تحقیق کے لیے چند موضوعات سدابہار ہیں یعنی محققین بھی اُس موضوع کو پسند کرتے ہیں اور عوام بھی۔ اِن موضوعات پر جتنا بھی پڑھنے کو ملے لوگ پڑھتے ہیں۔ ڈپریشن بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے۔ دنیا بھر میں ڈپریشن کے حوالے سے تحقیق عشروں سے ہو رہی ہے اور اِس کی رفتار بڑھتی جارہی ہے۔ ویسے اچھی خاصی تحقیق ہوچکی ہے اور یہ بھی کافی ہے۔ ہر دور‘ ہر صدی نے انسان کو مختلف حوالوں سے دو راہوں پر لا کھڑا کیا۔ ایسے مراحل بھی آئے کہ ذہن فیصلہ کرتے کرتے تھک گئے کہ اِدھر جائیں یا اُدھر جائیں۔ اکیسویں صدی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ اِس کے تقاضوں کو سمجھنے کے لیے بھی ذہنِ رسا درکار ہے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ مشکل اور پیچیدہ معاملات کو سمجھنے کے لیے ذہنِ رسا کہاں سے لائے‘ وہ تو بہت معمولی نوعیت کی باتیں سمجھنے کے معاملے میں بھی بُودا واقع ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ زندگی بس یونہی گزر جائے‘ زیادہ سوچنا نہ پڑے۔ سوچنے سے بھاگنے کی روش عام ہے۔ یہ چلن ہر طبقے میں‘ ہر سطح پر عام ہے۔ اس کے ساتھ جُڑا ہوا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمل کی منزل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ عمل کی منزل سے گزرنا ہر دور کے انسان کیلئے انتہائی مشکل معاملہ رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔
ڈپریشن کو اب تک عارضہ سمجھا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں معالجین اِس عارضے کے تدارک کے حوالے سے متحرک ہیں۔ اب یہ بات کسی حد تک تسلیم کی جارہی ہے کہ ڈپریشن اپنے آپ میں کوئی نفسی عارضہ کم اور ہماری زندگی کا حصہ زیادہ ہے۔ ڈپریشن اب ہماری نفسی ساخت کی زمین میں گڑا ہوا کھمبا ہے۔ عارضہ تو وہ ہوتا ہے جو کسی کسی کو لاحق ہو۔ اس اعتبار سے ڈپریشن کو عارضہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ یہ تقریباً ہر کسی کا معاملہ ہے یعنی سبھی کو لاحق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بیماری کم اور نوشتۂ تقدیر زیادہ ہے! دنیا بھر میں نفسی امور کے ماہرین ڈپریشن کے حوالے سے دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ تحقیق کا سارا زور ڈپریشن کے نتائج پر مرکوز ہے۔ اسباب کے بارے میں سوچنے سے بالعموم گریز کیا جاتا ہے۔ اگر کسی معاملے کو عارضہ سمجھا ہی جارہا ہے تو ناگزیر ہے کہ اُس کے اسباب کے بارے میں سوچا جائے۔ ڈپریشن کے معاملے میں بھی یہی طرزِ فکر اپنانے کی ضرورت ہے۔
فی زمانہ کم و بیش ہر انسان کے ذہن پر ایک عجیب سا دباؤ ہے۔ یہ دباؤ کسی جسمانی پیچیدگی کا نتیجہ نہیں۔ اگر جسم بھرپور قوت کے ساتھ کام کر رہا ہو تب بھی ذہن الجھا رہتا ہے۔ جو لوگ بہت اچھی خوراک اور پھل وغیرہ بھی کھاتے ہیں اُن میں ذہنی الجھنوں کا پایا جانا عام بات ہے۔ ایسا اِس لیے ہے کہ ہم جس زمانے میں زندہ ہیں وہ گزرے ہوئے تمام زمانوں سے بالکل مختلف ہے۔ انسان نے تین ساڑھے تین ہزار سال کے علمی و فنی سفر میں جو کچھ بھی کیا ہے اُس کا نچوڑ اب سامنے آیا ہے۔ تمام ادوار کی دانش کا ثمر ہر انسان کو میسر ہے۔ جو مستفید ہونا چاہے ہوسکتا ہے۔ تین ساڑھے تین ہزار سال کی محنت کے نتائج اپنی جامع ترین شکل میں ہمارے سامنے ہیں اور آسانی سے اپنائے بھی جاسکتے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں کے کسی انسان کو دوبارہ زندگی دے کر اِس دنیا میں بھیجا جائے تو حیران رہ جائے اور ہر طرح کی علمی و فنی سہولت سے مستفید ہونے کی پوزیشن میں ہونے پر رشک کرے۔
ہم اِس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہیں کہ جو کچھ بھی پڑھنا چاہیں آسانی سے پڑھ سکتے ہیں، جو تجربے کرنا چاہیں‘ کرسکتے ہیں۔ سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے تک یہ حال تھا کہ اہلِ علم و فن بہت کچھ سوچتے تھے مگر اُسے آزمائش کے مرحلے سے نہیں گزار سکتے تھے کیونکہ مطلوب سہولتیں، آلات وغیرہ میسر نہ تھے۔ سفر بھی آسان نہ تھا۔ کہیں جانا یا وہاں سے کچھ منگوانا دردِ سر سے کم نہ تھا۔ علمی اور فنی معاملات میں مہم جُوئی اب کوئی مسئلہ نہیں رہی۔ انسان جو شعبہ منتخب کرے اُس میں انتہائی درجے تک پہنچ سکتا ہے۔ کوئی بھی ہنر سیکھنا اب کوئی بات ہی نہیں۔ کسی بھی شعبے میں مہارت کا گراف بلند کرتے چلے جانے کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔ جب اِتنی آسانیاں اور سہولتیں تو پھر کون سی مشکلات ہماری زندگی میں الجھنیں بڑھارہی ہیں؟ یہ آسانیاں ہی تو مشکلات پیدا کر رہی ہیں! اب بہت کچھ کرنا آسان ہوچکا ہے مگر کچھ بھی اِس طور کرنا انتہائی دشوار ہے کہ دنیا دیکھے اور سراہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ڈھنگ سے گانا مشکل کام تھا کیونکہ ساز و آواز کا تال میل بٹھانا دردِ سر تھا۔ ایسا انتظام بھی نہیں تھا کہ کوئی گائے تو سینکڑوں یا ہزاروں افراد اجتماع کی شکل میں براہِ راست سنیں۔ گانا ریکارڈ کرنا تو اِس سے بھی آگے کا اور انتہائی پیچیدہ معاملہ تھا۔ ریڈیو کے ابتدائی دور میں بھی یہ کام بہت مشکل تھا۔ سٹوڈیوز سے گانا براہِ راست نشر کرنے کے لیے خاصا اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ مشینری جاندار نہ تھی۔ ریکارڈنگ میں بھرپور مدد کرنے والی ٹیکنالوجی کا نام و نشان نہ تھا۔ لے دے کر بس ریکارڈنگ کی سہولت موجود تھی۔ تب مسابقت زیادہ تھی۔ کچھ کر دکھانا بہت مشکل امر تھا۔
آج معاملہ یہ ہے کہ ہر شعبے میں انتہائی نوعیت کی پیش رفت ہوچکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں ہر انسان کے ذہن پر شدید دباؤ بنا ہوا ہے۔ آج کا انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے کیونکہ ایسا کرنے کے لیے سہولتیں میسر ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کرنا کیا ہے۔ ہر شعبے میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے مگر ساتھ ہی ساتھ مسابقت بھی ایسی ہے کہ دانتوں پسینہ آجائے۔ جب ٹیکنالوجیز نے انسان کا ساتھ دینا شروع نہیں کیا تھا تب بہت کچھ کرنا آسان تھا۔ اب غیر معمولی بلکہ حیران کن ٹیکنالوجیز کے ہوتے ہوئے کچھ اچھا کر دکھانا دردِ سر ہوگیا ہے۔
آج کے انسان کا بنیادی مخمصہ یہ ہے کہ کرنے کو بہت کچھ ہے اور وقت بہت کم ہے۔ جب کتابوں کی طباعت و اشاعت پیچیدہ مرحلہ تھا تب پڑھنا آسان تھا کیونکہ پڑھنے کے لیے مواد کم میسر تھا۔ لکھنے والے بہت محنت کرتے تھے‘ دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کرتے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کتاب لکھنا اور شائع کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ روزانہ ہزاروں کتابیں انٹرنیٹ کے خزانے میں داخل ہو رہی ہیں۔ پڑھنے کے لیے اِتنا کچھ ہے کہ ذہن دیکھ دیکھ کر الجھتا جاتا ہے۔ بات محض پڑھنے ہی کی نہیں‘ ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔ بڑھتی ہوئی مسابقت ذہن پر دباؤ برقرار رکھنے کا باعث ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنا کسی معالج کے بس کی بات نہیں۔ کچھ کر دکھانے کے حوالے سے ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ ہی کو ہم ڈپریشن کہتے ہیں۔ اِس کی بہت سے وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ممکنہ طور پر سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان فیصلہ ہی نہیں کر پاتا کہ کرے تو کیا کرے۔ اور اگر وہ کچھ کرنے کا فیصلہ کرنے کے مرحلے سے کامیاب گزر جائے تو یہ طے کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ کس طور کیا جائے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جن کی جیب خالی ہے وہ بھی پریشان ہیں اور جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں وہ بھی الجھنوں کا شکار ہیں۔ کوئی اِس گمان میں نہ رہے کہ ڈپریشن مالی مشکلات کا نتیجہ ہے۔ جن کے لیے مال کا کوئی مسئلہ ہی نہیں وہ بھی ڈھنگ سے کھا پی نہیں سکتے۔ خوشیاں اُن سے بھی بہت دور ہیں۔ سوچنا پڑے گا کہ آخر ایسا کیا ہے کہ انسان خالی جیب ہو تب بھی پریشان اور تجوری بھر پیسہ رکھتا ہو تب بھی پریشان۔
آج کی زندگی ناقابلِ یقین نوعیت کی سہولتوں کے ہاتھوں الجھ کر رہ گئی ہے۔ اب کچھ بھی کرنا تو بہت آسان ہے مگر ڈھنگ سے کچھ ایسا کرنا بہت مشکل ہے جو نام کمانے میں مدد دے۔ کسی بھی صلاحیت کا ابتدائی نوعیت کا اظہار آسان ہے مگر ٹھوس کارکردگی پیش کرنا اور لوگوں کو متاثر کرنا حقیقی دردِ سر ہے۔ یہی ڈپریشن کا اصل سبب ہے۔ دوائیں کھاکر اپنے آپ کو نیند کے حوالے سے کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان ڈپریشن کے ساتھ جینا سیکھے، بے حواس نہ ہونے کی تربیت حاصل کرے۔