ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کردار کسی بھی شکل میں ہوسکتا ہے۔ کبھی کچھ کر دکھانا لازم ہوتا ہے اور کبھی محض لب کُشائی بھی کردار ادا کرنے کے مرحلے سے گزار دیتی ہے۔ انسان کے حصے میں جو بھی کردار لکھا گیا ہو وہ شکل کے اعتبار سے چاہے کچھ بھی ہو‘ اگر ادا کیا جائے تو فرق ضرور پڑتا ہے۔ جب سب اپنا اپنا کردار پوری دیانت سے اور موزونیتِ وقت کے ساتھ ادا کرتے ہیں تب بہت کچھ تبدیل ہوتا ہے یعنی بہتری کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ بے عملی سے کوئی بھی مثبت تبدیلی یقینی نہیں بنائی جاسکتی۔ یہی معاملہ بولنے اور نہ بولنے کا بھی ہے۔ قدرت نے ہمیں ذہن کس لیے عطا کیا ہے؟ سوچنے اور سمجھنے کے لیے۔ ہم نے جو کچھ بھی سوچا اور سمجھا ہو اُسے بیان کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں: گفتگو اور عمل۔ جو کچھ بھی ہم کہتے ہیں وہ بتاتا ہے کہ ہم نے اپنے ذہن کو کس حد تک بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے اور جو کچھ ہم کرتے ہیں اُس سے لوگون کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اُس کے عملی پہلو پر کس حد تک یقین رکھتے ہیں۔ فکر و عمل کی ہم آہنگی ہماری پوری شخصیت کو ظاہر بھی کرتی ہے اور منواتی بھی ہے۔
کیا ہمارے ماحول میں یہ معاملہ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں بھی ہے اور اثبات میں بھی۔ ہر انسان اپنی ترجیحات کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ زمینی حقیقتیں اپنی جگہ اور اپنی ترجیحات اپنی جگہ۔ بعض مواقع پر یا بعض حالات میں انسان کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ زمینی حقیقتوں سے تھوڑی سی چشم پوشی کرکے اپنی ترجیحات کا تعین کرے اور بھرپور تگ و دَو کے ذریعے مطلوب نتائج کا حصول یقینی بنانے پر مائل ہو۔ بیشتر معاملات ہم سے زمینی حقیقتوں کے محض ادراک کا تقاضا نہیں کرتے بلکہ اُن کی ''فرمائش‘‘ ہوتی ہے کہ ہم اُنہیں تسلیم بھی کریں اور اُنہی سے مطابقت رکھنے والی ترجیحات کا تعین کریں۔ کسی بھی زمینی حقیقت کو نظر انداز کرنے اور محض اپنی مرضی کے مطابق جیے جانے کی صورت میں ایسی بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو بصورتِ دیگر بالکل پیدا نہیں ہوتیں۔ جو کچھ سامنے ہو وہ زمینی حقیقت ہے اور جو کچھ ہمارے ذہن میں پایا جاتا ہو اور خواہشات کے درجے میں ہو وہ ہماری انفرادی ترجیحات کا نام پاتا ہے۔ انتہائی کامیاب انسان وہ ہوتا ہے جو زمینی حقیقتوں سے بھرپور مطابقت رکھنے والی انفرادی ترجیحات متعین کرے اور اُن کا حصول یقینی بنانے کے لیے بھرپور تگ و دَو کرے۔ کسی بھی انسان کو زیبا نہیں کہ جن صلاحیتوں کے ساتھ اِس دنیا میں اسے بھیجا گیا ہے اُنہیں بروئے کار لانے کے معاملے میں لاپروائی کا مرتکب ہو۔ کسی بھی معاملے میں لاپروائی محض برائے نام ہو تو چل سکتی ہے۔ اگر یہ روش برقرار رہے تو انسان بالآخر اپنے ذہن میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہ کیفیت فکر و عمل پر بہت بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔
ہمیں جن صلاحیتوں کے ساتھ اِس دنیا میں بھیجا جاتا ہے وہ اِس دنیا کا معیار بلند کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے تاکہ دنیا وہ نہ رہے جو وہ ہے بلکہ تھوڑی سی بہتر ہو جائے، اِس کی دل کشی بڑھ جائے اور افادیت کا گراف بھی کچھ بلند ہو۔ جو وقت انسان نے روئے ارض پر اب تک گزارا ہے اُسے چاہے جتنے بھی ادوار میں تقسیم کر دیکھیے، آپ یہی پائیں گے کہ ہر عہد مختلف رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ انسان کا ذہن کسی مقام پر رُکا نہیں اور ذوقِ عمل بھی ہمیشہ برقرار رہا۔ کمی بیشی ضرور واقع ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان نے فکر و عمل کی راہ پر گامزن رہنا کبھی ترک نہیں کیا۔ ہر عہد کچھ نہ کچھ دے کر رخصت ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے تمام ادوار سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور وہ خود بھی کچھ نہ کچھ نیا دے کر رخصت ہوتا ہے۔ اس کے بعد آنے والے اِسی میراث کو مزید آگے بڑھانے کی تگ و دَو کرتے ہیں۔
