"MIK" (space) message & send to 7575

جو آشیاں میں ہے اپنے وہ باغ بھر میں نہیں

کسی بھی انسان کے لیے سب سے اہم ماحول کون سا ہوتا ہے؟ اس کا اپنا ماحول۔ جس معاشرے میں زندگی بسر کی جارہی ہے اس سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیے‘ سکون ملے گا تو صرف اپنے معاشرے میں۔ وطن پھر وطن ہوتا ہے۔ ہزار خرابیوں کے باوجود یہ اپنا ہوتا ہے۔ اس سے محبت ہی دل کو سکون عطا کرتی ہے۔ انسان کسی بھی معاشرے سے متاثر ہو سکتا ہے‘ اسے پسند کر سکتا ہے اور اس سے محبت بھی کر سکتا ہے لیکن اگر وہ اپنے معاشرے سے (جس میں وہ پلا بڑھا ہو‘ خواب دیکھے ہوں اور عملی زندگی شروع کی ہو) محبت نہیں کرتا تو اس کی شخصیت میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔
اپنے ماحول یا وطن سے محبت بچپن میں سکھانے کا عمل ہوتا ہے۔ ہر بچے کو اپنے وطن سے پیار ہونا چاہیے کیونکہ اسی کو بڑا ہوکر اپنے وطن کے لیے کچھ کرنا ہے۔ انسان اگر اپنے ماحول سے محبت نہ کرتا ہو تو اپنی شخصیت میں بھی ادھورے پن کا شکار رہتا ہے۔ وطن سے پیار نہ ہونے پر انسان اپنی نفسی ساخت میں خلا محسوس کرتا ہے۔ یہ خلا رفتہ رفتہ پورے وجود پر محیط ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انسان کے پاس صرف زود رنج ہونا رہ جاتا ہے۔ پھر وہ بات بات پر الجھتا ہے۔ کبھی لوگوں سے لڑتا ہے اور کبھی اپنے آپ سے۔
فی زمانہ کئی خطرناک رجحانات انسانیت کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں۔ انہی میں ایک رجحان اپنے ماحول سے بیزاری اور دوسروں کو برتر جانتے ہوئے ان کا حصہ بننے کی بے تابی ہے۔ مغربی دنیا ہمارے لیے انتہائی پُرکشش ہے۔ ہم یعنی پس ماندہ دنیا کے لوگ۔ پھر چاہے وہ جنوبی ایشیا و جنوب مشرقی ایشیا کے لوگ ہوں یا پھر جنوبی امریکا و افریقا کے۔ ہر پس ماندہ خطے کے لوگ مغرب کی طرف لپک رہے ہیں۔ یہ کشش صرف اور صرف مادیت کی ہے۔ مغرب میں مادی اعتبار سے عقل کو دنگ کر دینے والی پیش رفت ممکن بنائی جا سکی ہے۔ مغربی معاشروں میں جو کچھ بھی ہے‘ وہ سامنے ہی سامنے کا ہے۔ پسِ پردہ کچھ بھی نہیں۔ یہ معاشرے روحانیت پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا آخرت پر بھی ایمان نہیں۔ یہ معاشرے اسی دنیا کو سب کچھ قرار دیتے ہوئے صرف اس کے لیے زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مغربی ممالک نے میڈیا کے ذریعے جہاں جہاں اپنے ایجنڈے پھیلائے ہیں وہاں اس بات کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ لوگ صرف مادیت میں گم ہوکر رہ جائیں‘ اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اس کی رنگینیوں کے حصول کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ کر گزریں۔ اس ذہنیت کو قبول کرنے سے انسان خالص دنیا پرست ہوکر رہ جاتا ہے۔
مغربی معاشروں کو دیکھ کر ہم بہت کچھ اخذ کرتے رہتے ہیں مگر یہ سب کچھ صرف مادہ پرستی کی سطح پر ہے۔ روحانیت کے نام پر ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ہاں ایسے ''دانشور‘‘ خاصی بڑی تعداد میں ہیں جن کی نظر میں یہ دنیا ہی سب کچھ ہے اور اس اعتبار سے مغربی معاشرے ان کے آئیڈیل ہیں۔ یہ لوگ اپنے طور پر نئی نسل کی برین واشنگ بھی کر رہے ہیں کہ اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اس میں گم ہو رہیے‘ آخرت وغیرہ کچھ نہیں۔
وطن سے بیزاری کا رجحان ڈھائی تین عشروں کے دوران غیرمعمولی تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں۔ کم و بیش ہر پس ماندہ معاشرے میں یہی ہو رہا ہے۔ اعلیٰ ترین ذہن کسی اور دنیا میں آباد ہونے کا سوچتے رہتے ہیں اور پھر آباد ہو بھی جاتے ہیں۔ اس میں بظاہر کوئی قباحت نہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ ہر انسان بہتر معاشی امکانات چاہتا ہے۔ وہ اپنے لیے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے بلند تر معیارِ زندگی کا خواہاں ہوتا ہے۔ اگر اپنے معاشرے میں زیادہ امکانات دکھائی نہ دے رہے ہوں تو انسان کہیں اور طبع آزمائی کے بارے میں سوچتا ہے۔ بات اس وقت بگڑتی ہے جب انسان اپنے ماحول اور معاشرے سے بیزاری کو حرزِ جاں بنا لیتا ہے۔ جب ذہن میں یہ گرہ پڑ جاتی ہے کہ اپنے ملک میں‘ اپنے ماحول میں کچھ کرنا ہی نہیں ہے تب خرابیوں کو سَر اٹھانے اور سُر بکھیرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بات تو ماننے والی ہے کہ اگر کسی میں غیرمعمولی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہو اور اپنے ماحول میں بات نہ بن رہی ہو تو کہیں اور طبع آزمائی کرنے ہی کا سوچے گا۔ ملک کے اندر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ ہزار بارہ سو کلو میٹر دور کسی اجنبی شہر میں آباد ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ ان کے آبائی علاقوں میں بہتر اور رَس دار معاشی مواقع نہیں ہوتے۔ بالائی علاقوں کے لوگ راولپنڈی‘ لاہور‘ ملتان اور کراچی میں نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ ملک کی حدود میں رہتے ہوئے بھی اُنہیں گھر سے دوری کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔
کسی نہ کسی طور بہتر معاشی امکانات تک رسائی کی خواہش اگر زور پکڑلے تو انسان کو خرابیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اس معاملے میں پنپنے والی بے تابی عجیب ہی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ پھر انسان کا اپنے وجود پر بھی کچھ خاص اختیار باقی نہیں رہتا ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ ہمارے ہاں لاکھوں نوجوان اور جوان بیرونِ ملک طبع آزمائی کی کوشش کے دوران کم و بیش ایک عشرے تک اپنے ماحول میں ڈھنگ سے طبع آزمائی سے گریزاں رہتے ہیں؟ کسی ترقی یافتہ ملک کا حصہ بننے کے خواب دیکھتے دیکھتے وہ اپنے ہاں وہ کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے جو وہ کر سکتے ہیں۔ اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار نہ لاتے ہوئے وہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ یہاں تو کچھ مل ہی نہیں رہا‘ اب کہیں اور جاکر ہی کچھ کرنا ہے تو پھر یہاں سَر پھوڑنے سے کیا حاصل! یہی سبب ہے کہ بیرونِ ملک آباد ہونے کے خواہش مندوں کی اکثریت آپ کو ''فارغ‘‘ ملے گی۔ یہ ہے ایک بڑا نقصان۔ اور پھر یوں بھی ہے کہ بیرونِ ملک ملازمت تلاش کرنے اور وہاں آباد ہونے کی کوشش میں کچھ خاص کامیابی ممکن نہ بنائی جا سکے تو انسان فطری طور پر بیزاری سی محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ بیزاری اپنی ذات سے نکل کر ماحول پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسے لوگ گھر کے ساتھ ساتھ مل بیٹھنے کے ماحول کو بھی خراب کرتے رہتے ہیں۔
زندگی جیسی نعمت کو یوں کسی ایک خواہش کی بھینٹ چڑھانا کسی بھی درجے میں مناسب اور قابلِ قبول نہیں۔ اس حوالے سے نئی نسل کو خصوصی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔ سکول اور کالج کی سطح پر انہیں سمجھایا جانا چاہیے کہ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں بیزاری سے بھی بچنا ہے اور بے دِلی سے بھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلے مرحلے میں اپنے ملک کی حدود میں رہتے ہوئے کچھ کرنے کے بارے میں سوچنا ہے۔ انسان اگر اپنے ماحول میں کچھ خاص نہ کر پائے تو بیرونِ ملک کیا کرے گا؟ وہاں تو معاملات بہت سخت ہوتے ہیں۔ حالات و شرائطِ کار کے تحت انسان کو ہر طرح کے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں بیرونی محنت کشوں کو پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ یورپ میں نظم و ضبط کے معاملات میں ذرا سی بھی لچک نہیں۔ جو لوگ اپنے معاشرے میں کچھ خاص نہیں کر پاتے وہ بیرونِ ملک اور بالخصوص ترقی یافتہ معاشروں میں غیرمعمولی الجھنوں کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر وہ نظم و ضبط کے پابند نہ ہو پائیں تو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور اگر ملک میں بے ہنگم زندگی بسر کرنے کے بعد وہ بیرونِ ملک پلک جھپکتے میں نظم و ضبط اور ترتیب کو اپنا لیں تو پھر اُنہیں اپنے معاشرے کا غدار ہی قرار دیا جائے گا۔
کہیں جاکر کچھ کرنے کے خواہش مندوں کے لیے ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پہلے اپنے ماحول میں دلچسپی لیں۔ اس مرحلے میں کامیاب ہوکر ہی وہ کہیں اور بھی کچھ کر سکتے ہیں۔ کہیں بھی کچھ بھی مل سکتا ہے مگر جو کچھ اپنے وطن میں ہے وہ کہیں اور نہیں۔ وطن اس وقت وطن بنتا ہے جب ہم اس سے محبت کریں۔ آرزوؔ لکھنوی نے (1938ء کی فلم ''اسٹریٹ سنگر‘‘ کے لیے) خوب کہا ہے ؎
سکون دل کا میسّر گل و ثمر میں نہیں
جو آشیاں میں ہے اپنے وہ باغ بھر میں نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں