مہنگائی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ سفر کبھی رُکا ہے نہ رُکے گا۔ ذرا سوچئے کب زندگی آسان تھی؟ یاد آئے گا کہ کبھی ایسا نہیں تھا یعنی زندگی ہمیشہ کسی نہ کسی حوالے سے اُلجھن ہی سے دوچار رہی ہے۔ مہنگائی کا رونا سدابہار ہے۔ جسے موقع ملتا ہے وہ مہنگائی کے خلاف راگ الاپنے لگتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ اپنا دُکھڑا سُنانا نہیں چاہتے بلکہ ٹائم پاس کی جستجو میں رہتے ہیں۔ وقت بہت ہے، اُس کا کیا کریں۔ دنیا بھر میں وقت کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اِس مسئلے کو حل کرنے میں عمریں کھپ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ یہاں وقت اِتنا ہے کہ کاٹے نہیں کٹتا، خوب سوچ سمجھ کر یعنی منصوبہ سازی کے ذریعے ''قتل‘‘ کرنا پڑتا ہے! عام آدمی کا ایک انتہائی بنیادی دُکھڑا یہ ہے کہ دو سِروں کو ملانا آسان نہیں رہا یعنی بہت مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ ڈھنگ سے پیٹ بھرنا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے۔ معاشرے کی مجموعی روش اور حالت بلکہ گَت دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ گھسٹ گھسٹ کر جی رہے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جتنے مالی وسائل درکار ہیں وہ میسر نہیں کیونکہ آمدن کا گراف یا تو گِر رہا ہے یا پھر ٹھہرا ہوا ہے مگر مہنگائی کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ اشیا کی قیمتیں اور خدمات کے معاوضے بڑھاتے جانے کا رجحان عام ہے۔ اِس مجموعی کیفیت نے تنخواہ دار طبقے کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ وہ بے چارہ سمجھ ہی نہیں پارہا کہ حالات کے جبر اور دباؤ کا ڈھنگ سے سامنا کیونکر کرے۔ اُس کے لیے زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کا دُکھڑا برحق ہے مگر سوال یہ ہے اِس بند گلی سے کیونکر نکلا جائے۔ اگر کچھ نہ کیا جائے تو زندگی یونہی گزرتی رہے گی اور مسائل محض برقرار نہ رہیں گے بلکہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جائیں گے۔
گھریلو سطح پر معاشی الجھنوں کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کی جو حکمتِ عملی اپنائی جاتی ہے وہ ہمارے ہاں بالعموم نظر انداز کردی جاتی ہے۔ اب تک تو یہی ہوتا آیا ہے۔ اپنے پڑوس میں دیکھیے یا پھر مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بوجھ مل کر اٹھایا جاتا ہے، پھر چاہے وہ ملک کا ہو یا گھر کا۔ گھر کو چلانے کے لیے کمانا پڑتا ہے۔ گھر کو اچھی طرح چلانے کے لیے اچھی طرح کمانا پڑتا ہے۔ اشیا و خدمات میں سے اپنے لیے بہت کچھ چاہیے تو بہت کچھ کیجیے، زیادہ کمائیے۔ یہ بالکل سیدھا فارمولا ہے۔ کوئی بھی چیز اُتنی ہی میٹھی ہوگی جتنا ہم اُس میں گڑ ڈالیں گے۔ جو طے کرلیتے ہیں کہ ڈھنگ سے جئیں گے وہ زیادہ کام کرتے ہیں۔ 1997ء میں ریلیز ہونے والی ہیریسن فورڈ کی فلم ''ایئر فورس ون‘‘ کا ایک سادہ مگر خوبصورت جملہ بہت کچھ بیان کردیتا ہے۔ امریکی صدر جان مارشل کے طیارے کو ہائی جیک کرلیا جاتا ہے۔ جب ہیریسن فورڈ (صدر جان مارشل) ہائی جیکرز سے چھپ کر طیارے کا ایندھن گِرانے والا بٹن آن کردیتا ہے تو ہائی جیکرز کا سرغنہ وائٹ ہاؤس کو فون کرکے پرواز کے دوران ایندھن کی فراہمی کا کہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایئر فورس ون کو دوران پرواز re-fuel کیا جاسکتا ہے۔ جب وائٹ ہاؤس سے جواب ملتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں تو ہائی جیکرز کا سرغنہ خاصے نرم لہجے میں کہتا ہے ''یہ تو بالکل سمپل فزکس ہے۔ ایندھن نہ ہو تو طیارہ گر جاتا ہے!‘‘
زندگی کا معاملہ بھی تو ایسا ہی ہے۔ اگر ہم اچھا کمائیں گے تو اچھی زندگی گزاریں گے۔ کمائی معمولی ہوگی تو زندگی بھی معمولی ہی رہے گی۔ غریب گھرانے بہت سی اشیا و خدمات کو ترستے رہتے ہیں۔ ایسے گھرانوں کے بچے اچھی تعلیم پاسکتے ہیں نہ تربیت۔ اُن میں زیادہ اعتماد بھی نہیں پایا جاتا۔ بات ہو رہی تھی گھر کا بوجھ اٹھانے کی۔ کیا کسی بھی گھرانے کو کوئی ایک فرد ڈھنگ سے چلا سکتا ہے یعنی سارا مالی بوجھ اُس کے کاندھوں پر ڈالا جانا چاہیے؟ دانش کا تقاضا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی گھرانے کا مالی بوجھ تمام متعلقہ افراد کو مل جل کر اٹھانا چاہیے یعنی سب کو کام کرنا چاہیے۔ مغرب کے انتہائی ترقی یافتہ معاشروں نے بھی اُسی وقت ترقی ممکن بنائی جب گھر کے تمام افراد نے مل کر کام کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ صنعتی انقلاب نے یورپ کی تقدیر بدل دی مگر یہ سب کچھ محض مشینوں سے نہیں ہوا۔ گھر کی عورت بھی کمانے کی ذمہ داری کو محسوس کرنے لگی تو کچھ ہوا۔ لازم نہیں کہ ہر عورت کام کرے یا کُل وقتی بنیاد پر بہت کچھ کرے۔ گھر کے تمام افراد کے معاشی کردار کا مفہوم یہ ہے کہ پورے گھر کا بوجھ کسی ایک فرد کے کاندھوں پر نہیں ڈالا جانا چاہیے بلکہ بیوی اور بچوں کو بھی حتی الوسع اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
لازم نہیں کہ کوئی عورت گھر کا مالی بوجھ اٹھانے میں شوہر کی مدد کے لیے گھر سے باہر قدم رکھے اور کُل وقتی ملازمت ہی کرے۔ جُز وقتی بنیاد پر بھی کام کیا جاسکتا ہے اور گھر کی حدود میں رہتے ہوئے بھی کوئی معقول معاشی کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔ فی زمانہ ہر سطح پر آؤٹ سورسنگ عام ہے۔ بڑے کارخانے اور ادارے اپنے کام کو تقسیم کرکے گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کرواتے ہیں۔ اِس صورت میں اخراجات بھی گھٹتے ہیں اور کام کرنے والوں کو یومیہ سفر کی زحمت بھی اٹھانا نہیں پڑتی۔ اِس صورت میں خواتینِ خانہ بھی نمایاں معاشی کردار ادا کرکے گھر کے حالات بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ 1957ء میں ریلیز ہونے والی دلیپ کمار اور وجینتی مالا کی سپر ہٹ فلم ''نیا دور‘‘ کے ایک کورس کا مکھڑا تھا :
ساتھی ہاتھ بڑھانا ... ایک اکیلا تھک جائے گا، مل کر بوجھ اٹھانا
ساحرؔ لدھیانوی کی یہ تخلیق ایک انتہائی معیاری تحریکی گیت کا درجہ رکھتی ہے۔ محمد رفیع محروم، آشا بھوسلے اور ساتھیوں کے گائے ہوئے اِس گیت کو سن کر آج بھی لوگ اپنے اندر خاصا جوش و خروش ابھرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر معیاری زندگی صرف اُس وقت ممکن بنائی جاسکتی ہے جب تمام متعلقین اپنا اپنا کردار پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کریں۔
دنیا بھر میں گھریلو سطح پر مقبول ترین معاشی ماڈل یہ ہے کہ اعلیٰ معیارِ زندگی یقینی بنانے کے لیے سبھی کو مل جل کر کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ پورے گھر کی معاشی یا مالی ذمہ داری کوئی ایک فرد نبھائے تو اُس پر جسمانی اور ذہنی دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں جینے کا لطف جاتا رہتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو شخص پورے گھر کا معاشی بوجھ اٹھاتا ہے دنیا بھر کے طعنے بھی وہی سنتا ہے اور ہر معاملے میں ذمہ دار بھی اُسی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ مغربی معاشروں نے ثابت کیا ہے کہ گھر کے تمام افراد بھرپور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اپنا اپنا معاشی کردار ادا کرتے ہیں تو گھر کا ماحول تر و تازہ اور توانا رہتا ہے۔ جب گھر کے تمام افراد کماکر گھر کی ذمہ داری میں حصہ ڈالتے ہیں تب سبھی کو اندازہ ہوتا ہے کہ گھر چلانا کیا ہوتا ہے اور اِس کے لیے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں خواتینِ خانہ ہنر مند ہونے کے باوجود معاشی کردار ادا کرنے سے گریزاں رہتی ہیں۔ یہی حال نوجوانوں کا ہے۔ پندرہ سولہ سال کے لڑکے کو تھوڑا بہت کمانے کے قابل ہونا چاہیے۔ گھرانے کا سربراہ تو اپنا کردار ادا کرتا ہی رہتا ہے۔ اگر گھر کے دیگر افراد بھی اپنے اپنے حصے کا کام کریں تو کیا حرج ہے؟
یہ وقت سوچنے کا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کوئی ایک فرد پورے گھرانے کا بوجھ ڈھنگ سے نہیں اٹھا سکتا۔ اگر کوئی اپنی پوری قوت صرف کرکے ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی تو یہ بہر حال اُس پر ظلم ہے۔ گھر چلانے میں تمام اہلِ خانہ کو کسی نہ کسی حد تک کردار ادا کرنا ہی چاہیے۔ ایسا کرنے میں کچھ ہرج نہیں کیونکہ کسی بھی معاشرے میں وہی گھرانے کامیاب رہتے ہیں یعنی ترقی کرتے ہیں جن کا ہر فرد کچھ نہ کچھ کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں اب ناگزیر ہوچکا ہے کہ گھر چلانے کی مالی ذمہ داری ایک فرد پر نہ ہو۔ اِس حوالے سے سوشل انجینئرنگ ناگزیر ہوچکی ہے۔