"MIK" (space) message & send to 7575

جئیں تو جئیں کیسے؟

بعض رونے تو اب مستقبل ہیں۔ ان میں مہنگائی نمایاں ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ چونکہ زندگی بھر کا رونا ہے اس لیے نفسی ساخت کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو ہماری نفسی ساخت کا حصہ ہے اور رہے گا تاہم مہنگائی کا معاملہ کچھ زیادہ اور نمایاں ہے اس لیے ہمیں اس کی موجودگی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ فطری ہے کیونکہ مہنگائی کا معاملہ سبھی کے ساتھ ہے۔ ہر طبقے کو کسی نہ کسی شکل میں مہنگائی کا سامنا رہتا ہی ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ شدید غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ انتہائی مال دار طبقے کے لوگ کسی بھی طرح کے دردِ سر سے دوچار نہیں اور یہ کہ ان کی زندگی میں سُکھ ہی سُکھ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ مشکلات سب کے لیے ہیں‘ دُکھڑے سبھی کے ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں روئے بھی جاتے ہیں۔ انتہائی مال دار طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ہاں‘ ان مسائل کی نوعیت بہت مختلف ہے اس لیے عام آدمی یعنی غریب آدمی ان مسائل کی نوعیت اور شدت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ڈھیروں دولت کا حامل ہونا تمام مسائل کا حل نہیں۔
مہنگائی کا معاملہ چونکہ زندگی بھر کا ہے اس لیے اسے محض سرسری طور پر لینے کے بجائے اس کے بارے میں زیادہ سوچنا چاہیے۔ اس کے بارے میں سوچنے سے مراد اس کے تدارک کیلئے سوچنا ہے۔ مہنگائی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوا ہے۔ معاشی ڈھانچے کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ کسی چیز کے دام بڑھ جائیں تو پھر کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ کھلے بازار کی معیشت میں سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔ بازار اور مسابقت پر اثر انداز ہونے والے عوامل بہت سے ہیں۔ انتہائی طاقتور کاروباری ادارے اور خاندان مل کر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو نرخوں میں اضافے کی راہ ہموار کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں حصہ لینے والے بھول جاتے ہیں کہ جن کی جیبیں خالی کرائی جارہی ہیں ان کا زندہ رہنا بھی لازم ہے تاکہ منافع یقینی بنایا جاتا رہے۔ جن سے منافع کمانا ہے اگر وہی نہ رہیں تو؟مہنگائی کا سامنا کرنے کیلئے تیاری کرتے رہنا کم و بیش سب کیلئے لازمے کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ چیزیں مہنگی ہی کیوں ہوتی رہیں؟ جب کسی بھی چیز کی پیداوار زیادہ ہو تو قیمت کو کھلے بازار کی معیشت کے اصول کے مطابق نیچے آنا چاہیے۔ چند ایک ایسی اشیا کے معاملے میں ایسا ضرور ہوتا ہے جنہیں خراب ہونے سے بچایا نہیں جا سکتا۔ پھلوں‘ سبزیوں وغیرہ کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان اشیا کو زیادہ دیر محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر ایسا ممکن ہو تو ہم ان کی قیمتوں میں بھی کبھی گراوٹ نہ دیکھیں۔ اناج ہی کی مثال لیجئے۔ ہر طرح کے اناج کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے اس لیے اس کی قیمت نیچے آنے کا نام نہیں لیتی۔ بڑے کاروباری ادارے اور دکان دار وغیرہ اناج بہت بڑے پیمانے پر ذخیرہ کر رکھتے ہیں۔ جب پیداوار گھٹتی ہے تو اناج کی تمام اقسام پر زیادہ دام وصول کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ یہاں اخلاقی اصولوں پر بحث کی گنجائش نہیں کہ ایسا کرنا درست ہے یا نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا ہو رہا ہے۔ چھوٹے اور بڑے دکان دار بدلتی ہوئی صورتحال سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ نقصان میں اگر کوئی رہتا ہے تو بس غریب آدمی۔ کسی بھی معاملے میں اس کا بس نہیں چلتا۔ وہ بے چارہ بس منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ غالبؔ نے شاید ایسی ہی حالت کیلئے کہا تھا ؎
