"MIK" (space) message & send to 7575

دشمن کو پہچانیے تو سہی

ہم میں سے بیشتر زندگی بھر یہی سوچتے رہے ہیں کہ کون ہمارا ہے اور کون نہیں۔ بہت سے معاملات میں ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ہے جو دشمن بنا ہوا ہے مگر وہ کون ہے اِس کا ہمیں کچھ خاص اندازہ نہیں ہو پاتا۔ کیا ہمارے پاس کرنے کو یہی ایک کام رہ گیا ہے کہ اپنے دشمنوں کے بارے میں سوچتے رہیں؟ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اُس دشمن کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں جس کا کوئی وجود ہوتا ہی نہیں۔ ہم محض مفروضوں کی بنیاد پر سوچتے سوچتے اُن مفروضوں کے بندگانِ بے دام ہوکر رہ جاتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ ہماری زندگی میں جو کچھ بھی غلط یا اُلٹا ہو رہا ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی کے ذہن کی کارستانی کا نتیجہ ہوتا ہے؟ کیا ہم ہر معاملے میں کسی دشمن کے بارے میں سوچنے پر مائل ہوکر اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوسکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا ہی ذہن ہمیں دھوکا دینے پر تلا رہتا ہے؟ معاملہ یہ تو نہیں کہ ذہن ہمیں دشمن کی تلاش کے کام پر لگاکر اہم اُمور سے توجہ ہٹانے کا ''فریضہ‘‘ انجام دیتا ہو؟ بعض صورتوں میں تو ایسا بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ ذہن جب مفروضوں کی نذر ہو رہتا ہے تب بہت سے اہم کام ایک طرف پڑے رہ جاتے ہیں۔ ہم اُن کاموں کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کیونکہ ہمیں اور بہت کچھ بہت اہم دکھائی دے رہا ہوتا ہے جبکہ اُس کا ہماری زندگی سے کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا اور اُن کی اہمیت بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔
سن زُو (Sun Tzu) کا شمار اُن اہلِ دانش میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کو علم و حکمت کے حوالے سے بہت کچھ دیا ہے۔ فنِ حرب پر اُن کی کتاب عالمگیر شہرت کی حامل ہے۔ سن زُو کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ انسان کو اپنے معاملات میں پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسا کیے بغیر ڈھنگ سے جینا کسی کے لیے ممکن نہیں ہو پاتا۔ سُن زُو کہتے ہیں ''اپنے آپ کو پہچانیے، اپنے دشمن کو پہچانیے۔ ہزاروں لڑائیاں اور ہزاروں فتوحات۔ ہم میں کم ہی ہیں جو سیاست کو شرحِ صدر کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ جب بھی سیاست کی بات کیجیے تو اُس کے منہ سے نکلتا ہے کہ یہ تو بہت گندا کھیل ہے، میں اس کھیل میں حصہ نہیں لوں گا۔ سیاست میں دلچسپی اور حصہ لینے سے گریز کی روش کی ایک اہم اور قابلِ ذکر و افسوس سزا یہ ہے کہ ہم اُن کے زیرِ حکم زندگی گزارتے رہتے ہیں جو ہم سے کہیں کم درجے کے ہوتے ہیں، علم کے اعتبار سے بھی اور عمل کے اعتبار سے بھی‘‘۔ بات تھوڑی تلخ ہے مگر سچ ہے۔ اور سچ عموماً تلخ ہی ہوتا ہے۔ اگر سچ میں تلخی نہ ہو تو لوگ جھوٹ بولیں ہی کیوں؟ سچ کی تلخی سے جان چھڑانے کے لیے ہی جھوٹ کی عارضی مٹھاس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اِس مٹھاس کا چسکا لگ جائے تو مشکل سے چھوٹتا ہے۔
خیر‘ بات یہ ہو رہی ہے کہ ہمیں اپنے دشمن کو پہچاننا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ کبھی کبھی ہمیں مختلف جہتوں سے حملے جھیلنا پڑتے ہیں۔ جنہیں ہمارا وجود گوارا نہ ہو وہ مختلف محاذوں پر ہمارے خلاف مورچہ زن ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہی ہیں مگر یہ سوچنا سادہ لوحی اور خود فریبی ہے کہ ہر معاملہ ہی دوسروں کے ذہن کی پیداوار ہوا کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے! اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ کوئی چاہے جتنا بھی ہمارے خلاف جائے ہمیں ایک خاص حد تک ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہمیں خود ہی طے کرنا ہوتا ہے کہ کسی کو کس حد تک جانے دیں گے اور کتنا نقصان پہنچانے دیں گے۔ سب کچھ ہمارے طے کرنے پر منحصر ہے۔ آپ کا حقیقی دشمن کون ہے؟ دشمن تو بہت ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہی ہیں مگر اس نکتے پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ کوئی بھی ہمیں ایک خاص حد تک ہی نقصان پہنچاسکتا ہے اور وہ بھی صرف اُس صورت میں جب ہم ایسا ہونے دیں۔ جی ہاں! کوئی کتنی ہی چالیں چلے، قدرت نے ہمیں بھی تو ذہن، لیاقت، توانائی اور سب سے بڑھ کر عزمِ محکم کی راہ پر گامزن ہونے کی صلاحیت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ انسانوں کے درمیان سب کچھ چلتا رہتا ہے۔ کوئی کسی کو پسند نہیں کرتا تو اُس کے خلاف جاتا ہے۔ پہلے یہ معاملہ سوچنے کی حد تک ہوتا ہے۔ پھر عمل کی منزل آجاتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چند ہم خیال افراد مل کر اپنے مشترکہ مذموم مفادات کا حصول و تحفظ یقینی بنانے کی خاطر محاذ قائم کرلیں۔ ایسی حالت میں ہدف پذیر انسان کو بہت محتاط رہنا پڑتا ہے، سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔
