"MIK" (space) message & send to 7575

کچرا ہی کیوں نہ باقی بچے؟

عادتیں اگر پختہ ہو جائیں تو مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں اور فطرت کا حصہ معلوم ہونے لگتی ہیں۔ انسان طبعاً قباحت پسند بھی واقع ہوا ہے۔ اگر خود میں کوئی قباحت نہ ہو تو دوسروں میں قباحت تلاش کرتا ہے اور یوں خود بھی قباحت سے ''ہم کنار‘‘ ہو رہتا ہے۔ کوئی بھی چیز کب قبیح ہوتی ہے؟ جب وہ بالعموم کسی کام کی نہیں رہتی یا اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر‘ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ اس معیار پر پرکھیے تو ہمارے ہاں اب صرف قباحتیں رہ گئی ہیں۔ گویا ع
جس طرف آنکھ اُٹھاؤں‘ تری تصویراں ہیں
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف صرف اور صرف کچرا دکھائی دے رہا ہے۔ کچرا اس لیے دکھائی دے رہا ہے کہ ہے ہی کچرا۔ بہت کچھ ہے جو حقیقت پر مبنی ہے مگر ہم متوجہ نہیں ہوتے، تسلیم کرنے سے انکاری رہتے ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رکنِ قومی اسمبلی سائرہ بانو نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ دنیا بھر میں کچرے سے بجلی بنائی جارہی ہے اور ہم کچرے سے پارٹیاں بنارہے ہیں! ایک سائرہ بانو وہ ہیں جو ماضی کی باصلاحیت و معروف اداکارہ اور یوسف خان (دلیپ کمار) کی بیوہ ہیں۔ وہ چونکہ اداکارہ ہیں اِس لیے یہ بات گھما پھراکر بھی کہہ سکتی تھیں۔ جی ڈی اے کی سائرہ بانو کا اداکاری سے کوئی تعلق نہیں اِس لیے سیدھی بات کہہ دی یا یوں کہیے کہ سیدھا سُر لگادیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اُس پر ہم اِس سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
یہ بات سائرہ بانو ہی کہہ سکتی تھیں کیونکہ جس کچرے سے پارٹیاں بنائی جاتی ہیں اُس کی پہچان اُن سے زیادہ کسے ہوسکتی ہے۔ وہ خود سیاست میں ہیں اور اچھی طرح جانتی ہوں گی کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کس طور تشکیل پاتی ہے۔ اُن کی عمر تو اِتنی نہیں کہ دنیا بھر کا تجربہ گفتگو میں در آئے مگر پھر بھی سیاسی ماحول میں موجودگی اور تربیت کے مواقع نے اُنہیں کچرے کی اچھی خاصی پہچان کرادی ہوگی وگرنہ اپنے ہی شعبے کے بارے میں ایسی بات اِتنے یقین سے کون کہہ سکتا ہے؟ بہر کیف‘ کچرا پھر کچرا ہے۔ کوئی تسلیم و قبول کرے یا نہ کرے، کچرا اپنی جگہ رہتا ہے، کہیں جاتا نہیں۔ اور ہمارے ماحول سے تو کچرا یوں بھی کہیں نہیں جانے والا کہ ہم اُسے جان و دل سے چاہتے ہیں۔ ہر معاملے میں کچرے ہی کا بول بالا ہے۔ جو چیز کہیں نہیں چلتی وہ پاکستان میں چل جاتی ہے۔ اور چلتی بھی ایسی ہے کہ دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔ ہم کچرا پسند واقع ہوئے ہیں۔ کچرے پر جان و دل سے نثار ہونا ہم سے بڑھ کر شاید ہی کسی کو آتا ہو۔
آج ہمیں اپنے اطراف یعنی پورے ماحول میں قدم قدم پر جو کچرا دکھائی دے رہا ہے وہ کس کا پیدا کردہ ہے؟ محض حالات کا؟ کیا یہ سب محض اتفاق کا نتیجہ ہوسکتا ہے؟ اس کچرے کی پیدائش میں اور اِسے پروان چڑھانے میں ہمارا کوئی کردار نہیں؟ کیا ہم اِس معاملے میں اپنے آپ کو ہر اعتبار سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ کیا ایسا ہے کہ محض 'ڈِس اون‘ کرنے سے یہ کچرا غائب ہو جائے گا، کہیں چلا جائے گا، ہمارے راستے سے ہٹ جائے گا؟ اطمینان رکھیے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ ہمارے ماحول میں‘ ہماری زندگی میں پایا جانے والا کچرا خود بخود غائب نہیں ہوگا اِس لیے کہ یہ خود بخود پیدا بھی نہیں ہوا۔ جو چیز ہمارے شعور یا تحت الشعور کا نتیجہ ہے وہ بھلا ہمارے نظر انداز کرنے سے کیوں غائب یا ناپید ہونے لگی؟ آج ہمیں اپنے تمام معاملات میں جو خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ ہماری اپنی، دانستہ یا ناداستہ، کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ ہم نے بہت کچھ ہونے دیا ہے تو وہ یہاں تک پہنچا ہے ؎
خِشت اول چُوں نہد معمار کج
تا ثُریا می رود دیوار کج
یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تو پھر اُس پر اُٹھائی جانے والی دیوار چاہے سات ستاروں کے جھرمٹ تک جائے، ٹیڑھی ہی رہے گی۔ دیوار خود بخود ٹیڑھی نہیں ہوتی، معمار غلطی کرتا ہے تو دیوار میں ٹیڑھ کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ محض دیوار کو مطعون کرنا مسئلے کا حل نہیں۔
سوال محض سیاست کی خرابی کا نہیں۔ معاشرت اور معیشت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ سارا بگاڑ ایک طویل عمل کا نتیجہ ہے۔ اس طویل عمل میں ہمارا کردار کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ نظر انداز کردیا جائے یا احتساب سے بالا تر قرار دیا جائے۔ کسی بھی معاشرے میں خرابیاں اُسی وقت پروان چڑھتی ہیں جب اُنہیں پروان چڑھنے دیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔ آج ہم اپنے ماحول میں جو خرابیاں دیکھ رہے ہیں وہ راتوں رات پروان نہیں چڑھیں اور خود رَو بھی نہیں۔ ذمہ داری قبول کیے بغیر ہم تدارک کے بارے میں کچھ سوچ سکتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ کس شعبے میں کچرا سب سے زیادہ ہے؟ کہنے کو یہ سوال کچھ بھی نہیں یعنی کسی بھی شعبے کا نام لیجیے اور جان چھڑایے مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس ایک سوال کا معقول ترین جواب سوچنے بیٹھیے تو دماغ کی چُولیں ہلنے لگتی ہیں۔ آپ ہی بتائیے جب کچرے کے لحاظ سے بدترین شعبے کا تعین کرنا ہو تو کس کا نام لیجیے، کس پر الزام دھرا جائے؟ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ع
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
بعض شعبے اِتنی اور ایسی خرابیوں سے دوچار ہیں کہ اگر اُن کے بارے میں سوچئے تو تھوڑی ہی دیر میں ذہن کسی کام کا نہیں رہتا۔ بعض شعبوں میں خرابیاں اگرچہ کم ہیں مگر اِتنی کم بھی نہیں کہ سُکون کا سانس لیا جائے۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں پورے یقین اور فخر سے کہہ سکیں کہ اُس کی خرابیاں برائے نام ہیں اور اُمید کا دامن چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی کچرے کا ڈھیر ہیں مگر ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ تمام معاملات کے لیے صرف اور صرف سیاسی جماعتوں کو مطعون کرکے سکون کا سانس لیا جائے۔ سیاسی جماعتیں آسمان سے نہیں اُتریں۔ اُنہیں چلانے والے یعنی قائدین ہم میں سے ہی ہیں اور جن لوگوں سے یہ جماعتیں بنی ہیں وہ بھی (یعنی کارکن اور ہر سطح کے عہدیدار) ہم ہی میں سے ہیں۔ ہم صرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر تنقید کے ڈونگرے برساکر‘ اُنہیں گالیاں دے کر دل کی بھڑاس تو نکال سکتے ہیں مگر اس عمل سے اپنے معاملات کی خرابی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ عمومی مشاہدے کی بات یہ ہے کہ عام آدمی کو معطون کرنے کے لیے انتظامی مشینری میں صرف ایک آدمی آسانی سے مل جاتا ہے اور وہ ہے پولیس اہلکار۔ ایسا اس لیے ہے کہ پولیس اہلکار عوام ہی میں اور اُن سے رابطے میں رہتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں حکومت یا انتظامی مشینری کے خلاف پایا جانے والا سارا غصہ پولیس اہلکاروں پر اُترتا ہے۔ وہ بے چارے گالیاں بھی سنتے ہیں اور پتھر بھی کھاتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے احتجاج کا حق ادا ہو جاتا ہے۔ سوال سیاستدانوں یا پولیس اہلکاروں پر تنقید کرنے، اُنہیں گالیاں دینے یا اُنہیں زد و کوب کرنے کا نہیں۔ عام آدمی کو کبھی کچھ دیر کے لیے گوشہ نشین ہوکر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں اُن میں اُس کا اپنا قصور کس حد تک ہے۔ پوری دیانت سے پورے ماحول کا تجزیہ کرنے کی صورت میں احتسابِ نفس کی بھی راہ ہموار ہوتی ہے۔
کوئی بھی معاشرہ چند افراد یا چند شعبوں کی خرابی سے خراب نہیں ہوتا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے تب یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ چند افراد یا چند شعبوں کا کیا دھرا نہیں ہوسکتا۔ کچرے سے پارٹیاں بنائی جارہی ہیں تو اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم کچرا پسند ہیں، کچرے سے بنی ہوئی پارٹیوں کو گلے لگاتے ہیں۔ ہم ووٹ کاسٹ کرتے وقت ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ ووٹ کے ذریعے ہم حکمران چننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ جس فرد کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہوں کہ کہ سر سے پاؤں تک بُرائیوں میں لتھڑا ہوا ہے اُسے ووٹ دینا کچرے کو اپنی زندگی کا حصہ بننے میں مدد دینے جیسا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں