کون کیا بنے گا یہ کون طے کرے گا؟ خود متعلقہ فرد! اور کون؟ کوئی کیا بن سکتا ہے اِس کے بارے میں اگر واقعی کوئی کچھ جانتا ہے تو وہ خود ہے۔ ہر انسان کو اپنے بارے میں کم و بیش سبھی کچھ معلوم ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان پر سب سے زیادہ منکشف اُس کا اپنا وجود ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنے وجود کو اپنے سامنے بے پردہ و بے لباس پاتا ہے۔ کسی بھی انسان کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں سب سے بڑھ کر اگر کوئی جانتا ہے تو وہ خود وہی انسان ہے۔ اپنے بارے میں سبھی کچھ جاننے کی حالت میں ہونے ہی کی بدولت وہ اپنے بارے میں ہر فیصلہ پوری دیانت، سنجیدگی اور لگن سے کر سکتا ہے۔
آغازِ جوانی میں جب عملی زندگی بھی شروع ہو رہی ہوتی ہے تب ہر انسان کچھ نہ کچھ بننے کا خواب دیکھتا ہے۔ یہ مرحلہ خاصا جذباتیت زدہ ہوتا ہے اس لیے بہت محتاط ہوکر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ عمر کے اِس مرحلے میں ذہن بالعموم زیادہ بوجھل نہیں ہوتے۔ بہت کچھ سوچنے اور اُس کے مطابق لائحۂ عمل ترتیب دینے کی خاصی گنجائش ہوتی ہے۔ ایسے میں انسان بہت کچھ سوچ سکتا ہے۔ بہت کچھ سوچنے کے چکر میں ذہن کبھی کبھی کچھ زیادہ ہی سوچ بیٹھتا ہے اور الجھ کر رہ جاتا ہے۔ نئی نسل کے لیے کیر یئر کا انتخاب بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ گزر بسر کے لیے کچھ نہ کچھ تو انسان کو کرنا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں اُسے ایسا شعبہ منتخب کرنا ہوتا ہے جس میں پنپنے کی گنجائش بھی ہو اور مستقبل بھی محفوظ ہو۔ ہر دور میں ٹیکنالوجیز کے ہاتھوں بعض شعبے دم توڑ دیتے ہیں‘ ساتھ ہی ساتھ نئے شعبے بھی معرضِ وجود میں آتے ہیں۔ نئی نسل اُن کی طرف تیزی سے لپکتی ہے۔ یہ مرحلہ غیر معمولی دانش کا متقاضی ہوتا ہے۔ نئی نسل میں دانش کہاں سے آئے؟ اُس میں تو نری جذباتیت ہوتی ہے۔ کسی کو توفیق مل جائے تو الگ بات ہے۔
بہرکیف‘ عملی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں انسان کو بہت کچھ طے کرنا ہوتا ہے۔ کیریئر کا انتخاب چونکہ غیر معمولی احتیاط چاہتا ہے اِس لیے لازم ہے کہ نئی نسل راہ نمائی کی طالب ہو اور جو راستہ دکھاسکتے ہیں وہ بھی بُخل کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ جو کچھ بھی نئی نسل کو دے سکتے ہیں ضرور دیں۔ نئی نسل بیشتر معاملات میں اپنے طور پر بہت اچھا یا معقول فیصلہ نہیں کرسکتی۔ ایک طرف تو اُس کی راہ نمائی ناگزیر ہے اور دوسری طرف بہتر نتائج کے حصول کے لیے تھوڑا بہت تحمل سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ نئی نسل کو بہتر نتائج یقینی بنانے کے لیے مہلت دی جانی چاہیے۔
2016 میں ریلیز ہونے والی ہالی وُڈ مووی ''مُون لائٹ‘‘ کا ایک خوبصورت جملہ نئی نسل اور کیریئر کے حوالے سے بہت کچھ بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ ''کسی نہ کسی مقام پر آپ کو طے کرنا ہی ہوتا ہے کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں۔ آپ اس بات کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے کہ یہ فیصلہ کسی اور کو کرنے دیں‘‘۔ ہر انسان کو اپنے طور پر جینا ہوتا ہے۔ زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے اِس کا تعین کرنے کا اختیار دوسروں کو نہیں دیا جاسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ شدید نوعیت کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ آپ اپنے ارد گرد بھی ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو اپنے بیشتر معاملات میں حتمی نوعیت کے فیصلے دوسروں کو کرنے دیتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔ کوئی بھی انسان صرف اپنے ذہن کے مطابق ہی ڈھنگ سے جی سکتا ہے۔ دوسروں کے ذہن میں جو کچھ ابھرتا ہے اُس کی بنیاد پر ہم اپنے لیے کوئی راہ متعین نہیں کرسکتے۔
وقت ہر انسان کو موقع بھی دیتا ہے اور وسائل بھی۔ وسائل مختلف شکلوں میں ہوسکتے ہیں اور موقع کبھی کبھی ذہانت سے شناخت کرنا ہوتا ہے۔ بہرکیف‘ ہر انسان کو اپنے لیے حتمی راستہ یعنی کیریئر خود ہی منتخب کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ فیصلہ کوئی اور کر گزرے تو بالعموم خرابی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ کیریئر کے انتخاب کے ذریعے انسان اپنی لیاقت، صلاحیت اور سکت‘ تینوں کو معقول طریقے سے بروئے کار لانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اگر کیریئر کے انتخاب کا معاملہ کسی اور پر چھوڑا جائے تو وہ اپنی کم علمی اور ترجیحات کے فرق کی بنیاد پر کسی ایسے شعبے کا بھی انتخاب بھی کرسکتا ہے جس میں متعلقہ فرد یا نوجوان زیادہ آگے نہیں جاسکتا۔ کیریئر چونکہ بالعموم زندگی بھر کا معاملہ ہوتا ہے اس لیے ناگزیر ہے کہ انسان اِس معاملے میں غیر معمولی سنجیدگی، دلچسپی اور احتیاط کا مظاہرہ کرے۔ سنجیدگی بنیادی شرط ہے کیونکہ یہ فیصلہ جذباتیت کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔
عملی زندگی ہر انسان کے لیے زندگی بھر کا معاملہ ہوتا ہے اس لیے سمت کا تعین غیر معمولی احتیاط کا طالب رہتا ہے۔ عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے انسان کو غیر معمولی احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ ابتدا ہی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے تو مورال گر جاتا ہے اور پھر زیادہ اور نیا کام کرنے کی ہمت مشکل سے بحال ہو پاتی ہے۔ نئی نسل کو عملی زندگی ڈھنگ سے شروع کرنے کے لیے جہاں دیدہ افراد کی طرف سے بھرپور مدد درکار ہوتی ہے۔ اس معاملے میں شرم اور تذبذب کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ جو کچھ بھی سمجھ میں نہ آرہا ہو وہ پوچھ لینا چاہیے۔ اگر کوئی نوجوان کسی شعبے میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اُس شعبے سے وابستہ افراد کے تجربے سے کماحقہٗ مستفید ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر جہاں دیدہ انسان اپنے تجربے سے نئی نسل کو مستفید کرنا چاہتا ہے۔ جھجھک اور شرم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھ کر رائے طلب کرنے اور راہ نمائی کرنے کی استدعا کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ آج کی دنیا میں کیریئر کا انتخاب حقیقی دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہر شعبے میں تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ نئی نسل کو کیریئر کے انتخاب میں غیر معمولی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ غور اِس بات پر کرنا ہوتا ہے کہ جس شعبے میں قدم رکھا جارہا ہے اُس میں پنپنے کی گنجائش کتنی ہے اور اُس کی بقا کے امکانات کس حد تک ہیں۔ بعض شعبے راتوں رات ابھرتے ہیں اور اُتنی ہی تیزی سے شکست و ریخت کے مرحلے سے بھی گزر جاتے ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ اُنہی شعبوں میں سے کوئی منتخب کیا جائے جو تادیر ٹِکے رہنے کی صلاحیت اور متعلقین کے لیے بھی پنپنے کی گنجائش پیدا کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔
ہر دور کی طرح آج کی نئی نسل بھی خاصی بدحواس اور الجھی ہوئی ہے۔ یہ فطری امر ہے۔ زمانہ چاہے کتنی ہی ترقی کرلے، نئی نسل کو ذہنی الجھنوں کا سامنا رہتا ہی ہے۔ ٹیکنالوجیز کی بھرمار نے آج کی نئی نسل کو بھی ذہنی پیچیدگیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ بیشتر نوجوان بروقت فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کس طرف جائیں‘ کیا کریں۔ اُن کی الجھن صرف اُس وقت دور ہوتی ہے جب وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اور جذباتیت کی سطح سے بلند ہوکر کچھ سوچتے ہیں، مختلف شعبوں کا جائزہ لے کر امکانات تلاش کرتے ہیں، متعلقین سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرکے شعبے کی بقا کا جائزہ لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے ذوق و شوق کی سطح کا بھی اچھی طرح اندازہ لگاتے ہیں۔ کوئی بھی شعبہ کیریئر کے طور پر منتخب کرنے کے لیے تبدیلی کے مرحلے سے گزرنا سوہانِ روح ثابت ہوتا ہے۔ جذباتیت کے ساتھ کیے جانے والے فیصلے انسان کو کیریئر تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یوں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور وسائل بھی۔ اور اِس سے زیادہ الجھن کی بات یہ ہے کہ غلط فیصلے کا پچھتاوا آسانی سے جان نہیں چھوڑتا۔ سوال صرف کیریئر کا نہیں ہے۔ زندگی کا ہر اہم فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوتا ہے اور خود کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے فیصلے دوسروں کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں اُنہیں ہم قدم قدم پر ناکامیوں سے دوچار دیکھتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی نہیں کیونکہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
قدرت کا قانون کسی کے لیے نہیں بدلتا۔ آپ کو بھی اپنے فیصلے خود کرنے ہیں اور (شباب کی دہلیز پر ہونے کی صورت میں) بالخصوص کیریئر کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے تاکہ آگے چل کر الجھن کا سامنا نہ ہو اور بلا جواز ناکامی گلے نہ پڑے۔