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے معاشی معاملات میں ہر طرح کے جبر کو قبول اور ہضم کرنا سیکھ لیا ہے۔ اس حوالے سے جس قدر تفکر اور تدبر کی ضرورت پڑتی ہے اس کی ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرتا مگر اس کوچے میں قدم رکھنے والے برائے نام ہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر تدبر کا تقاضا کرتی ہے۔ سوال معیشت کا ہو یا معاشرت کا‘ ہمیں بہت ٹھہر ٹھہر کر‘ سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ زندگی کسی کیلئے بھی آسان نہیں۔ ایک زمانے سے یہ تصور ذہنوں کے پردے پر رہا ہے کہ مال دار طبقے کیلئے مشکلات نہیں ہوتیں۔ اب محسوس کیا جارہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مال دار بھی الجھنوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کیلئے بھی بہت سے معاملات یکسر‘ سر بہ سر خسارے کے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کے بیشتر اہم ترین معاملات پر انتہائی طاقتور اور مالدار طبقہ اثر انداز ہوتا ہے۔ پھر بھی ہمیں یہ حقیقت کسی صورت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ ہر شعبے کے آجرین کیلئے بھی مسائل ہوتے ہیں۔ کورونا کی وبا ہی کو لیجئے۔ تب ملک بھر میں آجروں کیلئے شدید الجھنیں پیدا ہوئی تھیں۔ ہزاروں کارخانے بند پڑے تھے مگر تنخواہیں کسی نہ کسی طور دی جاتی رہیں۔ شدید مالی مشکلات کے باعث سینکڑوں بڑے کارخانے بند بھی کرنا پڑے۔ یہ سب کچھ عام آدمی کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ ہر سطح کی مشکلات اس سطح کے مطابق ہوتی ہیں۔ کاروباری طبقہ اگر جی بھرکے منافع کماتا ہے تو کبھی کبھی شدید خسارے کا بھی سامنا کرتا ہے۔
جینا کبھی کوئی بہت مشکل کام نہیں رہا۔ کسی بھی دور کے انسان کو جینے کے معاملے میں کچھ خاص الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں‘ ڈھنگ سے جینا فن کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ فن انسان ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا بلکہ اس دنیا میں بھرپور لیاقت و محنت کے ذریعے سیکھنا پڑتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں صرف اسی کیلئے کچھ ہے جو دوسروں سے زیادہ اور اچھا کرکے دکھاتا ہے۔ اگر کسی نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہے تو ہم یہ توقع کیونکر رکھیں کہ وہ اچانک اچھی زندگی بسر کرنے لگے گا؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کسی بھی معاملے میں اور کسی بھی مخلوق کیلئے ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ہم حیوانات کی دنیا کا جائزہ لیں تو وہاں بھی صرف انہی کو ڈھنگ سے جینے کے قابل پائیں گے جو تھوڑی بہت منصوبہ سازی کرتے ہوں‘ حالات پر نظر رکھتے ہوں اور بدلتی ہوئی صورتحال سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے ہوں۔
مہنگائی کا طوفان تھمنے والا نہیں۔ جب سیلاب یا کوئی اور ناگہانی کیفیت وارد ہوتی ہے تو ہم رونا نہیں روتے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نقلِ مکانی کرنی ہو تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سمندری طوفان اور طوفانِ باد و باراں کے معاملے میں بھی ہم یہی تو کرتے ہیں۔ مہنگائی کو بھی اسی نفسیات کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ مہنگائی کسی بھی اعتبار سے کوئی پسندیدہ معاملہ نہیں مگر یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ مہنگائی سے فائدہ اٹھانے کے مواقع سبھی کیلئے ہوتے ہیں۔ عام آدمی چونکہ حالات کے جبر کا کچھ زیادہ سامنا کر رہا ہوتا ہے اس لیے وہ حالات میں رونما ہونے والی بعض نافع تبدیلیوں سے استفادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کیلئے زیادہ کمانے کی گنجائش بھی پیدا ہوتی ہے۔ اگر کوئی اس گنجائش سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں نہ سوچے تو یہ اس کا دردِ سر ہے۔
ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونا ہر انسان کیلئے بنیادی فریضے کا درجہ رکھتا ہے۔ حالات چاہے کچھ ہوں‘ مہنگائی ہو یا نہ ہو‘ انسان اگر ڈھنگ سے جینا چاہتا ہے تو متحرک رہنا پڑے گا‘ حالات پر نظر رکھنا پڑے گی اور تمام بنیادی تبدیلیاں یقینی بنانے کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔ جینا مسئلہ نہیں‘ ڈھنگ سے جینا یقیناً مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو ڈھنگ سے حل کرنے کے بارے میں سوچنا ہر باشعور انسان کیلئے لازمے کا درجہ رکھتا ہے۔ زندگی ہمارے لیے مشکلات بھی پیدا کرتی ہے اور آسانیاں بھی۔ ہاں‘ جب ہم ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ دیتے ہیں تب الجھنیں ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ یہی تو ہمیں نہیں کرنا ہے۔ دنیا جیسی ہے ویسی ہی رہے گی۔ سوال دنیا کو بدلنے کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو بدلنے کا ہے۔ اس کیلئے سوچ بدلنا لازم ہے۔ مہنگائی ہو یا کوئی اور معاملہ‘ ڈھنگ سے جینا شعوری فیصلہ ہے اور یہ شعوری فیصلہ ہمیں آزماتا ہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں