"MIK" (space) message & send to 7575

خوشیوں کی تخلیق

عمریں گزر جاتی ہیں اور کچھ پتا نہیں چل پاتا کہ خوشی ملے گی تو کیسے اور ہم اُس سے محظوظ ہو پائیں گے تو کیسے۔ معاملہ بہت پیچیدہ دکھائی دیتا ہے مگر کچھ ایسا پیچیدہ بھی نہیں کہ ہم کوشش کریں اور سمجھ میں نہ آئے۔ خوشی کا حصول مشکل ہے نہ ہاتھ آنے والی خوشی سے محظوظ ہونا دشوار ہے۔ ہم زندگی بھر خوشیوں کو خریدنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اِس کے لیے بڑے پیمانے پر خرچ بھی کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جہاں سے بھی خوشی مل سکتی ہے، خرید لی جائے۔ یہ بہت عجیب معاملہ ہے۔ خوشی کی خریداری؟ کیا خوشی کو خریدا جاسکتا ہے؟ کیا عزت خریدی جاسکتی ہے؟ کوئی محض دولت کے بل پر اپنے لیے احترام خرید سکتا ہے؟ دولت کے ذریعے حاصل ہونے والا احترام درحقیقت احترام نہیں ہوتا۔ اُسے محض ڈھکوسلا قرار دیا جاسکتا ہے۔ چاپلوسی پر مبنی دکھاوے کو ہم احترام نہیں کہہ سکتے۔ ایسے ''احترام‘‘ سے ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے نہ ہم دل کا اطمینان یقینی بنا پاتے ہیں۔ دولت سے ہم بہت کچھ خرید سکتے ہیں مگر صرف مادّی سطح پر۔ روحانی معاملات میں ہم دولت سے دو ٹکے کی بھی خریداری نہیں کرسکتے۔ ہم میں سے کون ہے جو اِس حقیقت کو نہ سمجھتا ہو مگر بیشتر کا حال یہ ہے کہ جب موقع آتا ہے تو ناسمجھ بچہ بن جاتے ہیں اور آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے لگتے ہیں۔ اپنے نفس کو دھوکا دینے کے کئی طریقے ہیں۔ بالکل سامنے کی بات یا حقیقت کو نظر انداز کرنے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
زندگی کو خوشی خوشی گزارنا کس کی خواہش نہیں؟ دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے کہ جب تک دم میں دم ہے، خوشی خوشی بسر ہوتی رہے۔ سوال یہ ہے کہ خوشی سے لوگ کیا مراد لیتے ہیں۔ کن معاملات کو ہم خوشی سے تعبیر کرسکتے ہیں؟ کیا خوشی اِس بات کا نام ہے کہ انسان کے پاس ڈھیروں دولت ہو؟ کیا بہت سے مکانات یا املاک کا مالک ہونے سے خوشی ملتی ہے؟ کیا خوشی محض گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کا نام ہے؟ خوشی کو پرکھنے اور جانچنے کا معیار کیا ہے؟ انسان کن باتوں سے خوش ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے؟ ہم اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کیے رہتے ہیں کہ خوشی نہ تو خریدی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی کے ہاتھوں مل سکتی ہے۔ یہ تو صرف اور صرف تخلیق کا معاملہ ہے۔ ہر انسان کو اپنے حصے کی خوشیاں پیدا کرنا پڑتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ خوشی بہت بڑے معاملے کے بطن سے ہویدا ہوتی ہے۔ یہ تو کسی معمولی سی بات سے بھی پیدا ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ جو لوگ خوشیوں کا اہتمام کرنے کی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں وہ کسی بھی معاملے سے اپنے لیے خوشی کا سامان کرلیتے ہیں۔ خوشی کا اہتمام کرنا یعنی کسی بھی معاملے سے اپنے حصے کی خوشی کشید کرنا‘ پیدا کرنا۔ یہ کام محنت طلب ہے اور توجہ بھی چاہتا ہے۔ جو لوگ اپنے ماحول میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں وہ کسی بھی صورتِ حال کے لیے تیار رہتے ہیں اور جہاں بھی گنجائش دکھائی دیتی ہے، اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ خوشی کن باتوں سے مل سکتی ہے یا پیدا کی جاسکتی ہے؟ سب سے پہلے تو یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ خوشی ذہنی حالت کا نام ہے۔ اگر ہم مثبت طرزِ فکر کے حامل ہوں، معاملات کے روشن پہلو دیکھنے کے عادی ہوں تو کسی بھی معاملے سے اپنی ضرورت کے مطابق خوشی کشید کرسکتے ہیں۔ منفی طرزِ فکر کے حامل افراد شاذ و نادر ہی خوش رہ پاتے ہیں۔ جو لوگ ہر معاملے کا صرف تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہوں وہ بالکل سامنے کی خوشی بھی شناخت نہیں کر پاتے اور زود رنج ہی رہتے ہیں۔
خوشی کے مواقع ہمارے اطراف میں بکھرے رہتے ہیں۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں میں خاصی بڑی خوشیوں کا سامان ہوتا ہے مگر ہم بالعموم اُنہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اُنہیں بتائیے کہ خوشیاں تو چھوٹی چھوٹی باتوں ہی سے پیدا ہوتی ہیں تو یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ عمومی نفسی ساخت میں یہ بات کیل کی طرح گڑ چکی ہے کہ کوئی بھی خوشی کسی خاص حالت ہی سے پیدا ہوسکتی یا اخذ کی جاسکتی ہے۔ لوگ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم یومیہ معمولات کے دوران بھی اپنے لیے خوشیوں کا سامان کرسکتے ہیں۔ ہم یومیہ بنیاد پر ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو خوشی یقینی بنانے میں نمایاں حد تک ہماری مدد کرسکتا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ خوشی فی الواقع ملتی کب ہے، محسوس کب ہوتی ہے۔ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذہن اور دل میں جھانکنا پڑے گا۔ ہماری طرزِ فکر اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہم کب کس بات سے کتنے خوش ہوں گے۔ زندگی ہمیں قدم قدم پر خوش ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اُس موقع کو شناخت کرکے بروئے کار لانا ہمارا کام ہے۔ ہم نے آنکھیں بند رکھی ہوں تو اور بات ہے وگرنہ خوشیاں بانٹنے والے معاملات تو قدم قدم پر پائے جاتے ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ خوشیاں صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہم دوسروں کی خوشی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ کرتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی کا مدار اصلاً اِس بات پر ہے کہ کوئی اُن کے کس حد تک کام آتا ہے۔ پرندوں کے لیے باجرے، اناج کے دانوں اور پانی کا اہتمام کیجیے اور پھر دیکھیے کہ وہ کتنے خوش دکھائی دیتے ہیں۔ اور ہاں‘ اُن کی خوشی دیکھ کر آپ کو جو خوشی محسوس ہوگی اُس کے بارے میں بھی سوچئے۔ یہ خوشی آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ پرندوں کی تلاش میں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہمارے ماحول کا حصہ ہیں اور اُنہیں قدم قدم پر ہماری مدد درکار ہوتی ہے۔ وہ اپنی ضرورت بیان نہیں کرسکتے اِس لیے ہمیں سمجھنا ہوتا ہے کہ اُنہیں کب کیا درکار ہے۔ پرندوں کو کیا چاہیے؟ صرف دانہ پانی۔ گھونسلا سازی اور دوسرے بہت سے کام وہ خود کرلیتے ہیں۔ کیا ہم سے اِتنا بھی نہیں ہوسکتا؟ اِس چھوٹے سے کام میں جو خوشی چھپی ہوئی ہے اُس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یہ کام اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔ اِسی طور گلیوں میں بھٹکتے پھرتے کتوں اور بلیوں کا خیال رکھنا بھی ایسا کام ہے جس کے بطن سے خوشی ہی برآمد ہوتی ہے۔ کبھی کوئی بلی کا بچہ آپ کی مدد کا محتاج ہو تو اُس کی سلامتی یقینی بناکر اور اُس کا پیٹ باقاعدگی سے بھرنے کا اہتمام کرکے دیکھیے۔ اس عمل میں قدرت نے ایسی خوشی رکھی ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ گائے بکری وغیرہ تو ہماری باضابطہ ذمہ داری ہوتی ہیں ان کے کھانے پینے کا تو ہم خیال رکھتے ہیں‘ لاوارث کتوں اور بلیوں کے لیے پیٹ بھر کھانے کا اہتمام کیجیے‘ اُن کی طمانیت دیکھ کر عجیب ہی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
یہ تو ہوا بے زبان مخلوق کا معاملہ۔ ذرا سوچئے ہمارے ماحول میں بہت سے معمر اور معذور افراد کو ہماری مدد کی کتنی ضرورت رہتی ہے۔ اگر ہم بروقت کام آئیں، اُن کی مشکل آسان کریں تو اُنہیں کیسی طمانیت ملے گی اور اُن کی طمانیت دیکھ کر ہماری خوشی کا عالم کیا ہوگا۔ جو لوگ رضاکارانہ بنیاد پر خدمتِ خلق کرتے ہیں اُن کی زندگی کا سکون دیکھ کر ہم خوشیوں کا سامان کرنے سے متعلق بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ خوشیاں کسی کے دُکھ بانٹ کر، اُس کی مدد کرکے، اُس کی راہ سے کانٹے ہٹاکر ہی پیدا کی جاسکتی ہیں۔ کسی کے کام آنے سے ملنے والی خوشی سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں۔ لازم نہیں کہ صرف پیسوں سے کسی کی مدد کی جائے۔ کسی نابینا‘ بزرگ یا کمزور فرد کو سڑک پار کرادینا، کسی معمر فرد کا سامان اُس کے گھر تک پہنچانا، والدین سے بچھڑے ہوئے بچے کو اُس کے گھر پہنچادینا، کسی کو ضرورت کی کوئی چیز لادینا، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے کسی شخص کو اوڑھنے کے لیے کچھ دے دینا، شدید گرمی میں کسی کی پیاس بجھانا‘ یہ سارے کام ایسے ہیں جن کے بطن سے حقیقی مسرت برآمد ہوتی ہے۔
دولت کے ذریعے خوشیاں خریدنے یا تلاش کرنے کا سفر ختم ہونا چاہیے۔ یہ تخلیق کا معاملہ ہے۔ خوشیاں تخلیق کرنے کے مواقع جہاں تہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ دھیان سے دیکھیے تو آپ بہت جلد اپنے لیے خوشیوں کا سامان کرنے کے قابل ہوتے چلے جائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں