"MIK" (space) message & send to 7575

کیچڑ کا بھی تو سوچنا پڑتا ہے

ہم بہت کچھ چاہتے ہیں مگر جو کچھ ہم چاہتے ہیں اُس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ جب ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں، خواہشات کو پورا کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم نے مانگا تھا اُس کے ساتھ تو اور بھی بہت کچھ تھا مگر ہم نے اُس کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ جنہیں بہت کچھ درکار ہوتا ہے اُنہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہم اپنے رب سے مانگتے ہیں اُس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو ہمارے لیے آزمائش کا درجہ رکھتا ہے۔ مثلاً اللہ سے رزق کی کشادگی چاہنے والے بھول جاتے ہیں کہ جب رزق میں کشادگی واقع ہوتی ہے تو اُن سب لوگوں کے حوالے سے ہماری ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے جو ہم سے وابستہ ہوتے ہیں۔
ڈینزل واشنگٹن کا شمار ہالی وُڈ کے بڑے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے ایک کام کی بات کہی ہے ‘یہ کہ بارش کی دعا مانگتے وقت ہمیں کیچڑ کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کیونکہ کیچڑ بھی بارش کے پیکیج کا حصہ ہے! اس ایک جملے میں اچھی خاصا دانائی بند ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہم خدا سے بہت کچھ مانگتے ہیں اور وہ مل بھی جاتا ہے مگر پھر بھی ہماری تسلی اور تشفی نہیں ہو پاتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ جب بھی ہمیں کچھ ملتا ہے تو اُس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ ہم چاہتے تو بہت ہیں اور پا بھی لیتے ہیں مگر اُس سے وابستہ ذمہ داریوں سے دامن چھڑاتے رہتے ہیں۔ ہماری بھرپور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور معاملات کی گاڑی کو دھکا دیتے رہیں اور اپنے حصے کا وہ کام نہ کریں جو کامیابی یقینی بنالیے جانے کی صورت میں ہمیں بہر طور کرنا ہی ہوتا ہے۔
قدرت نے ہمارے لیے ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ آزمائش اور اُس کی جزا بھی رکھی ہے۔ جو بھی کچھ ہے وہ لین دین کی سطح کا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیںِ، دنیا کا چلن یہی ہے۔ دنیا اِسی طور چلتی آئی ہے۔ اگر آپ کو کچھ چاہیے تو کچھ دینا پڑے گا۔ اور جب آپ کچھ دیں گے تو آپ کو ضرور کچھ مل کر رہے گا۔ جو خالق یا رب کے تصور پر یقین نہیں رکھتے وہ اپنے لیے دوسرے اصول مرتب کرتے ہیں اور اُنہی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ دین کچھ اور کہتا ہے۔ خالص دہریت یہ ہے کہ انسان نامعلوم سے آیا ہے اور نامعلوم کی سمت جائے گا۔ جو کچھ ہے بس یہی زندگی ہے، روئے ارض پر جو لمحات گزارے جاتے ہیں بس وہی ہمارے لیے ہیں۔ اِس سے پہلے کچھ تھا نہ بعد میں کچھ ہوگا۔ کسی کو اپنے عمل کا حساب کہیں اور نہیں دینا۔ اگر دنیا میں حساب ہوگیا تو ٹھیک ورنہ صبر کیجیے۔ الحاد کو گلے لگانے والے خالص دہریت کے دلدادہ ہوتے ہیں یعنی اُن کے لیے دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ آخرت کا تصور ہی اُن میں نہیں پایا جاتا تو حساب کتاب کی فکر کیوں لاحق ہو؟ قدرت نے جنہیں ایمان کی دولت عطا کی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دنیا سب کچھ نہیں۔ یہاں سے جانا ہے اور جو کچھ یہاں کیا اُس کا حساب دینا ہے۔ اچھے کام کی جزا ملے گی اور بُرے کام کی سزا۔ یہ ناگزیر ہے، اِس سے مفر ممکن نہیں۔ یہ تو ہوا آخرت کا معاملہ۔ کیا دنیا میں بھی کچھ حساب کتاب ہے؟ ایمان کی دولت سے سرفراز ہونے والے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان سے اِس دنیا میں بھی تھوڑا بہت حساب لیا جاتا ہے۔ بعض خوش نصیب اپنے کیے کی تھوڑی بہت سزا اِسی دنیا میں پالیتے ہیں۔ جنہیں اِس دنیا میں سزا نہیں ملتی اُنہیں بدنصیب سمجھیے کیونکہ قدرت کی طرف سے دی جانے والی ڈھیل اگر آخرت کے دن تک کی ہو تو سمجھ لیجیے وہاں نجات کی کوئی صورت شاید ہی نکلے۔ بہر کیف‘ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں بیشتر معاملات ہمارے بس میں نہیں۔ دینی تعلیمات میں ہر معاملے کی صراحت کردی گئی ہے۔ اگر بہت کچھ ہمارے بس میں نہ ہو تب بھی دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ سبھی کچھ ہمارے خالق و مالک کے حکم سے ہوتا ہے۔ قدرت نے کم و بیش ہر معاملے میں ہمارے لیے کہیں نہ کہیں آزمائش رکھی ہے۔ آزمائش پر پورا اترنے کی صورت میں جو کچھ عطا کیا جاتا ہے وہ زندگی کو چار چاند لگانے والا ہوتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم دیکھنے والی آنکھ رکھتے ہیں یا نہیں۔
ہم زندگی بھر مختلف معاملات میں کامیابی یقینی بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ کامیابی ملتی بھی ہے اور ہاتھ سے جاتی بھی رہتی ہے۔ کوئی بھی کامیابی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔ ہو بھی نہیں سکتی! دنیا بھر میں کروڑوں‘ اربوں افراد بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ کسی کی کامیابی کسی اور کی ناکامی ہوتی ہے۔ اور کامیابی خود بھی مکمل کامیابی نہیں ہوتی کیونکہ اُس کے ساتھ کچھ نہ کچھ جڑا ہوتا ہے۔ ہر کامیابی اپنے ساتھ کسی نہ کسی طرح کا دردِ سر لاتی ہے۔ یہ دردِ سر کبھی کبھی بالکل واضح ہوتا ہے اور کبھی اِسے پہچاننا پڑتا ہے۔ خیر پہچاننا ممکن ہو یا نہ ہو، دردِ سر جھیلنا تو پڑتا ہی ہے۔بارش زندگی کی علامت ہے۔ زمین کی جان ہے بارش۔ بارش ہی کی بدولت زمین کا سینہ چیر کر پودے اور درخت اُگتے ہیں۔ زمین ہمیں اناج، پھل اور مویشیوں کا چارا بارش کی برکت سے دیتی ہے۔ وقت پر بارش خدا کے فضل کی بھی نشانی ہے۔ بارش کے ساتھ بہت کچھ جڑا ہوا ہے۔ موسم خوشگوار ہو جاتا ہے۔ لوگ فرحت محسوس کرتے ہیں۔ پُرسکون نیند ممکن ہو پاتی ہے۔ بارش کے پانی کو نکاسی کا راستہ ملے تو ٹھیک‘ ورنہ وہ جمع ہوکر کیچڑ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کہیں کچی مٹی بہت زیادہ ہو یا کھدائی کے بعد گڑھوں کو ڈھنگ سے بھرنے کے بجائے مٹی کے ڈھیر یونہی چھوڑ دیے گئے ہوں تو بارش کے بعد یہ مٹی کے ڈھیر کیچڑ میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور آمد و رفت میں شدید مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ بارش سے بھرپور لطف اُسی وقت کشید کیا جاسکتا ہے جب ماحول کو بارش سے استفادے کے لیے تیار رکھا جائے۔ اگر سب کچھ درست ہو تو بارش نعمت اور رحمت ثابت ہوتی ہے۔ بصورتِ دیگر یہ زحمت بن جاتی ہے۔ ایسے میں موسم میں خوشگوار تبدیلی بھی زیادہ لطف نہیں دیتی۔
کامیابی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اگر انسان نے بھرپور کامیابی کا خیر مقدم کرنے کی تیاری کر رکھی ہو تو ٹھیک وگرنہ یہ کامیابی صرف مشکلات بڑھاتی ہے۔ اگر آپ کا مشاہدہ اچھا ہے تو دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ راتوں رات نمایاں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں مگر اُس سے بطریقِ احسن بہرہ مند اور مستفید ہونے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ کامیابی اُن کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ تمام معاملات کی طرح کامیابی کے بھی مضمرات ہوتے ہیں۔ ہر کامیابی کے پیکیج میں کچھ نہ کچھ الجھن بھی شامل ہوتی ہے۔ کامیابی ہم پر بدلنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ اگر ہم کامیابی کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے رہیں تو معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ بھرپور کامیابی کے لیے تیاری کرتے وقت ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر کامیابی مل گئی تو ہم اُس کے مضمرات کا سامنا کس طور کرسکیں گے۔ بارش کی دعا مانگنے والوں کو کیچڑ کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ اِسی بات کو جاذبؔ قریشی مرحوم نے اِس طور ادا کیا ہے ؎
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو!
اِس دنیا میں جو کچھ بھی ملتا ہے پیکیج کی صورت میں ملتا ہے۔ ہر معاملے کے ساتھ چند اور معاملات جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر ہم متوجہ نہ ہوں، سنجیدگی اختیار نہ کریں تو کامیابی سے بھرپور حَظ نہیں اٹھاسکتے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ناکامی سے نپٹنے کا ہنر سیکھ کر زندگی میں تھوڑی بہت رنگینی پیدا کرتے ہیں۔ اگر تربیت نہ کی گئی ہو تو انسان کامیابی ممکن بناکر بھی زندگی کا معیار بلند نہیں کر پاتا بلکہ مزید الجھ کر رہ جاتا ہے۔
انسان کو ہر طرح کی صورتِ حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کامیابی ممکن بنالینے سے مسائل ختم نہیں ہو جاتے بلکہ کبھی کبھی بڑھ ہی جاتے ہیں۔ کامیابی ذمہ داریوں کا دائرہ بھی وسیع کرتی ہے۔ بارش اور کیچڑ والی بات پر ضرور غور کرتے رہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں