"MIK" (space) message & send to 7575

بس یہی تو زندگی ہے

آپ کیا چاہتے ہیں؟ صرف اور صرف اپنی مرضی۔ آپ کی مرضی؟ ٹھیک ہے مگر صرف آپ کی مرضی سے کیا ہوتا ہے؟ آپ سوچیں گے بہت کچھ ہوتا ہے۔ یقینا آپ کی سوچ غلط نہیں مگر یاد رکھیے کہ بہت کچھ تو آپ کی مرضی سے ہو سکتا ہے تاہم سب کچھ آپ کی مرضی سے ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ ہم سب بہت سے یا یوں کہیے کہ بیشتر معاملات میں حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ہم بہت کچھ سوچتے ہیں‘ تیاری کرتے ہیں مگر کبھی کبھی ساری کی ساری تیاری دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ بیشتر معاملات ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتے۔ جس طور ہم سوچ رہے ہوتے ہیں بالکل اسی طور دوسرے بھی تو سوچ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ منصوبے ہمارے ہوتے ہیں اور کچھ دوسروں کے۔ جب منصوبے ٹکراتے ہیں تو معاملات کے اونٹ کو کسی کروٹ تو بیٹھنا ہی ہوتا ہے۔ کوئی ہارتا ہے‘ کوئی جیتتا ہے۔ کبھی آپ کا پلڑا بھاری اور کبھی کسی اور کا۔
زندگی کا حُسن بہت سے معاملات میں مضمر ہے۔ اس حوالے سے رائے طلب کیجیے تو ''جتنے منہ اُتنی باتیں‘‘ والا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ زندگی کی دل کشی بہت سے معاملات میں پوشیدہ ہے۔ ہم ان میں سے بیشتر معاملات کو بالعموم نظر انداز کردیتے ہیں یا پھر قدرے بے نیازی (یعنی لا اُبالی پن) کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ زندگی کا حُسن بہت حد تک اس امر میں پوشیدہ ہے کہ معاملات پردۂ غیب میں رہیں۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں کچھ نہ جانتے ہوں تب ڈھنگ سے سوچنے اور کچھ کر گزرنے کی تحریک ملتی ہے۔ انسان جب نامعلوم کی سمت بڑھتا ہے تب اس میں تجسس کا مادہ غیرمعمولی حد تک ہوتا ہے۔ تجسس ہی تو ہے جس کے دم سے زندگی کے میلے کی ساری رونق برقرار ہے۔ انسان جو کچھ نہیں جانتا اسے جاننے کی کوشش میں فکر و عمل کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو منوانے کے فراق میں رہتا ہے۔ اگر کسی بھی معاملے کے منطقی نتیجے کا پہلے سے علم ہو تو انسان میں سوچنے اور عمل کرنے کی لگن ماند پڑ جاتی ہے۔
زندگی بہت سے واقعات کا مجموعہ ہے۔ جو کچھ آپ کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہو وہ واقعات کا درجے میں ہے اور دوسروں کے جو واقعات آپ کو ہر حال میں جھیلنا پڑتے ہیں انہیں حالات کہا جاتا ہے۔ مفادات کا تصادم حالات و واقعات کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کبھی کبھی معاملات ہمارے لیے تھوڑے موافق بھی ہوتے ہیں مگر خیر‘ حالات اور معاملات کے موافق ہونے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنی آسانی کے لیے یا یوں کہیے کہ اپنی مشکلات کے تدارک کے لیے کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ کرنا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم کچھ کرتے ہیں تب زندگی کو معیاری انداز سے بسر کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ زندگی پورے شعور کے ساتھ جینے کا نام ہے۔ اور ہاں‘ یہ سب کچھ نامعلوم سے معلوم کی سمت کا سفر ہو تو بہت اچھا۔
جب بہت کچھ معلوم نہیں ہوتا تب انسان تجسس کے ہاتھوں ایک عجیب ہی لگن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ وہ بہت کچھ جاننا چاہتا ہے۔ اگر خود بہ خود بہت کچھ معلوم ہو جائے تو جاننے کا سارا لطف جاتا رہتا ہے۔ زندگی کا سارا حُسن اور سارا لطف اسی بات میں تو ہے کہ ہمیں بہت کچھ معلوم نہ ہو‘ ہماری تگ و دو جاری رہے اور اس تگ و دو کا پھل ملتا رہے۔
زندگی کے بارے میں بہت سوں نے بہت کچھ سوچا اور کہا ہے۔ جان لینن نے بھی کیا خوبصورت بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں ''جب ہم بہت سے دوسرے منصوبے تیار کر رہے ہوتے ہیں تب جو کچھ رونما یا واقع ہوتا ہے اسے زندگی کہتے ہیں!‘‘ اس ایک جملے میں مفاہیم کا سمندر موجزن ہے۔ کیا واقعی ایسا نہیں؟ ہم زندگی بھر کچھ نہ کچھ سوچتے رہتے ہیں‘ منصوبہ سازی کرتے رہتے ہیں‘ لائحہ عمل ترتیب دیتے رہتے ہیں مگر بہت کچھ ہے جو اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہوتا ہے اور ہمیں کسی نہ کسی طور Manage اور Adjust کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہے اور ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے ہی جینا پڑتا ہے۔
اگر نہ سوچیے تو کوئی بات نہیں۔ اگر ٹھنڈا ٹھار جینا طے کر لیا جائے تو پھر کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ہاں‘ متحرک رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے بارے میں سوچئے تو قدم قدم پر چیلنج ہیں‘ الجھنیں ہیں‘ مسائل ہیں۔ ان مسائل کو حل کیے بغیر چارہ نہیں۔ مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل کرنے کی تگ و دو ہی کا نام زندگی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہمیں پہلے سے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ جو کچھ ہو چکا ہے اس کے بارے میں سوچنے‘ غور کرنے‘ تجزیے کی منزل سے گزرنے کی صورت ہی میں ہم کچھ سمجھ پاتے ہیں۔ یہ تفہیم ہی ہمیں کچھ کرنے کا شعور‘ تحریک اور حوصلہ دیتی ہے۔ یہاں کچھ بھی خود بہ خود نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہماری زندگی میں خود بہ خود رونما ہو رہا ہوتا ہے‘ وہ بھی کسی نہ کسی کا کیا دھرا ہوتا ہے۔ واقعات کی راہ ہم ہموار کرتے ہیں اور دوسروں کے واقعات ہماری زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو حالات کہلاتے ہیں۔ حالات ہمارے اعمال کا نتیجہ نہیں ہوتے مگر کسی نہ کسی نے انہیں وجود بخشا ہوتا ہے۔
خیال و خواب کی دنیا سے ہٹ کر زمینی حقیقتوں کی دنیا میں رہنا سیکھیے گا تو اندازہ ہوگا کہ یہاں کچھ بھی اپنے طور پر نہیں ہوتا۔ اللہ نے یہ پورا نظام اس طور خلق کیا اور ترتیب دیا ہے کہ سوچنا بھی پڑتا ہے اور کرنا بھی پڑتا ہے۔ یہاں کچھ بھی خود بہ خود نہیں ہوتا۔ ہر عمل یا واقعے کی پشت پر کوئی نہ کوئی سوچ اور کوئی نہ کوئی عمل ہوتا ہے۔ محض سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا اور صرف عمل بھی سب کچھ نہیں ہوتا۔ فکر و عمل کا امتزاج ہی معاملات کو واضح (معقول یا نامعقول) شکل دیتا ہے۔ معاملات کی یہ شکل کسی کے مفادات پر ضرب لگاتی ہو تو نامعقول سمجھی جاتی ہے۔
جان لینن کی بات کتنی برحق ہے۔ ہم سوچتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ جس طور ہم سوچ رہے ہیں بالکل اسی طور دوسرے بھی تو سوچ ہی رہے ہیں۔ خیالات کا فرق مفادات کے فرق کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ بالکل فطری ہے۔ کسی کو ایک خاص حد تک ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اپنے بارے میں بالآخر آپ ہی کو سوچنا ہوتا ہے‘ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ اسرار ناروی (ابنِ صفی مرحوم) نے کہا ہے ؎
بالآخر تھک ہارکے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا‘ باقی سب افسانے ہیں
ہر انسان کو اپنی ذات سے عشق ہونا چاہیے مگر اپنی ذات سے عشق ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسروں کے بارے میں بدگمانی کو دل میں راہ دی جائے۔ اپنے مفاد کا تحفظ اچھی بات ہے مگر اس ایک مقصد کے حصول کی خاطر دوسروں کے مفادات پر خواہ مخواہ ضرب لگانا کسی بھی حیثیت میں کوئی اچھی بات نہیں۔ ہر انسان کے لیے سب سے بڑھ کر اپنا مفاد ہوتا ہے مگر اچھی تربیت انسان کو یہ بھی سکھاتی ہے کہ کسی کو نقصان پہنچاکر اپنا فائدہ یقینی بنانے میں صرف خسارہ ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ وہ سب کچھ ہماری مرضی کا نہیں اور ہمارے مفادات سے موافقت بھی نہیں رکھتا لیکن اگر ہم تھوڑی سی توجہ دیں تو بہت کچھ اپنے حق میں بھی دکھائی دے گا۔ شدید ناموافق حالات کی کوکھ سے اپنے لیے کچھ برآمد کرنا ہی تو فن ہے۔
جب آپ کو سب کچھ اپنے مفادات کے خلاف جاتا لگے تو حیران ہونے کی ضرورت ہے نہ پریشان ہونے کی۔ یہ کیفیت سب کے لیے ہے۔ جن کی آمدنی مکمل طور پر حرام ہوتی ہے کیا انہوں نے محنت نہیں کی ہوتی؟ محنت تو سبھی کو کرنا پڑتی ہے۔ چوری اور ڈکیتی میں تو محنت کے ساتھ ساتھ جان کی بازی بھی لگانا پڑتی ہے۔ خالص حلال کی آمدنی یقینی بنانے کے لیے محنت بھی کرنا پڑتی ہے اور دل و دماغ پر اچھا خاصا دباؤ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اپنے خیال و خواب کی دنیا کو ایک طرف ہٹائیے اور اس دنیا کو اس کی تمام سچائیوں‘ زمینی حقیقتوں کے ساتھ قبول کرنا سیکھیے۔ بس یہی تو زندگی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں