پاکستان اور آئی ایم ایف کا تعلق سمجھنا اور بیان کرنا ہو تو ذرا ذہن کے پردے پر انگور کے دانے کا تصور باندھیے۔ انگور کا دانہ کھٹا میٹھا ہوتا ہے۔ ہمارا اور آئی ایم ایف کا تعلق بھی کھٹا میٹھا ہی رہا ہے۔ جب کبھی کھٹاس بہت بڑھ جاتی ہے تب ''بڑوں‘‘ کے اشارے پر آئی ایم ایف کی طرف سے مٹھاس کا گراف تھوڑا سا بلند کردیا جاتا ہے تاکہ منہ کا ذائقہ کچھ بہتر ہو جائے۔ آئی ایم ایف کا یہی کام ہے۔ دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے مغربی دنیا نے اس ادارے کو بنیادی آلۂ کار کے طور پر بروئے لانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ نصف صدی سے بھی زائد مدت کے دوران آئی ایم ایف نے کئی خطوں کی بساط اُلٹی پلٹی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے جب انتہائی نوعیت کے حالات رونما ہوتے ہیں تب آئی ایم ایف جیسے اداروں کو متحرک کیا جاتا ہے تاکہ معاملات کسی حد تک قابو میں لائے جا سکیں۔ معاملات کو وہی لوگ درست کر سکتے ہیں جنہوں نے بگاڑا ہو کیونکہ انہی کو معلوم ہوتا ہے کہ خرابیاں کہاں کہاں اور کتنی ہیں۔ آئی ایم ایف کے کرتا دھرتا بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کمزور اور حالات کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ممالک کی مشکلات کیا ہیں اور انہیں کس طور ایک خاص حد تک دور کیا جا سکتا ہے۔ اہلِ وطن یہ دیکھ دیکھ کر اور سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ ایک ہی سوراخ سے اپنے آپ کو کتنی بار اور کس حد تک ڈسوایا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوں کئی بار ہمارا تیا پانچا ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ ایک سال کے دوران اس ادارے نے جس طور کھلواڑ کیا ہے اس کے پیشِ نظر دلِ درد مند رکھنے والا ہر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر اس نوعیت کے اداروں سے جان چھڑانے میں قباحت کیا ہے۔ جن خرابیوں کے واقع ہونے کے خوف سے آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے سرِتسلیم خم کیا جاتا رہا ہے وہ تمام خرابیاں تو یوں بھی واقع ہوتی ہی رہی ہیں۔ ہم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ آئی ایم ایف کی چھتر چھایا نہ ہوگی تو مشکل حالات کی دھوپ ہمیں جھلسا دے گی۔ یہ خوف بلا جواز ہے کیونکہ ہمارے حالات تو سنبھلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ کسی کی چھتر چھایا ایک خاص حد تک ہی تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ اگر جڑیں مضبوط نہ ہوں تو درخت کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔
آئی ایم ایف نے ہمارے معاملے میں ہمیشہ منفی کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے حالات جس قدر مشکل ہوتے ہیں‘ آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی جانے والی شرائط بھی اسی قدر سخت ہوتی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ مغربی آقاؤں کے اشارے پر ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ مل کر اس ادارے کو کنٹرول کرتے ہیں اور انہی کے اشاروں پر کمزور ممالک کی گردن میں پھندا ڈالا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک اپنے خراب حالات کے باعث کبھی کبھی اتنے مجبور ہو جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی پیش کردہ تمام شرائط تسلیم کر لیتے ہیں اور پھر خمیازہ بھگتتے ہیں۔ ہمارے باہمی تعلق کی جو نوعیت رہی ہے‘ اسے بیان کرنے کے لیے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس الجھن کے بیان کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ کمزور ممالک کی گردن دبوچے رکھنے والے اس استعماری ادارے سے اپنے تعلقات کی حقیقت سمجھنے کے لیے یہ چند اشعار کافی ہوں گے ؎
دل کی دنیا کو جو برباد کیا کرتا ہے
اُسی بے درد کو دل یاد کیا کرتا ہے
جب کبھی ظلم وہ ایجاد کیا کرتا ہے
سب سے پہلے وہ مجھے یاد کیا کرتا ہے
وہ عجب لطف سے بیداد کیا کرتا ہے
بال و پَر نوچ کے آزاد کیا کرتا ہے
یہی حقیقت ہے۔ ہم نے شاید طے کر لیا ہے کہ اپنے ذہن کو بروئے کار لانا ہے نہ حمیت ہی کو زحمتِ کار دینی ہے۔ غالبؔ نے شاید اسی تعلق کی نسبت کہا تھا ع
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کے ہاتھوں کئی بار ہماری معیشت کا تیا پانچا ہوا ہے مگر ہمارے حکمران گزرے زمانوں سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ انہیں شاید یہ سبق سیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ان پر یہ سب کچھ اثر انداز نہیں ہوتا۔ ان کے شب و روز کی کیفیت الگ ہے‘ معمولات کچھ اور ہیں اور مفادات کا معاملہ بھی ایسا نہیں کہ ہم سمجھ نہ سکیں۔ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ہاتھوں واقع ہونے والی ہر پریشانی کا بوجھ بالآخر عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جب بوجھ حتمی تجزیے میں صرف عوام کو برداشت کرنا ہے تو کسی اور طبقے کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آئی ایم ایف نے کم و بیش ایک سال کے دوران جو کچھ کیا ہے اس کے نتیجے میں ہماری معیشت غیریقینی کیفیت سے دوچار رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ اور منی ایکسچینج مارکیٹ بھی الجھنوں کا شکار رہی ہے۔ ڈالر کے معاملے میں انتہائی نوعیت کا تماشا قوم دیکھ ہی چکی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے غیرمعمولی نشیب و فراز نے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بری طرح مجروح کیا ہے۔ مجموعی طور پر پوری قوم کا مورال گرتا گیا۔ قوم نہیں چاہتی کہ عالمی اداروں کی مزید غلامی اختیار کی جائے۔ ان اداروں نے ہمیشہ تھوڑی سی امداد دے کر پورے معاشرے کو تلپٹ کیا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی جانے والی شرائط سراسر عوام مخالف ہوتی ہیں۔ یوٹیلیٹیز پر ٹیکس بڑھانے کی بات کی جاتی ہے، اشرافیہ کے اللّے تللّے ختم کرنے پر برائے نام بھی زور نہیں دیا جاتا۔
گزشتہ برس حکومت کی تبدیلی کے بعد سے اب تک آئی ایم ایف نے پاکستان کی اندرونی مشکلات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ہر بار مذاکرات میں ناکامی کی خبر بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنتی رہی۔ دیگر عالمی ادارے بھی آئی ایم ایف سے بات بنتی نہ دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتے۔ دوست ممالک ہمارے لیے اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھنے کی ہمت پیدا نہیں کر پاتے کیونکہ انہیں بھی عالمی برادری میں تنہا رہ جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔ اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس کھٹے میٹھے رشتے کے بارے میں پوری سنجیدگی سے کچھ سوچا جائے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس کا رقبہ بھی کم نہیں اور محلِ وقوع بھی اہم ہے۔ کئی اعتبار سے اسے وسطی ایشیا کے گیٹ وے کا درجہ حاصل ہے۔ اس محلِ وقوع کا جو فائدہ اٹھانا چاہیے‘ وہ اٹھایا نہیں جا رہا۔ یا یہ کہیے کہ اپنے محلِ وقوع کا جائز فائدہ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ جیسے کسی کے ہاتھ باندھ کر اسے باکسنگ رِنگ میں اتارا جائے۔ آئی ایم ایف نے ہم سے اب تک جتنے بھی وعدے کیے ہیں وہ اس طور نبھائے ہیں کہ ان کے نبھائے جانے کا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ مدد وقت پر درکار ہوتی ہے۔ وقت گزر جائے تو مدد کا خاطر خواہ فائدہ پہنچ نہیں سکتا۔ بیشتر معاملات میں آئی ایم ایف کے وعدوں کی مجموعی کیفیت، بقول استاد قمرؔ جلالوی یہ رہی کہ ؎
مرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا
کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے
اب ہمیں طے کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف سے معاملات کو آگے بڑھانا بھی ہے یا نہیں۔ اگر اس عالمی ادارے کے وعدوں کی نوعیت وہی رہی جو اب تک رہی ہے تو پھر ایسے تعلق کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم جن الجھنوں سے خائف رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی شکل میں وارد ہوکر ہی رہتی ہیں۔ اگر آئی ایم ایف دنیا کو چار دن کا معاملہ سمجھ کر پانچویں دن کا وعدہ کرتا ہے تو بہتر ہو گا کہ ہماری زندگی ایسے وعدوں سے پاک ہی رہے۔