ اُنہیں معاشرے کو راہ دکھانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ علم و فن کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام پر معاشرے کی اصلاح اور فروغ کے لیے کوئی نہ کوئی کردار ادا کر ہی رہا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا باریک بینی سے جائزہ لیجیے، تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہاں اہلِ علم و فن اپنا معاشرتی کردار کبھی فراموش یا نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاشرے کو درست سمت دینے میں اگر کوئی کردار ادا کرنا ہے تو اُنہی کو کرنا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کاروباری طبقے نے کبھی حقیقی راہ نمائی کا فریضہ انجام نہیں دیا۔ کاروباری شخصیات اور گروپ بھی معاشرے کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں مگر ایک خاص حد تک۔ یہ حد بہت جلد آ جاتی ہے۔ سوچنے، لکھنے اور تجزیہ کرنے والے ہی معاشرے کو آگے لے جاتے ہیں۔ معاشرے کو درست سمت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بھرپور جذبۂ عمل دینے میں بھی بنیادی کردار اُنہی کا ہوا کرتا ہے۔ یہ ہر دور کا معاملہ ہے۔ اب ذرا اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیے اور اندازہ لگائیے کہ ہمارے ہاں اہلِ علم و فن کیا کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ حقیقی اہلِ علم و فن ہیں کتنے اور کیا اُن میں سب اس قابل ہیں کہ اُنہیں اہلِ علم و فن قرار دیا جائے۔ ہمارے ہاں اساتذہ کا عمومی معیار دیکھ کر صرف افسوس ہوسکتا ہے۔ جنہیں نئی نسل کو آنے والے زمانوں کے لیے تیار کرنا ہے وہ خود انتہائی ناگفتہ حالت میں ہیں۔ سرکاری شعبے میں اساتذہ کے نام پر بھرتی کیے جانے والوں کی علمی سطح سطح دیکھ کر محض افسوس ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ جن کا اپنا کوئی معیار نہ ہو وہ نئی نسل کا معیار کیا بلند کریں گے!
لکھاریوں اور تجزیہ کاروں کو دیکھنیء پر بھی ویسا ہی افسوس اور دکھ ہوتا ہے جیسا اساتذہ کو دیکھنے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جنہیں معاشرے کی بہتری کے لیے لکھنا ہے وہ صرف اپنی جیب بھرنے میں مصروف ہیں۔ کامیاب ترین معاشروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے بھرپور ترقی اور خوش حالی اُسی وقت یقینی بنائی جب سوچنے اور لکھنے والوں نے اپنا فرض پہچانا اور خود کو اس کام کے لیے وقف بھی کیا۔ یورپ میں پانچ سو سال قبل اہلِ علم و فن نے جب یہ محسوس کیا کہ پستی کی حد ہوچکی ہے تب اُنہوں نے مل جل کر معاشرے کے لیے حقیقی راہ نما اور مصلح کا کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچا اور اِس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی بھی ٹھانی۔ یورپ میں ہزاروں اہل علم نے اپنے آپ کو معاشرے کی حقیقی اصلاح کے لیے مختص کیا اور صلے کی پروا یا ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنے حصے کا کام کرتے رہے۔ ہزاروں لکھاریوں، دانشوروں اور فنکاروں نے معاشروں کو بدلنے کے بارے میں انتہائی درجے کی سنجیدگی اختیار کی اور دنیا کو بتایا کہ جنہیں سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے، لکھنے اور پرکھنے کا وصف عطا کیا گیا ہے اُنہیں معاشرے کی عمومی بہتری کے لیے اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کرنا چاہیے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ معاشرہ تو پستی میں گرا ہوا ہی ہے، جنہیں معاشرے کو اس پستی سے نکالنا ہے وہ بھی پست ہیں۔ جو تھوڑے بہت اہلِ علم و فن رہ گئے ہیں وہ بھی دن رات مال بنانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ اساتذہ سمیت تمام اہلِ علم و فن کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ کل کو اُن سے اس بارے میں پوچھ گچھ ہونی ہے۔