"MIK" (space) message & send to 7575

ہار اور جیت کا فرق

جیتنا سب کی خواہش ہے مگر محض جیتنے کی خواہش سے کیا ہوتا ہے؟ جب تک یہ اندازہ ہی نہ ہو کہ جیتنا کیا ہوتا ہے تب تک ہم جیت نہیں سکتے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جیت کر بھی نہیں جیت پاتے! یہ بات تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ ہار اور جیت تو کھیل کا حصہ ہے یعنی کبھی ہم بازی جیت لیتے ہیں، کبھی ہار جاتے ہیں۔ جیت دائمی ہے نہ ہار۔ مگر ہاں‘ جیت کو ڈھنگ سے یقینی بنایا جائے تو اُس کے بعد آنے والی ہار بھی ہار نہیں رہتی اور ہم کسی نہ کسی طور اپنے معاملات میں ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے ہار کو بھی زندگی کا حصہ بنائے رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
زندگی ہمیں مختلف مراحل میں آزماتی ہے۔ ہر آزمائش کچھ نہ کچھ سکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہم اپنی اغلاط اور کوتاہیوں سے سیکھ کر ہی آگے بڑھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو سفر رک جائے۔ کامیابی کی طرف سفر جاری رکھنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ جیت کے ساتھ ساتھ ہار کو بھی قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے اور متعلقہ سلیقہ سیکھا جائے۔ جو کچھ زندگی کے ساتھ جُڑا ہوا ہے وہ کسی صورت ختم نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ایڈجسٹ کرنا سیکھنا ہوتا ہے۔ یہ ناگزیر ہے۔ جو کچھ ناگزیر ہوتا ہے ہم اُس کے تقاضوں کو نہ نبھانے کی صورت میں بھی زندہ تو رہتے ہیں مگر ایسی حالت کو معیاری یا مثالی زندگی نہیں کہا جاسکتا۔ اگر زخم کو نظر انداز کیا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔ لازم نہیں کہ ہر ناسور جان لیوا ہو مگر وہ ہماری توانائی پر اثر انداز ہوتا ہے، تکلیف دیتا ہے، ذہن میں الجھنیں پیدا کرتا ہے اور یوں ہماری فکری صلاحیت کے ساتھ ساتھ عمل کی سکت بھی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ اور اگر کئی ناسور ہوں تو؟ پھر تو یہ سمجھیے کہ زندگی کا تیا پانچا ہوا ہی ہوا۔
والٹ ڈزنی (Walt Disney) کے نام سے ایک زمانہ واقف ہے۔ امریکہ کی نمایاں ترین شخصیات میں والٹ ڈزنی بھی شامل ہیں۔ اُنہوں نے ڈزنی لینڈ قائم کیا۔ ایک عظیم تفریحی پارک کے طور پر ڈزنی لینڈ کو دنیا جانتی ہے۔ والٹ ڈزنی نے اپنی کامیاب زندگی کے بارے میں دنیا کو بہت کچھ بتایا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انسان کو کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اپنے حصے کا کام کرتے رہنا چاہیے۔ والٹ ڈزنی نے ڈزنی لینڈ کے ذریعے ثابت کیا کہ انسان جو خواب دیکھتا ہے اُسے شرمندۂ تعبیر بھی کرسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے یا نہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان بھرپور جذبے کی بدولت صلاحیت بھی پیدا کرلیتا ہے اور سکت بھی۔ انسان چاہے تو کوئی بھی کام سیکھ سکتا ہے۔ اِسی کو قابلیت کہتے ہیں۔ قابلیت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سکت درکار ہوتی ہے۔ سکت یعنی کام کرنے کے لیے مطلوب توانائی۔ سکت ہی کی بنیاد پر استعداد کی سطح بھی طے ہوتی ہے۔ سکت پیدا کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے باشعور رہتے ہوئے ہی انسان کام کرنے کے لیے مطلوب سکت بنائے رکھنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ صلاحیت کی طرح سکت بھی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر کسی میں توانائی نہیں ہوگی تو اپنی صلاحیت یا لیاقت کو کیونکر بروئے کار لاسکے گا؟ والٹ ڈزنی کی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اگر کچھ سوچ لے، ٹھان لے تو کر گزرتا ہے۔ والٹ ڈزنی نے کامیابی اور ناکامی کے فرق کو واضح کرنے کے لیے بہت کچھ بیان کیا۔ اُن کے بہت سے مضامین، انٹرویوز اور سوانح سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کے لیے ناممکن کچھ بھی نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کچھ کرنے کا ٹھوس ارادہ ہے یا نہیں۔ والٹ ڈزنی نے کہا تھا کہ ہار اور جیت کا فرق سمجھنے کے لیے اِتنی سی حقیقت کافی ہے کہ صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ڈٹے رہتے ہیں، میدان چھوڑنا تو دور کی بات رہی وہ تو میدان چھوڑنے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔
کسی بھی شعبے میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ہر حال میں اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، حالات کے ناموافق ہو جانے پر بھی ہمت نہیں ہارتے اور میدان چھوڑنے کا تصور تک ذہن سے کھرچ کر پھینک دیتے ہیں۔ بہت سے نمایاں شعبوں میں ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کسی نے کچھ سوچا اور پھر اُسے عملی جامہ پہنانے نکلا تو مڑ کر نہیں دیکھا۔ علم و فن کی دنیا میں ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کسی نے کامیاب ہونے کا سوچا، کام شروع کیا، کرتا ہی رہا اور نتائج کی پروا کیے بغیر حتمی کامیابی تک مڑ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بہت سے فنکار ابتدا میں ناکام رہے مگر ابتدائی ناکامی کو انہوں نے خاطر میں لانا قبول نہ کیا اور کام کرتے رہے۔ پھر جب وہ کامیاب ہوئے تو ایک دنیا نے دیکھا اور اُن کے وجود کو تسلیم کیا۔ یہ دنیا صرف اُن کی ہے جو دل و جان سے اپنے مقصد کے ہیں۔ مقصدیت کو نظر انداز کرنے والوں کو دنیا نظر انداز کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ ہار اور جیت کا فرق صرف اِتنا ہی ہے کہ جو لوگ معمولی ناکامیوں سے نہیں گھبراتے وہ میدان میں کھڑے رہتے ہیں۔ چھوٹی موٹی اور وقتی نوعیت کی ناکامی سے گھبراکر میدان چھوڑنا کسی بھی اعتبار سے کوئی مثالی طرزِ فکر و عمل نہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں مثالیں موجود ہیں کہ انتہائی باصلاحیت افراد نے معمولی سی ناکامی سے گھبراکر اپنے عزائم ترک کیے اور مکمل ناکامی کے گڑھے میں گرگئے۔ یاد صرف وہی رکھے جاتے رہے ہیں جنہوں نے بہت سی الجھنوں کے باوجود میدان چھوڑنے کا نہیں سوچا، ڈٹے رہے اور اپنے آپ کو منوایا۔
کامیابی کے لیے میدان نہ چھوڑنا ہر معاشرے، ہر ماحول میں ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ کامیابی کی انتہائی بنیادی شرط ہے۔ یہ حقیقت بھی تسلیم اور قبول کی جانی چاہیے کہ جب بھی کامیابی کی طرف قدم بڑھایا جائے گا تب کہیں نہ کہیں سے رکاوٹیں بھی وارد ہوں گی، چلنا دشوار ہو جائے گا، معاملات اٹکنے لگیں گے۔ یہ مرحلہ سب کے لیے ہے، لہٰذا گھبرانے کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ کوئی بھی شعبہ کسی بھی انسان کی بھرپور کامیابی اُس وقت ہی ممکن ہونے دیتا ہے جب وہ اپنے آپ سے دیانت دار ہو، سنجیدہ ہو، کام کرنے کا بھرپور عزم رکھتا ہو اور اپنی سکت کو فضول سرگرمیوں کے بجائے اپنے کام میں بروئے کار لانے کا عادی ہو۔ فی زمانہ کسی بھی شعبے میں کامیابی مثالی نوعیت کی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں کیونکہ مسابقت بھی بہت زیادہ ہے اور ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ بھی بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ذہن کے لیے دباؤ محض مسابقت سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اور بھی بہت سے عوامل اِس راہ میں دیوار بنتے ہیں۔ آج کے انسان کو مختلف حوالوں سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ سوال صرف کیریئر کا نہیں، معاشرتی معاملات کا بھی ہے۔ ظاہر میں ایسا بہت کچھ ہے جو باطن پر اثرات مرتب کرنے میں دیر لگاتا ہے نہ تھکتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اپنے حواس کو قابو میں رکھنا چاہتا ہے، کام کرنے کی صلاحیت میں گراوٹ روکنے کا خواہش مند ہے تو بہت محنت کرنا پڑے گی۔ سنجیدگی اِس دور کا انتہائی بنیادی تقاضا ہے اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ لوگ سنجیدگی ہی کی طرف نہیں آتے۔
نئی نسل کے لیے یہ سب کچھ سوہانِ روح کے درجے میں ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہے، بہت کچھ بننے کی خواہش مند ہے مگر حالات حوصلہ شکن دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف تو مسابقت زیادہ ہے اور دوسری طرف مختلف شعبوں میں پیش رفت کے بازار کی گرمی نئی نسل کا ذہن مزید الجھاتی ہے۔ بہت کچھ نیا سامنے آتا رہتا ہے اور ذہن کی گِرہوں میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ آج کی نئی نسل کو کامیابی کے حوالے سے غیر معمولی تربیت کی ضرورت ہے۔ ایک طرف تو لیاقت بڑھانی ہے اور دوسری طرف ذہن کا درست رہنا بھی لازم ہے۔ مایوسی کا گراف نیچے لانے اور اعتماد کا گراف بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نئی نسل کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے کہ فی زمانہ بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ میدان میں ڈٹے رہنے کی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ اس معاملے میں برتی جانے والی کوتاہی زندگی کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہیں لگاتی۔ وقت بہت کچھ سکھاتا ہے، ثابت قدمی بھی۔ ثابت قدم رہنے والے ہی دور تک چل پاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں