اِس میں کیا شک ہے کہ وقت کے ہاتھوں انسان کو بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تب یہ سلسلہ بھی ہے یعنی جو کچھ بھی سامنے آئے گا وہ برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ ہر عہد کے انسان کو اپنے حصے کے مصائب ملے ہیں۔ مصائب کو چیلنج سمجھنے کی ذہنیت موجود اور متحرک ہو تو کیا کہنے۔ ایسے میں انسان کے لیے بہت کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان مسائل کو صرف مسائل اور بوجھ سمجھ کر قبول کرتا ہے اور یوں زندگی بوجھل ہوتی جاتی ہے۔ اگر طے کرلیا جائے کہ ہر پریشانی کو صرف پریشانی کے درجے میں رکھنا ہے تو پھر بالکل معمولی نوعیت کی الجھن بھی زندگی کو داؤ پر لگانے والا معاملہ محسوس ہوتی ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں اکثریت کی سوچ یہ ہے کہ زندگی ایک بوجھ ہے جسے ہر حال میں اٹھانا ہے اور بوجھ سمجھتے ہوئے اٹھانا ہے۔ یہ ذہنیت انسان کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتی۔ ہمارے ہاں بھی معاملہ یہی رہا ہے۔ مغرب کے بیشتر معاشروں نے پسماندگی کو پچھاڑنے میں اُسی وقت کامیابی حاصل کی جب انہوں نے زندگی کے ہاتھوں ملنے والی مشکلات کو محض مشکلات تک محدود رکھنے کو ترجیح نہیں دی بلکہ اُنہیں چیلنج کے درجے میں رکھا اور اپنے آپ کو بھرپور آزمائشی مراحل سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وقت ہی مسائل کو جنم دیتا ہے اور وقت ہی انسان کی حقیقی آزمائش بھی ہے۔ اہلِ مغرب نے جب اس حقیقت کو سمجھ لیا تب اُن کے لیے خالص مادّی ترقی بہت دور کا معاملہ نہ رہی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اہلِ مغرب نے فقیدالمثال مادّی ترقی ممکن بنالی ہے، دنیا کو اگر حقیقی مادّی ترقی کا کوئی ماڈل دیکھنا ہو تو مغرب کو دیکھے اور دیکھ ہی تو رہی ہے۔ ایک دنیا ہے کہ اہلِ مغرب کی دیوانی ہے۔ کون سا خطہ ہے جس کے لوگ مغرب میں آباد ہونے کا خواب نہیں دیکھتے؟ پاکستان جیسے معاشروں میں تو ایک بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ بہت سوں کو اپنی سرزمین اچھی نہیں لگتی۔ یہاں اگر مخمل بھی مل جائے تو اُس پر چل کر راحت محسوس کرنے کے بجائے وہ مغرب میں ٹاٹ پر چلنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں! یہ ذہنیت راتوں رات پروان نہیں چڑھی۔ عشروں کے دوران تواتر سے سوچتے رہنے کے نتیجے میں اس ذہنیت کو فروغ ملا ہے۔
کیا لازم ہے کہ جب مسائل بڑھ جائیں تو وطن کی محبت دل سے کم ہو جائے؟ کیا اپنی سرزمین صرف اِس صورت میں اچھی لگنی چاہیے کہ مادّی سطح پر بہت کچھ مل رہا ہو؟ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ سانس تو یہاں لے رہے ہیں مگر جی رہے ہیں کسی اور (ترقی یافتہ) معاشرے میں۔ یہاں کے راستوں پر چلنے والے بہت سے لوگوں کے ذہن کسی اور دنیا میں محفوِ سفر رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ذہنوں میں ہر وقت کوئی اور ہی دنیا کیوں بسی رہتی ہے؟ کیا یہ ذہنیت محض حالات کی پیدا کردہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بہت سی خرابیوں کے باوجود اب تک چند ایک ایسی اچھائیوں کا بھی حامل ہے جن پر غور کرنے کی صورت میں دل کو اچھا خاصا قرار مل سکتا ہے۔ ذرا سی بات پر پریشان ہوکر لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ اب بہتری کی کوئی صورت نہیں نکلے گی۔ حد یہ ہے کہ بس میں سیٹ نہ ملے تو ذہن میں فوراً یہ سوال ابھرتا ہے کہ یہ ہم کس ملک میں پیدا ہوگئے! ہر پریشانی، ہر الجھن اس قابل نہیں ہوتی کہ اُس کے ہاتھوں پریشان ہوا جائے۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے معاملات ہمارے یومیہ معمولات کا حصہ ہوتے ہیں۔ اُنہیں اِسی حیثیت میں قبول کرنا چاہیے۔
مسائل کم و بیش ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے مگر کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کسی معاشرے میں انتہائی پریشان کن مسائل نہیں پائے جاتے۔ مادّی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی مسائل ہیں اور لوگوں کے لیے دردِ سر بھی ثابت ہوتے ہیں مگر وہ مسائل اس قدر مختلف اور وہیں کے حالات کے پروردہ ہوتے ہیں کہ ہم اُنہیں آسانی سے سمجھ نہیں سکتے۔ قابلِ رشک نوعیت کی خالص مادّی ترقی کسی بھی اعتبار سے اس بات کی ضامن نہیں کہ اب زندگی میں کوئی الجھن باقی نہیں رہے گی۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا! انسان ہر حال میں انسان ہی رہتا ہے۔ اُس کی فطرت میں جو پیچیدگیاں ودیعت کی گئی ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ پس ماندہ معاشروں میں جو مسائل بالکل بے نقاب ہوتے ہیں وہی مسائل ترقی یافتہ معاشروں میں خاصے ''ملبوس‘‘ ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ کئی پردوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک عمومی تصور یہ ہے کہ مغرب اور دیگر خطوں کے ترقی یافتہ ممالک میں ہر طرف آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ اور یہ کہ اِن خطوں میں قدم رکھنے یا آباد ہونے کا مطلب ہے تمام مسائل سے نجات اور مرتے دم تک امن و سکون کی ضمانت۔ چند ایک معاملات میں تو ایسا ہوسکتا ہے مگر بیشتر معاملات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اِس تصور کے برعکس ہے۔ ہم نے یہ تصور کرلیا ہے کہ مغرب اور دیگر خطوں کے ترقی یافتہ ممالک میں پائی جانے والی بھرپور مادّی آسائشیں ہی سب کچھ ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے سے یورپ کے کسی ترقی یافتہ معاشرے میں قدم رکھنے والا جب پورے ماحول کا جائزہ لیتا ہے تو اُسے ابتدائی کچھ مدت تک تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ جنت میں جی رہا ہے۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا قابلِ رشک انتظام انسان کو چند بنیادی پریشانیوں سے مکمل نجات بخش دیتا ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا نظام بھی ایسا اعلیٰ معیار کا ہے کہ انسان بس دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ پہلی بار اِن ترقی یافتہ معاشروں تک پہنچنے والوں کو کچھ دن تک تو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ اُسی سیارے پر ہیں جس کے ایک ٹکڑے پر اُن کا اپنا (تیسری دنیا کا) ملک بھی آباد ہے۔ بنیادی سہولتوں اور آسائشوں کا فرق اِس قدر ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اُسے یہ سب کچھ خواب جیسا معلوم ہوتا ہے۔ اُس کا جی چاہتا ہے کہ یہ خواب کبھی ختم نہ ہو، آنکھ کبھی نہ کھلے مگر صاحب! کچھ ہی مدت کے بعد اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھرپور مادّی ترقی سب کچھ نہیں اور یہ کہ بہت سی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود اپنا وطن بہرحال اپنا وطن ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان نے کسی ترقی یافتہ معاشرے میں قدم رکھنے کے بعد اپنے وطن کے بارے میں اِتنا کچھ اُلٹا پلٹا اور انٹ شنٹ کہا ہوتا ہے کہ جب ترقی یافتہ معاشرے کی خامیاں اُس کی آنکھوں پر بے نقاب ہوتی ہیں تب تک اِتنی دیر ہوچکی ہے کہ وہ اپنے وطن کے بارے میں کچھ اچھا کہتے ہوئے جھجکتا ہے کیونکہ بہت سوں کی جانب سے تنقید کے ڈونگرے برسائے جانے کا احتمال رہتا ہے۔ آج بیسیوں پس ماندہ معاشروں کی طرح پاکستان بھی گوناگوں مسائل سے دوچار ہے اور ایسے میں نئی نسل کا مضطرب رہنا فطری امر ہے۔ اِس پر افسوس تو ہوتا ہے‘ حیرت نہیں ہوتی۔ پاکستان جیسے معاشروں میں ایسے لوگ بکثرت ہیں جو اپنی سرزمین سے بیزار ہیں اور کہیں اور بسنے کے لیے بے تاب ہیں۔ یہ بے تابی ایسی نہیں کہ سمجھ میں نہ آئے مگر اس معاملے کو محض اِسی منزل میں چھوڑا نہیں جاسکتا۔ نئی نسل کو یہ بات بھرپور انہماک کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر معاشرے کے چند مخصوص مسائل ہوتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے سے بیزار ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے مسائل کہیں اور نہیں ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے! نئی نسل کو بتایا جائے کہ مادّی اعتبار سے ترقی یافتہ معاشروں کے بھی بہت سے مسائل ہیں اور اِن مسائل کو سمجھنے میں وہی لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں جو وہاں اچھا خاصا وقت گزار چکے ہوں۔ ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے کسی ترقی یافتہ مالک کا رخ کرنے اور وہاں آباد ہونے میں بہت فرق ہے۔ محض چمک دمک پر فریفتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ امکانات کہیں بھی ختم نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں بھی امکانات کبھی ختم نہیں ہوئے۔ آج بھی اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو اِس بظاہر گئے گزرے معاشرے میں بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہو یا عملی زندگی‘ بے اعتمادی سے گریز ناگزیر ہے۔ بات بات پر مایوس ہو رہنا خالص غیر منطقی امر ہے۔ سید حبابؔ ترمذی نے کہا ہے ؎
حبابؔ! ایسی بھی کیا بے اعتمادی
ڈبو دے گی ہمیں موجِ نَفَس کیا!