آپ کہاں کھڑے ہیں؟ جو کچھ قدرت نے آپ کو عطا کیا ہے اُسے بروئے کار لانے کے حوالے سے سنجیدگی آپ میں پائی جاتی ہے؟ پائی جانی چاہیے۔ اگر نہیں پائی جارہی تو فکر کیجیے۔ اگر ہے تو اچھی بات ہے مگر اِس پر مطمئن ہوکر نہ بیٹھ رہیے بلکہ اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے کرنے کی کوششوں کا گراف بلند کیجیے تاکہ دنیا کو اندازہ ہو کہ آپ نے اپنے حصے کا کام کرنے ڈنڈی نہیں ماری۔ ہر عہد میں اکثریت اُن کی رہی ہے جنہوں نے اپنی لیاقت، توانائی اور وقت کو بطریقِ احسن بہ رُوئے کار لانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور ایسی زندگی بسر کرکے یہاں سے رخصت ہوئے جس کی باقیات میں تاسّف نمایاں تھا۔ کہیں آپ کا بھی یہی معاملہ تو نہیں؟ آپ مطمئن ہیں کہ جو کچھ بھی آپ کو کرنا چاہیے وہ کیا ہے اور مزید جو کچھ کرنا ہے وہ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں؟ اگر واقعی ایسا ہے تو اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟ انسان اپنے حصے کا کام کرے تو حقیقی سکونِ قلب میسر ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ذہن منتشر نہیں ہوتا، کام کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور یوں زندگی کا معیار بلند کرنے کی گنجائش بڑھتی رہتی ہے۔
اینجی تھامس (Angie Thomas) نے ''دی ہیٹ یو گِو‘‘ (The Hate U Give) میں ایک بہت ہی کارآمد بات لکھی ہے جو کچھ یوں ہے کہ ''اگر آپ کو آواز کی نعمت عطا ہوئی ہے تو یہ نعمت کس کام کی اگر آپ اُس وقت بھی خاموش رہیں جب آپ کے لیے خاموش رہنا کسی بھی درجے میں معقول و پسندیدہ نہ ہو؟‘‘۔ ہر انسان کو وہ کام کرنا ہے جو اُس کے حصے میں لکھ دیا گیا ہے۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جسے کسی نہ کسی خاص کردار کے ساتھ خلق نہ کیا گیا ہو۔ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حصے کا کام کرے، دنیا کی رونق، دلکشی اور افادیت میں اضافے کے لیے کوشاں رہے، اپنا کردار پوری دیانت اور مشق و مشقّت سے ادا کرے۔ جو لوگ اپنا کردار یاد رکھتے ہیں وہ کئی زمانوں تک یاد رہتے ہیں۔ ہم ڈھائی‘ تین ہزار سال پہلے دانشوروں اور موجدوں کو بھی کیوں یاد رکھے ہوئے ہیں؟ اِس لیے کہ اُنہوں نے اپنی صلاحیت، توانائی اور وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لاکر دنیا کو کچھ دیا اور اِس اطمینان کے ساتھ رخصت ہوئے کہ اپنا کردار ادا کرنے میں بُخل دکھایا نہ تساہل و تغافل۔
جو کچھ قدرت نے ہمارے لیے طے کیا ہے وہ تو کرنا ہی ہے مگر ایک بات کا خاص خیال رکھنا ہے۔ کسی کو حق دلانے اور کسی کی حق تلفی روکنے کے حوالے سے جو بھی کردار ہمیں ادا کرنا ہے اُس کے معاملے میں بھی تساہل و تغافل کی گنجائش نہیں۔ ہم اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا معاشی اور معاشرتی کردار تو ادا کرتے ہیں مگر خالص اخلاقی اور روحانی سطح پر بھی تو بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن سے ہمیں سبک دوش ہونا ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی کی زندگی میں کوئی کمی ہے اور ہماری تھوڑی سی توجہ، دیانت اور حق پسندی سے دور ہوسکتی ہے تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں وہ طمانیت نصیب ہوتی ہے جو زندگی کے ہر پہلو زیادہ دل نشین بناتی ہے اور ہم حقیقی سکونِ قلب کے ساتھ جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
ہر عہد محض چیلنج نہیں لاتا بلکہ مواقع سے بھی نوازتا ہے۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ بہت سے شعبے ختم ہوچلے ہیں تو دوسرے بہت سے شعبے پروان چڑھ رہے ہیں۔ مصنوعی یا مشینی ذہانت کے فروغ پانے کا عمل بہت تیز ہے۔ انسان خوفزدہ ہے کہ کہیں یہ نیا بحران ساری انسانیت کو نگل ہی نہ لے۔ اس وقت مصنوعی یا مشینی ذہانت ہمیں درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اِس سے نمٹنے کے لیے ہمیں یاد رکھنا ہے کہ ہمارے حصے کا جو بھی کردار ہے وہ بحسن و خوبی ادا کیا جانا چاہیے۔ مشین کتنی ہی ترقی کرلے، انسان کی جگہ نہیں لے سکتی مگر انسان کو بھی تو یاد ہونا چاہیے کہ اُسے کرنا کیا ہے۔ جو کرنا ہے وہ ہر حال میں کرنا ہے۔ وقت ہمیں رعایت دینے کے مُوڈ میں نہیں۔