آپ کو ہدف پذیر رہنا پسند ہے؟ کیا آپ چاہیں گے کہ کوئی آپ کو آسانی سے نشانے پر لے اور نقصان پہنچائے؟ یقینا نہیں مگر یہ مقصد صرف سوچنے سے حاصل نہ ہوسکے گا۔ اِس کے لیے بہت کچھ سوچنا اور کرنا پڑتا ہے۔ سُن زُو کا پیغام تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ آپ کو سب سے پہلے اپنے دشمن کو پہچاننا ہے اور اِس کے لیے اپنے آپ کو پہچاننا ہے کیونکہ آپ کا ممکنہ حتمی دشمن آپ کے اندر ہی تو رہتا ہے۔ کبھی آپ نے اپنے بارے میں غور و فکر کے مرحلے سے گزرنے کی زحمت گوارا کی ہے؟ ہم دن رات سوچتے رہتے ہیں اور یہ سوچ کر خوش ہو رہتے ہیں کہ ہم نے سوچنے کا حق ادا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچنے کے نام پر ہم صرف پریشان ہو رہے ہوتے ہیں۔ سوچنے اور پریشان ہونے میں بہت فرق ہے اور یہ فرق اُنہیں دیکھ کر سمجھا جاسکتا ہے جو سوچنے کا حق ادا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمارے اپنے خیالات، معمولات، عزائم اور اہداف ہماری راہ میں دیوار بن سکتے ہیں۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس تلخ حقیقت کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر حلق سے اُتارے بغیر ہم ڈھنگ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اگر ہماری سوچ محدود ہو تو اہداف بھی محدود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے خلاف جارہا ہو تو ہمیں سنبھلنا پڑتا ہے، سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔ اِس کی بہت سے وجوہ ہوسکتی ہیں۔ سب سے بڑا ممکن سبب تن آسانی ہے۔ پھر کچھ یوں بھی ہے کہ ہم میں سے بیشتر اپنے زیادہ تر معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر اُس کے لیے جس قدر تدبر ناگزیر ہے اُس قدر تدبر کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔
ہماری راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے بہت سے ہوسکتے ہیں مگر اُن کی ساری کارکردگی ہماری سوچ پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر ہم طے کرلیں کہ یا تو اُنہیں رکاوٹیں کھڑی ہی نہیں کرنے دیں گے یا پھر اُن کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹوں کو برداشت نہیں کریں گے تو نقصان کا گراف بہت نیچے رہتا ہے۔
جب تک دم میں دم ہے تب تک ہمیں محتاط اور سنجیدہ رہنا ہے۔ حالات ہمارے خلاف جانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ معاشرے میں‘ ماحول میں‘ جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے وہ سب کا سب ہمارے مفاد میں نہیں ہوتا۔ ایسے میں اگر ہم خود کو ڈھیلا چھوڑ دیں تو جی چکے۔ ہمیں ہر وقت الرٹ رہنا پڑتا ہے تاکہ ناموافق حالات ہم پر زیادہ اثر انداز نہ ہوں اور ہم اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے میں نمایاں حد تک کامیاب ہوں۔ ہر دور کے نمایاں اہلِ دانش نے یہ نکتہ زور دے کر بیان کیا ہے کہ کسی بھی انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہوسکتا ہے۔ حالات و واقعات اس نکتے کو درست ثابت کرتے رہتے ہیں۔ جب کوئی انسان اپنے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا، اپنے بارے میں غور و فکر کے مرحلے سے نہیں گزرتا، لائحۂ عمل طے کرنے کی منزل میں قدم نہیں رکھتا تب معاملات اپنی حقیقی سکت سے بڑھ کر بگاڑ پیدا کرنے لگتے ہیں اور انسان کے لیے سنبھلنا دشوار تر ہوتا جاتا ہے۔
اگر آپ سنجیدہ نہیں، اپنی لیاقت اور توانائی کے تناسب سے اہداف کا تعین نہیں کیا، کچھ بننے کی نہیں ٹھانی تو پھر آپ کو اِس بات کا رونا نہیں رونا چاہیے کہ کوئی آپ سے دشمنی کر رہا ہے کیونکہ اپنے سب سے بڑے دشمن تو آپ خود ہوئے۔ زندگی محض سوچ سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے وجود سے محبت کرتے ہوئے بسر کرنے کا معاملہ ہے۔ کوئی آپ کو اُسی وقت چاہے گا جب آپ خود اپنے وجود کو چاہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں